آتش گِری کے سوداگر۔۔محسن علی خان

جون 1999ء میں صرف دو شوق عروج پر تھے۔ ایک انگلینڈ میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ دیکھنا دوسرا ایک ہفت روزہ اخبار“ ضرب مومن“ پڑھنا۔ یہ اخبار جمعہ کے دن آتا تھا۔ اسلامی تاریخ اور بنیادی دینی احکامات کے علاوہ شاندار مضامین پڑھنے کو ملتے تھے۔ اسی اخبار کے توسط ہمسایہ ملک میں جاری طالب آن کی فتوحات کی خبریں بھی ملتی تھیں۔ اخبار پڑھتے ہوۓ ساتھ ساتھ جنگ کا جو منظر دماغ میں اُبھرتا تھا وہ پی ٹی وی کے مرہون منت تھا۔ پی ٹی وی کے خبرنامہ میں جو چھوٹے ویڈیو کلپ دکھاۓ جاتے اُن میں دیکھا کرتے تھے کہ کیسے ٹینکوں پر لمبے بالوں، گھنی داڑھی رکھے، کالی پگڑیاں پہنے طالب آن کسی محاذ کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

شمالی اتحاد لفظ بھی تب ہی پتہ لگا۔ رشید دوستم سے بھی اسی اخبار میں تعارف ہوا۔ لیکن ولن کے کردار میں جو شخص متاثر کر رہا تھا وہ احمد شاہ مسعود تھا۔ دلیر شخص تھا۔ بہادر اور اگلے محاذوں پر خود لڑنے والا سپہ سالار تھا۔ بس ہارے ہوۓ لشکر میں تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اس طالب آن تحریک کو مکمل کامیابی ملی اور جلد ہی یہ کامیابی کچھ جذباتی فیصلوں کی نظر ہو کر توڑا بوڑا کے پہاڑوں میں دب گئی۔ بیس سال تک ایک اور زمانہ تھا۔ اس میں دنیا کی ترقی دیکھی، بدلتے موسم دیکھے لیکن افغانستان جوں کا توں رہا۔ خون کی ندی میں ڈوبا ہوا۔ پتھر کے زمانے کا، خشک مزاج، بے پروا سا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہاں صرف ایک ہی حکومت ہے۔“ موت کی حکومت“۔

آج کے افغانستان کو سمجھنے کے لیے ہمیں فلیش بیک کرنا ہو گا۔ کہانی وہی ہےِکردار بدلے ہیں، نام بدلے ہیں، اسٹیک ہولڈر بدلے ہیں۔ کوئی پرانی کہانی سناؤں گا تو آپ کہیں گے یہ بات تو کچھ دن پہلے سُنی تھی یا پڑھی تھی۔ اس میں نیا پن کیا ہے؟۔ اس لیے آپ کو پچھلی صدی میں لے چلتا، آپ اس کو موجودہ حالات کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ وہی کچھ ہو رہا جو پہلے ہو چُکا تھا، یعنی کہ ایک نہ ختم ہونے والی گیم جس کا تو سرا بھی اب گُم ہو گیا ہے۔

افغان جنگ کو عملی میدان میں دیکھنے والے، روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والے جنرل محموت احمد وچ گارییف نے اپنی کتاب“ میری آخری جنگ“ میں جو لکھا۔ ایسا لگ رہا وہ آج ہی کی کہانی لکھی جا رہی ہے۔ اس میں اس وقت کی فوج کے حالت کو دیکھیں اور اس کا موازنہ آج کی افغان فوج سے کریں تو 15 اگست 2021ء کا دن بخوبی سمجھ آجاۓ گا۔ اس کتاب میں سے افغان فوج کے دو واقعات یہاں لکھوں گا۔

ایک واقعہ میں دفاعی چوکیوں کے دورہ کے موقع پر جو صورتحال سامنے آئی وہ بہت دلچسپ تھی۔ جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ: میرے لیے سب سے حیران کُن اور غیر متوقع بات یہ تھی کہ زیادہ تر دفاعی پوزیشنیں خالی پڑی تھیں، ماڈل چوکی میں بھی ہُو کا عالم طاری تھا۔ کافی تگ ودو کے بعد ہم ایک سپاہی کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سپاہی مورچے کے داخلی راستے کے سامنے آہنی چارپائیوں کا انبار سجاۓ ایک کونے میں فرش پر دراز تھا۔ اپنے ہتھیار، بشمول چند خودکار رائفل اُس نے تکیوں اور گدوں کے ڈھیر تلے چھپا رکھے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس مورچے کے دفاع پر ایک درجن فوجی مامور ہیں لیکن موقع پر موجود سپاہی کے بقول گروپ کمانڈر چند سپاہیوں کے ہمراہ کمپنی کمانڈر کو ملنے گیا تھا جب کہ باقی ماندہ سپاہی کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کے سلسلہ میں قریبی گاؤں چلے گئے تھے۔ جب ہم کمپنی کمانڈر کی جاۓ فریضہ پہنچے تو وہاں صرف دو ٹیلی فون آپریٹر موجود تھے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ کمپنی کمانڈر بٹالین کمانڈر کو ملنے گیا ہے”.
اب آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ جو فوج ہی مورچوں کی بجاۓ پکنک پوائنٹ سنبھال کر بیٹھی ہو۔ وہ کیسے مزاحمت کر سکتی ہے۔

اسی طرح افغان فوج کا اخلاقی مورال کس قدر گر چکا تھا کہ
ایک مرتبہ کابل کے مضافات میں واقع فوجی اکیڈمی“ پخانتون“ کے دورہ کے دوران چند سپاہیوں نے صدر سے شکایت کی کہ اُن کا کمانڈر سیکنڈ لیفٹینینٹ دست درازی کرتا ہے اور اُن کے مشاہرے کا کچھ حصہ بھی ہضم کر جاتا ہے۔

اب یہاں آپ تحریر روک لیں۔ ایک نظر ہمسایہ مُلک پر ڈالیں۔ کیا آج بھی وہی کچھ نہیں ہو رہا تھا جو آج سے تیس سال پہلے تھا۔ آج بھی دو لاکھ تعداد کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج، جس کو دنیا کی پروفیشنل ٹریننگ کی سہولت میسر تھی، جس فوج کے بل بوتے پر ہندوستان نے اٹک کے مقام تک ایک ہی ہلہ میں پاکستان پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رکھا تھا، وہ فوج صرف ستر ہزار کے لشکر کے ہاتھوں تتر بتر ہو گئی۔ ستر ہزار بھی ٹکڑیوں کی صورت میں تھے۔

ازبکستان کے مشہور مصنف نورمرادوف نے بھی افغان جنگ میں شامل افراد اور اس سے جُڑے واقعات پر مبنی ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام“ خون آلود کفن“ ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ:
“ آج ہم افغانستان میں جنگ کی آگ بھڑکانے والے چہروں سے بخوبی آشنا ہیں لیکن ہم سب خاموش تماشائی بھی اس جُرم میں برابر کے شریک ہیں۔
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ:
“ کیا خوب ہوتا اگر اس سیاسی و فوجی مہم جوئی میں شریک اعلی فوجی افسران اپنی زبان سے یہ داستان بیان کرتے اور واضح کرتے کہ کُند ذہن قیادت کے صادر کردہ اندھے احکامات کی تعمیل کے نتیجہ میں کیا خمیازہ اُٹھانا پڑا۔ یہ لوگ خاموش کیوں ہیں؟ آخر کب تک یہ زباں بندی کے پابند رہیں گے؟ ایک نہ ایک دن انہیں منہ پر پڑے قفل کو کھولنا ہی ہو گا”۔

1993ء میں لکھی گئی اس کتاب میں مصنف نے جو سوال اُٹھاۓ ہیں آج اٹھائیس سال گزر جانے کے بعد بھی جواب طلب ہیں۔ کیا آج کی نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ یہ آگ کِس نے لگائی تھی۔ سچ کیا ہے۔ اب انجام کیا ہو گا۔
بقول گائی، سنیگیریف: افغان مسئلہ ایک ایسی دھاگوں سے بُنی گیند کے مانند ہے جس کے دھاگے بے ہنگم انداز میں اُلجھ چکے ہیں لیکن ہر دھاگے سے کوئی نہ کوئی سچ منسوب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب جو دھاگہ نظر آرہا ہے وہ فی الحال ایک نئی چال ہے۔ اب تو صرف سفارتخانے کے اُوپر ایک ہیلی کاپر کو دیکھتے ہی یار دوست نعرے لگانے لگ گئے، بھاگ گیا او بھاگ گیا۔ مجھے لگ رہا ابھی بھاگا نہیں ہے۔ پلٹ کر آۓ گا انداز بدل کر۔ اپنے حریفوں کے لیے اتنی آسانی سے گرم پانیوں کو جانے والا دروازہ نہیں کھلا رکھے گا۔ یہ سب حریف مذہب سے آزاد ہیں۔ اب کوئی صلیبی جنگ نہیں لڑ رہا۔ یہ سرمایہ داروں کی جنگ ہے۔ کمپنی میں زیادہ سے زیادہ حصہ رکھنے کی جنگ۔ یہی وہ جنگ ہے جس کے متعلق ہیمنگ وے نے کہا ہے کہ:
“ انسانوں پر جنگ مسلط کرنے والے بارود اور آتش گِری کے سوداگر خنزیر ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی کا واحد مقصد حصول دولت ہے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply