پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ مہنگائی کا تعلق پیٹرولیم مضنوعات کی قیمتوں کے مدو جزر سے گہرا ہے۔مسلم لیگ نون کی حکومت نے نئے سال کی آمد یعنی یکم جنوری کوپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کرنے کے بجائے گذشتہ قیمتیں ہی برقرار رکھی تھیں ،مگر قیمتوں کا یہ استحکام صرف پندرہ روزہ تھا اور اب وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2 روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا جس کا اطلاق 16 جنوری 2017 سے ہوگیا ہے اور نئی قیمتیں 31 جنوری تک برقرار رہیں گی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ 77 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 68 روپے 4 پیسے ہوجائے گی۔جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 77 روپے 22 پیسے فی لیٹر ہوگی۔
وزیر خزانہکے مطابق مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا اور ان کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رہیں گی۔ یاد رہے کہ وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں ایک روپے 77 پیسے ، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 94 پیسے اضافے کی تجویز دی تھی تاہم ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں دو روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اوگرا کی تجویز کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 1 روپے 77 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوگرا نے مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں 14 روپے 31 پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے 11 روپے اضافے کی سفارش کی تھی تاہم وزیراعظم نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔واضح رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا جائزہ 31 دسمبر 2016 کو بھی لیا گیا تھا تاہم سال نو کے موقع پر قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔حکومت نے عوام کو نئے سال کا تحفہ دیتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا،مگر اب حکومت نے وہی کیا جو اوگرا چاہتا ہے۔
یہ بات حیرت افروز ہے کہ جب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ پاکستانی صارفین کو نہیں پہنچایا جاتا مگر جونہی ایک یا آدھا ڈالر بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے تو اس کو جواز بنا کر پاکستانی عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔یہاں سب سے زیادہ متاثر سرکاری و سول ملازمین اور عام ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے مسافر ہوتے ہیں، کیونکہ ٹرانسپورٹر کرائے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر کرایوں میں از خود اضافہ کر دیتے ہیں،اور اگر کبھی پیٹولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی کر دی جائے تو بھی ٹرانسپورٹر حضرات کرایوں میں کمی نہیں کرتے اور نہ ہی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کبھی اس کا نوٹس لیتی ہے۔یوں عام آدمی دوہرے مصائب کی چکی میں پس کر رہ جاتا ہے۔حکومت نے اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کای ہی ہے تو اسے چاہیے کہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں استحاکم کے لیے فوری اور ہنگامی انتظامات بھی کرے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت کے سارے دعوے پہلے ہی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کے نزدیک ترقی کا معیار کیا ہے،مگر یہ ضرور ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتون میں اضافے سے لوگوں کی قوت خرید میں کمی آتی ہے اور یہ ترقی کی نہیں بلکہ تنزلی کی علامت ہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ گذشتہ کئی سالوں کے دوران میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ تو ہوا ہے مگر دوسری جانب عام آدمی کے ذرائع آمدن بڑھنے کے بجائے محدود ہوتے چلے جارہے ہیں۔حکومت اگر عالمی منڈی اور عالمی برادی و عالمی معاشروں ،قیمتیں بڑھاتے ہوئے موازنہ کرتی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ پھر عام آدمی کی وہ ضروریات بھی پوری کرنے مٰں وہی رویہ اختیار کرے جو عالمی برادری کے دیگر ممالک اپنے عوام کی فلاح کے لیے اختیار کرتے ہیں۔
ہم بہر حال یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے ساتھ زیادتی اور دھوکہ ہے۔اپوزیشن جماعتوں کو اس حوالے سے حکومت پر دباو ڈالنا چاہیے نیز حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے غیر ضروری اخراجات کی خاطر ٹیکسوں کو بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے اپنے اخراجات میں کمی لائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پیٹرولیم مضنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے اور عام آدمی سے زندہ رہنے کی موہوم امیدیں بھی نہ چھینے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply