• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی استعمار: سائیگان سے کابل تک۔۔امتیاز عالم

امریکی استعمار: سائیگان سے کابل تک۔۔امتیاز عالم

تین ہزار سے زائد امریکی فوجی کابل بھیجے گئے ہیں کہ وہ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں پر امریکی سفارتی و دیگر عملے کو بحفاظت نکال سکیں۔ ایک ہزار فوجی قطر اور چار ہزار کویت میں اُن کی ہنگامی مدد کے لئے تیار ہوں گے۔ منظر کچھ ویسا ہی ہے جیسا دنیا نے 1975ء میں ویت نامیوں کے ہاتھوں شکست کھا کر سائیگان شہر سے امریکیوں کے فرار کےفرار کے وقت دیکھے تھے۔ کابل میں ویسے ہی مناظر دیکھنے کو عالمی میڈیا بیقرار ہے۔ کسی بڑی مزاحمت کے بغیرطالبان دو ہفتوں میں پورے افغانستان پہ قابض ہوتے چلے جا رہے ہیں او راب کابل کے اطراف کے صوبے ان کے پاس ہیں اور شاید کابل کسی بڑی ڈیل کے نتیجے میں یا پھر ایک خون آشام لڑائی کے بعد بیس برس بعد پھر سے امارات اسلامی افغانستان کے امیر کا دارالخلافہ ہوگا۔ اس میں چند دن بھی لگ سکتے ہیں اور چند ہفتے بھی۔ ریپبلکن پارٹی کے قائد مچ میککانل نے صدر بائیڈن کے کابل سے امریکی انخلا کو سائیگون سے بھاگ نکلنے سے بھی بدتر منظر کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، حالانکہ اس کی بنیاد صدر ٹرمپ کے طالبان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے معاہدے نے رکھ دی تھی۔ پیرس میں ویت کانگ اور دوحہ میں طالبان سے امریکی بات چیت کے نتیجہ میں ملی بھی تو تاریخی ہزیمت۔ لگتا ہے 9/11 کی خوفناک دہشتگردی کے بیس سال مکمل ہونے سے پہلے ہی طالبان پھر سے کابل میں براجمان ہوں گے۔ امریکی استعمار کا بیک وقت افغانستان اور عراق میں جنگ کے جارج ڈبلیو بش کے اعلان کی کانگریس نے 518 ووٹوں کے ساتھ توثیق کی تھی۔ سوویت یونین کے خلاف سی آئی اے کی سب سے بڑی خفیہ جنگ صدر کارٹر کے دور میں شروع ہوئی تھی اور مجھے یاد ہے کہ اس کے قومی سلامتی کے مشیر بریز نسکی نے کس طرح طور خم کے پہاڑوں پہ کھڑے ہوکر بندوق لہرائی تھی۔ دس برس کی مارا ماری کے بعد افغان مجاہدین امریکی اور جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں کابل پہ قابض ہوئے تھے اور انہوں نے کابل کو کھنڈرات میں بدل دیا تھا۔ پھر طالبان بلا مزاحمت کابل پہ قابض ہوگئے تھے، جب 9/11 کے بعد کابل سے طالبان بھاگے تو جو بم پروف غار سی آئی اے نے بنائے تھے وہیں اسامہ بن لادن نے پناہ لی تھی اور ملا عمر غائب ہوگئے تھے۔ امریکی سلامتی کے ماہرین کا خیال تھا کہ افغانستان کا آپریشن مختصر ہوگا اور وہ عراق پر قبضہ کر کے وہاں کے تیل سے حاصل مال غنیمت سے افغانستان اور دیگر عرب ممالک کو تاراج کر کے اپنی فوجی نوآبادیات میں ڈھال لیں گے۔
اس دوران عراق، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن اور افغانستان نے تاریخ کی تباہ کن بمباری اور بد ترین خونخواری و تباہی دیکھی۔ آٹھ لاکھ لوگ مارے گئے اور تین کروڑ ستر لاکھ لوگ مہاجر بن کر دربدر ہوگئے۔ صرف افغانستان پہ امریکہ کا جنگی خرچہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہوا اور اس کے ایک لاکھ اور نیٹو کے 60 ہزار فوجیوں کے علاوہ تین لاکھ افغان اور 50 ہزارا سپیشل فورسز کے جوانوں کیساتھ 20 برس تک افغانستان کو تہس نہس کیاجاتا رہا اور تاریخ کے بدترین مہلک ہتھیاروں بشمول ’مدر آف آل بمبز‘ استعمال کیے گئے۔ طالبان گوریلا جنگجو یا تو عوام کے ساتھ گل ملگئے یا پھر پورس بارڈر کے آر پار اپنے پختون بھائیوں کے پاس سرکاری سرپرستی میں پناہ گزین ہوگئے۔ ان کی سب سے زیادہ مدد کی بھی تو امریکیوں کی وحشیانہ بمباری نے یا پھر کرزئی اور اشرف غنی کی نہایت نکمی اور کرپٹ حکومتوں نے۔ ’’ادھر بھی افغان اور اُدھر بھی ‘‘ کی بیرونی استعمار کے خلاف مزاحمت کا امیر کوئی ہے بھی تو ملا عمر یا اس کا جانشین! لیکن جب تحریک طالبان پاکستان نے پاک افغان مجاہدین کی طرح پختون قوم پرستوں کو نشانہ بنایا تو ان کے پاس چارا بچا بھی تو کرزئی یا پھر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتیں۔ سب سے زیادہ تذلیل ہوئی بھی ہے تو نیو کنزرویٹوز (Neo Cons) کی جو ’’قومی تعمیر‘‘ کے نام پر امریکی عسکریت پسند ایمپائر کی دھاک بٹھانا چاہتے تھے ۔ تاریخ میں 6 درجن استعماری ریاستیں اپنے غلبے کے مفاد میں پائوں پھیلاتی چلی گئیں اور نتیجتاً زوال کا شکار ہوگئیں۔ امریکی ایمپائر کی قسمت بھی مختلف ہونے والی نہیں۔ امریکہ جب یہ نہ ختم ہونے والی جنگیں لڑرہا تھا تو خود بھی ایک لاینحل مالیاتی، سیاسی اور اسٹرٹیجک بحران کا شکار ہوکے امریکی عوام کو بڑھتی ہوئی ابتلائوں کا شکار کررہا تھا۔ عالمی منڈی میں اس کی اجارہ داری کمزور پڑگئی اور چین زیادہ تیزی کے ساتھ دنیا کی بڑی معیشت بنتا چلا گیا۔
تو اب بات کابل میں 20 سالہ استعماری جنگ کے ڈراپ سین کی ہورہی ہے۔ آخری سین بہت ہی ڈرامائی ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے 3 ہزار فوجی کابل میں محض انخلاکے لئے نہیں آئے، شاید اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کی تدفین اور قربانی سے طالبان کو گلے لگانے کے کسی سمجھوتے پہ کام ہورہا ہے۔ پہلے ہی امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان سے مستقبل کے تعلقات پہ تفصیلی اور بار آور مشاورت کرچکے ہیں۔ بھلا اگر امریکی سابق افغان مجاہدین کو کرائے کے سپاہیوں کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں تو طالبان کو افغانستان میں اپنا پولیس مین بنانے میں کیا عار ہے۔ طالبان کو ڈالرز بھی چاہئیں اور عالمی حمایت بھی۔ طالبان نے اپنے سفارتی پتے سب سے بہتر کھیلے ہیں ۔انہوں نے پاکستان کو بھی خوب استعمال کیا اور اس کی تسلی کے لئے تشفی کی ٹرافی ملی بھی تو بھارتی اثر کے خاتمے کے امکان کی۔ کسی بڑی خون آشام جنگ کے بغیر جہاد فی سبیل اللہ سے طالبان نے فیض پایا ہے۔ لیکن مظلوم افغان عوام کو ملی بھی ہے تو ایک نو آبادیاتی غلبے کی پیداوار کٹھ پتلی حکومت کی جگہ قرون وسطیٰ کی وحشیانہ امارات۔ اب دنیا پریشان ہے تو اس بات پر کہ طالبان کے جلوُ میں جو درجن بھر جہادی گروپ ہیں وہ پھر سے پھن پھلائیں گے۔ پاکستان کے ہمسائے میں سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکی استعمار کی پسپائی پہ ہمارے سرکاری و غیر سرکاری جنگجوئیت پسند حلقے تو بہت خوش ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں افغان خانہ جنگی اور طالبان کی فتح کے ’’ثمرات‘‘ چوتھی بار سمیٹتے ہوئے پاکستان کو بڑے خطرات کا سامنا ہوگا۔ دنیا کے ہاتھ جلے ہیں تو ہمارے ہاتھوں پہ تو دستانے بھی نہیں ہیں۔ افغانستان پہ طالبان کا بھوت چھانے کو ہے، دیکھتے ہیں پاکستان میں یہ بھوت کیا رنگ دکھاتا ہے۔ طالبان نے وسیع البنیاد حکومت نہ بنائی اور وہی پرانی چال دہرائی تو پھر پاکستان مشکل میں پھنس سکتا ہے۔ اوریہ پہلی بار تو نہیں ہوگا!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply