افغانستان! ماضی کے آئینے میں۔۔محمد وقاص رشید

فرد ہو گھرانہ ،ادارہ یا پھر ایک قوم حال کا سفر ،ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے راستے پر جاری رہتا ہے ۔ یہی انسانی ارتقاء کی سادہ ترین تعریف ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ تجربات ہمیشہ خوشگوار تو نہیں ہوتے یہ ہمیشہ توقعات کی تکمیل پر منتج تو نہیں ہوتے تو ایسے میں ناکام تجربات کو اس ارتقائی مسافت میں کہاں رکھنا چاہیے۔ ناکامی ،نامرادی نا صرف ہماری منزل سے پیوستگی اور اخلاص کا امتحان ہے بلکہ اس کے اصولوں پر مبنی تجزیے سے حاصل ہونے والا سبق اور درس قدرت کی طرف سے ہمیں ہماری کامیابی کی اپنے انداز میں ایک نشاندہی بھی ہے ۔آج کی دنیا اسی عملِ پیہم کا ثمر ہے۔ اسی لیے مشہور مقولہ ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔۔۔کیونکہ تجربہ کرنے کے بعد آپ کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں اس قابل ہوتے ہیں کہ آپ کا دونوں طرح کا تجزیہ آپکے اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے ۔

اگر ہم اس تحریر کے عنوان اور دنیا کے موجودہ سیاسی تناظر میں اس تمہید کو رکھ کر دیکھیں تو افغانستان ،ہم پاکستانی قوم کے لیے ایک آئینہ ہے۔ فتحِ کابل پر جشن مناتے پاکستانیو کو دیکھ کر میں نے فوراً  اپنا آپ اس آئینے میں دیکھا تو ایک جھرجھری سی آ گئی۔۔بھلا نہ ہو قوم کو مذہبی اور لبرل کی ایک مستقل تقسیم میں پاٹنے والوں کا جو کہ ہر اہم موقع پر ٹھٹھہ بازی کا ایک ہیجان برپا کر دیتی ہے اور مل کر غورو فکر اور تدبر سے “کیا کھویا کیا پایا ” کی وہ فکری ریاضت پیچھے رہ جاتی ہے جو قوموں کے لیے بہتر حکمت عملی مرتب کرنے کا باعث ہوتی ہے۔۔۔یہاں ہم ہر دفعہ کی طرح ایک بار پھر اسی خلیج میں بٹے ہوئے۔۔۔ افسوس!

کیا واقعی افغانستان کا مسئلہ اتنا ہی سادہ ہے کہ ہم اس پر یہ تبصرہ کر کے اور ایک دوسرے کو مذہبی /لبرل کی جگت بازی کر کے مطمئن ہو کر چین کی نیند سو جائیں کہ سٹوڈنٹس نے امریکہ سے اپنی حکومت با آسانی واپس لے لی امریکہ اور بھارت کا نقصان ہوا اور افغانستان پر ہماری من پسند حکومت آ گئی۔۔ اللہ اللہ خیر سلہ۔۔  امریکہ ،پاکستان اور افغانستان کی اس تکون کے ماضی کو مدنظر رکھ کر یہ معاملہ اتنا سادہ نظر نہیں آتا کہ ہم بغلیں بجا کر اور ٹھٹھے لگا کر پر سکون ہو سکیں کیونکہ ماضی میں ان معاملات کو شخصی بنیادوں پر قلیل مدتی اپروچ سے سطحی اور سادہ انداز میں دیکھنے کے اثرات انتہائی بھیانک اور مہلک ثابت ہوئے۔اس تکون کا ماضی ہے کیا۔ ۔ آئیے دیکھتے ہیں!

1979 میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ بہادر کے لیے دنیا میں ایک متوازی عالمی طاقت سویت یونین کے پر کاٹ کر خود دنیا کا واحد اجارہ دار بننے کا یہ بہترین موقع تھا۔۔ پاکستان پر فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اسے اپنے 90 دن میں الیکشن کروانے والے وعدے کو 11 سالہ اقتدار تک محیط کرنے کا مردِ مومن مردِ حق والا سنہری موقع جانا اور رہی عرب طاقتیں تو اللہ دے اور بندہ لے۔ ۔امریکی ڈالروں اور برطانوی پاؤنڈز کی بارش میں سعودی عرب نے بہت سے ممالک سے افرادی قوت فراہم کی۔ خالصتاً سیاسی و جغرافیائی مسئلے کو مذہبی جزباتیت میں ملفوف کر کے بہت سارے مسلمان نوجوانوں کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا۔ جنہیں “ترجمتاً” سٹوڈنٹس کہا جاتا ہے ۔ ان سٹوڈنٹس کی جنگی تربیت کی استاد پاکستان کی فوج بنی اور نتیجتا افغانستان کے جغرافیائی حالات سے لا بلد روسی فوج شکست کھا گئی اور کم و بیش ایک دہائی کی اس جنگ کا اختتام روس کے انہدام ،امریکہ کے دنیا کے واحد سپر پاور بننے ، عرب بادشاہتوں کو امریکی آشیر باد ،اور سٹوڈنٹس کے افغانستان پر حکمران بننے پر ہوا۔۔۔۔میں نے جان بوجھ کر پاکستان کا ذکر نہیں کیا تاکہ آپ کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو کہ پاکستان کے حصے میں کیا آیا۔  ؟

پاکستان کے مردِ مومن مردِ حق کی قسمت میں ایک ہوائی سفر کے دوران خالق حقیقی سے جا ملنا لکھا گیا اور انکی اس ناعاقبت اندیش پالیسی کے نتیجے میں پاکستانی قوم اب تک ہوا میں معلق اپنے خالق حقیقی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اس ایک دہائی میں چند افراد نے پاکستان کی منزل یوں کھوٹی کی کہ اسکے بعد تین دہائیوں سے آج تک پوری قوم کی راہیں اندھیری ہیں۔۔مذہب کی اس آمرانہ تشریح اواسکے اطلاق کو پڑھنا چاہیں تو پچھلے تیس سال سے اس قوم کے سماجی رجحانات کو دیکھ لیں۔۔انسانی رویوں میں پائی جانے والی شدت پسندی کو دیکھ لیں اور بحیثیت ایک ملت کے زیاں کاری کی اس مسافت کی منزلیں دیکھ لیں۔۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا ،کہ پاکستان کو اس مزہب فروشی سے کیا ملا۔ ؟

امریکہ اور مردِ مومن مردِ حق نے پاکستانی قوم کو ٹشو کیطرح استعمال کر کے اس ٹشو کو افغانیوں کے لئے استعمال کے لئے چھوڑ دیا۔۔ پاکستان کی چھوٹی سی کمزور معیشت میں افغانیوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت کہاں تھی۔۔۔آہستہ آہستہ پاکستان افغانیوں کا پہلا اور پاکستانیوں کا دوسرا گھر بننے لگا۔۔۔کلاشنکوف کلچر، لا قانونیت منشیات ، اسمگلنگ اور سب سے مہلک گن پوائینٹ پر اسلام یہاں عام ہونے لگے۔۔۔شدت پسندی نے پورے سماج کو ایک جنگل بنا دیا اور سویت یونین ہی نہیں پاکستان بھی ان “مجاہدین ” کے ہاتھوں states into the state کے مصداق چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔۔۔اس ایک دہائی نے پاکستان میں جو دُہائی مچائی اسکی گونج آج بھی اس سرزمین کے کون و مکاں میں گونجتی ہے۔۔۔

امریکہ بہادر کے جانے کے بعد strategic depth کے نام پر ہم نے ایک جشن تب بھی منایا تھا،کیونکہ جشن یا سوگ کا فیصلہ یہاں دیرپا اصولوں اور قومی مفاد کو رکھ کر ادارے نہیں کرتے بلکہ ذاتی مفادات جیسی بے اصولی کے تحت افراد کیا کرتے ہیں۔  اسی بے سمت سفر میں قوم ان تمام ناعاقبت اندیشیوں کے مضمرات کے ساتھ ایک دہائی اور گزار لیتی ہے۔

ملک میں کہنے کو جمہوریت تو آتی ہے لیکن انہی مضمرات کے اثرات سے نبرد آزما اور سازشوں کا شکار۔۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان اثرات اور مضمرات کا جائزہ لے کر ایک نئی طویل المعیاد قومی پالیسی بنائی جاتی لیکن ہمارے ملکی تاریخ ایسے “ہونا تو یہ چاہیے تھا ” سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے ایک باس سارے قضیے میں جغرافیے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں اطراف میں ایک “علاقہ غیر” پایا جاتا تھا جو کہ مزکورہ بالا حالات کے لیے موذوں ترین تھا۔ اس علاقے پر اثرو رسوخ انہی “مجاہدین ” کا قائم تھا ۔جن کے پاس اسلحہ اور دولت اسی “افغان سوویت جنگ ” کے عطا کردہ تھے۔

اسکے بعد اس امریکہ کو “اچانک” یہ پتا چلا کہ اسے دنیا کی واحد سپر طاقت بنانے والے سٹوڈنٹس اب دنیا کے لیے خطرہ ہیں اور القاعدہ نامی ایک تنظیم کے سٹوڈنٹس کے ساتھ مراسم ہیں۔۔۔ اسی اثنا میں 11/9 کاسانحہ رونما ہو جاتا ہے اور امریکہ کو اسکے تانے بانے وہاں سے ملتے ہیں جہاں کبھی سلویسٹر سٹالین کی فلم Rambo 3 بنی تھی۔ اس لیے گھر کا بھیدی امریکہ تھا یا ہم اس بارے فیصلہ کم ازکم اس رشتے کے ساتھ ممکن نہیں جو ہمارا اور امریکہ کا رہا ہے۔  جس کو افتادِ طبع کے لئے پاک امریکہ تعلقات بھی کہہ لیتے ہیں یار لوگ۔

پاکستان میں سٹوڈنٹس اب استاد بن چکے تھے۔۔جیسے کہا جاتا ہے “بڑا استاد نکلا بھئی ” ۔انکے اثرورسوخ کا عالم دیکھنے کے لیے صرف ایک قصہ ہی کافی ہے اور وہ یہ کہ علاقہ غیر تو کجا پاکستان کے مشہور و معروف سیاحتی مقام اور دارالحکومت سے محض تین چار گھنٹے کے فاصلے پر موجود سوات انکا علاقہ تھا۔۔۔۔ انکی اپنی جاگیر۔

11/9 کے بعد امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد “War Against Terror” کا اعلان کر دیا اور انکے وزیرخارجہ نے پاکستان کا فون نمبر ملایا تو ایک اور ملکی بد بختی کہہ لیں کہ اس دفعہ فون اٹھانے والے جنرل صاحب مردِ مومن مردِ حق والے نہیں enlighten moderation والے تھے اور فردِ واحد نے ایک دفعہ پھر 20 ،22 کروڑ کی قوم کے مستقبل کے فیصلے پر اپنے مستقبل کے فیصلے کو ترجیح دی  اور اسکا نام رکھا “سب سے پہلے پاکستان ” ۔موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان کے بقول ڈالر لے کر اپنے شہریوں کو امریکہ کے حوا لے کیا گیا۔۔۔ایک بار پھر قومی مفاد ڈالر کے ایکسچینج ریٹ سے ضرب کھا گیا۔۔۔اور یہ کوئی الزام نہیں بلکہ انکی اپنی کتاب میں اعتراف ہے جسکا ذکر پچھلے دنوں وزیر اعظم جناب عمران خان نے فلور آف دی ہاؤس بھی کیا ۔

اس وقت “گریٹ گیم ” کے نام سے بہت ساری سازشی تھیوریاں گردش کرتی رہیں۔  یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان تو صرف بہانہ ،پاکستان +چین اصل میں نشانہ ہیں ۔نانی نے خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑ دیا اور بھی ستیاناس کر دیا۔۔پاکستان کا 11/9 کے سانحے سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر ہمارے کمانڈو صدر پرویز مشرف صاحب نے ایسا دفاعی ردعمل کا مظاہرہ کیا جس سے امریکیوں کے بقول وہ بھی حیران رہ گئے۔  فوجی آمر نے صرف اڈے ہی نہیں دیے بلکہ پاکستانی قوم کے جان مال عزت آبرو کے تابوت میں آخری کیل تب ٹھونکا جب پاکستانی فوج کو وزیرستان آپریشن کے لیے بھیج کر امریکی جنگ کو پورے پاکستان کے میں پھیلا دیا۔۔۔اسکے آگے کی کہانی بہت دردناک اور خون آشام ہے۔۔اس سے آگے داستان نہیں، ستر ہزار معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قبرستان ہے ۔ اس سے آگے ہر چوک چوراہے پر اڑتے انسانی جسموں کے چیتھڑے ہیں ۔ اس سے آگے اے پی ایس سکول کی دیواروں سے باہر پھینکی جانے والی اس ملک کی اگلی نسل کی گلہ کٹی اور گولیوں سے چھلنی لاشیں ہیں۔۔۔اس سے آگے اس خونی اور قاتل فصل کی کٹائی ہے جسکا بیج مطلق العنانیت نے بویا ایک فوجی آمر کے ہاتھوں سے لگائی گئی گرہوں کو قوم نے اپنے دانتوں سے کھولا اور لہو لہو ہو گئی۔۔۔۔
اسکے بعد ہزاروں پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد پاکستان نے اس دہشتگردی کی عفریت پر قابو پا لیا۔۔۔ ہر انسان کی جان ایک جتنی قیمتی ہے چاہے اسکے جسم پر فوجی وردی ہو ،پولیس کی یا پھر سول لباس میں ملبوس ہو۔

اسکے بعد امریکہ اور پاکستان دونوں جگہ حکومتیں تبدیل ہوئیں اور دونوں اطراف کی پالیسیز میں فرق دیکھنے میں آیا۔۔۔ وزیراعظم عمران خان جو 25 سال بطورِ اپوزیشن حکمران کہتے رہے وہ بطورِ حکمران کردکھانے کا موقع انکے ہاتھ آیا تو یو این میں کی جانے والی تاریخی تقریر ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے بیٹھ کر امریکہ کو افغانستان میں پاکستان کے مرہونِ منت پرامن سیاسی حل پر مائل کرنا ہو یا پھر اڈے دینے کے سوال پر Absolutely Not کا جواب۔۔۔۔قوم کو اعتماد اور دوٹوک انداز دکھائی دیا۔

آج جب نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے ستمبر 2021 تک تمام امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کا اعلان کیا تو خطے کی صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔۔۔ 95 فیصد امریکی افواج اپنے وطن واپس پہنچ چکی ہیں اور باقی ماندہ 5 فیصد کی واپسی اگلے چند دنوں میں ہو جائے گی۔۔امریکی صدر کے ایک بیان کہ ” 75 ہزار سٹوڈنٹس ، 3 لاکھ کی جدید اسلحے اور 20 سال کی امریکی فوج سے تربیت یافتہ فوج کو ہرا کر کابل پر قبضہ کسی صورت نہیں کر سکتے ” سے دوسرے بیان کہ “افغانستان کی فوج کو لڑنے کا جزبہ تو نہیں دے سکتے تھے۔۔۔اب اگر سٹوڈنٹس مستقبل میں تعاون چاہتے ہیں تو امریکی کونسلیٹ اور باقی ماندہ فوجیوں پر حملہ نہ کریں” کے درمیان محض ایک ہفتے کا وقت مندرجہ بالا تاریخ کے تناظر میں مجھ ادنی سے سادہ لوح طالبعلم کو تو اتنا سادہ معاملہ نظر نہیں آتا۔

پاکستان پچھلے تین سال سے سٹوڈنٹس اور امریکہ کے بیچ قطر مزاکرات و معاہدے کا سہولت کار ہے۔۔امریکی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کے اس اہم ترین موڑ پر پاکستان کے ایک اہم ترین سٹیک ہولڈر اور اس جنگ میں سب سےزیادہ نقصان اٹھانے والے حلیف ہونے کے باوجود پاکستان کو مسلسل نظر انداز کرنے پر وزیراعظم پاکستان کی طرف سے غیر مبہم واضح اور سب سے بڑھ کر غیر دفاعی پوزیشن ایک اہم پیشرفت ہے اس طرح کا قومی وقار کی بحالی والا سٹانس لے کر انہیں ڈرائیونگ سیٹ پر نظر آنا چاہیے۔۔فوری طور پر سیاسی اختلافات کی اینٹوں سے کھڑی انا کی دیوار کو گرا کر اپوزیشن رہنماؤں سے ملیں۔۔۔قومی اسمبلی کا جائینٹ سیشن بلوائیں۔۔وہاں اس اہم ترین تاریخی موڑ پر پاک افغان تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کے بعد اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ اعلامیے کی صورت پاک افغان خارجہ پالیسی کا اعلان کر کے دنیا کو اس اتحاد و یگانگت کے ذریعے ایک قوم ہونے کا پیغام دیا جائے۔۔۔جسکے فقدان کا خمیازہ دہائیوں تک اسی قوم کو بھگتنا پڑا۔

پچھلے دنوں فوج کے سربراہان کی طرف سے پارلیمینٹیرینز کو دی گئی اہم ترین بریفنگ میں خان صاحب کی عدم شرکت اور اس پر اپوزیشن رہنماؤں کا استفسار خان صاحب کے عشاق کے لیے تو انکے انا پرست تاثر کو تقویت دینے کا باعث ہو سکتا ہے لیکن مزکورہ بالا تاریخ کی روشنی میں یہ وہی آمرانہ رویہ ہے جس نے قومی مفاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

خان صاحب ایک سپورٹس مین رہے ہیں اور آج قوم کو انکی سپورٹس مین سپرٹ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔۔۔کیونکہ سٹوڈنٹس کے خلافت قائم کرنے سے پہلے بھارت کو ایک موقع دینے کے بیان ، برطانیہ کی طرف سے سٹوڈنٹس کا اگلا ہدف پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہونے کا بیان اور امریکہ کے بغیر کسی قابلِ عمل پرامن سیاسی حل کے افغانستان سے انخلا اور ہر طرف ایک پراسرار سی خاموشی خدانخواستہ کہیں کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نہ ہو۔ تاریخ کے تناظر میں اس ممکنہ طوفان کے خلاف کپتان ملی یکجہتی ،تدبر اور غور فکر پر مبنی ایک طویل المیعاد قومی پالیسی کا بادبان تان سکتے ہیں۔۔۔یہی انکی زندگی کا سب سے بڑا ورلڈ کپ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا امریکہ نے سٹوڈنٹس سے دو ہائیوں پر مبنی ٹریلین آف ڈالرز کی افغان جنگ ، انہیں افغانستان اتنے آرام سکون سے واپس لوٹانے کے لیے کی۔۔ کیا عالمی سرمایہ داروں نے پچھلے تین سال سے ہوتے “ٹیچر سٹوڈنٹ ” کے مزاکرات کے دوران مستقبل کے ممکنہ نقشے کے بارے ایک بار بھی نہیں سوچا ہو گا ؟ اگر یہ نقشہ واقعی انکی “توقعات ” سے الٹ ہے تو انکا آئیندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا اور اس لائحہ عمل کے ہر ممکنہ تناظر میں پاکستان خود کو کیسے دیکھتا ہے۔۔۔ان سوالات اور خدشات کو میں آپ کے سامنے رکھ کر اپنا قومی فرض نبھانا چاہتا ہوں اس اس تاسف کے ساتھ کہ ہمارے ماضی میں اس کا فقدان رہا اور اس امید کے ساتھ کہ ہمارا مستقبل اس سے لیس ہو گا۔۔۔۔ ہم شخصی نہیں قومی مفادات کا تحفظ کرتی پالیسی اپنائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply