کون؟۔۔ذیشان چانڈیہ

وقت قدرت کا ایک ایسا طاقتور کرشمہ ہے جولمحوں میں بدل جاتا ہے۔ انسان آسمان سے زمین پرآ گرتا ہے اور دوڑتے ہوئے گھٹنوں کے بل چلنے لگتا ہے۔  ایک عرصہ تک نام سے پُکارا جانے والا شخص ایک لمحے میں کون بن جاتا ہے۔ روزمرہ کے بدلتے  حالات و واقعات انسان کے لئے آزمائشوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔ اکثر ایک بات زیرِ  بحث آتی ہے ،کہ وقت بدلتا ہے یا انسان ؟ کیا اچھا اور بُرا وقت انسان کے بدلنے کا سبب بنتا ہے۔ جو محبت کو نفرت ، عزت کو ذلت ، اچھائی کو بُرائی اور نیکی کو بدی میں بدل کر رکھ دیتا ہے۔ کیا اس میں انسان کی فطرت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا یا انسان اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کو وقت پر ڈال دیتا ہے۔ اپنی ناکامیوں کو کسی اور چیز سے جوڑ کر خود کو جھوٹی تسلیاں دیتا ہے۔۔

اس سب کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور دکھانے والا میرا بہت قریبی ہے جس نے مجھے میرے نام سے “کون” تک لا کھڑا کیا۔ مختصراً یہ کہ میں اس قریبی دوست کے لئے اتنا اہم تھا کہ میرا نام لینا اس کے لئے باعث سُکون تھا اور مجھے دن میں کوئی بات کرنے سے پہلے میرے نام سے بُلایا جاتا تھا “ذیشان” اور میں کہتا تھا جی! اور پھر بات آگے بڑھتی تھی۔ آج قریب دو ماہ اور چوبیس دن بعد جب اسے کال کی تو میں نے بتایا کہ میں ذیشان ہوں تو جواب مِلا “کون ذیشان”؟  اور پھر فون بند۔

اس بات نے میرے سامنے کئی سوالات کھڑے کردیے۔  اس ایک بات نے میرے پاؤں تلے  سے زمین کھینچ لی اور جذبات کو ایک لمحے میں روند ڈالا ۔ دل دہل سا گیا اورسکتہ طاری ہو گیا۔ ایک انسان کبھی کبھی دوسرے انسان کو اپنی پہچان بنانا چاہتا ہے اور پھر اسی انسان کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ غلطی کس کی ہے وقت کی یا انسان کی ؟ بدل کون گیا وقت یا انسان ؟ ظاہری سی بات ہے انسان بدل گیا جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ہم تسلیم نہیں کرتے۔

یہاں اس بحث میں جانا ہی نہیں چاہیے کہ کس کی غلطی ہے کس کی نہیں اور بدلنے والا انسان کیوں بدل گیا۔ ایک انسان کے بدل جانے سے دوسرے پر فرق نہیں پڑنا چاہیے وہ ویسا ہی رہے جیسے پہلے ہے چاہے محبت ہو یا دوستی پہلے سے بڑھ کر کیئر کرے اور ہمیشہ اس انسان کے واپس آنے کا انتظار کرے تاکہ غلطیوں کو سُدھارا جا سکے۔ اس سب میں جو ایک بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ روابط میں تسلسل کا نہ ہونا اور افواہوں پر یقین رکھنا کسی انسان کے بدلنے کی سب سے بڑی وجہ ہوتا ہے۔  مِس کمیونیکیشن کی وجہ سے دنیا میں جنگیں ہوئیں ،فسادات ہوئے اور پھر اسی ایک وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے بھی دور ہوا۔ عام الفاظ میں ہم اسے اعتبار کا قتل بھی کہہ سکتے ہیں یا اعتبار کا نہ  ہونا جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے دور کرتا ہے۔ جب انسان ان سب مراحل سے گزرتا ہے اور اپنی تمام کمی اور کوتاہیو ں کو نظر انداز کر کے ملبہ وقت پر ڈال دیتا ہے تو اس طرح کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ روازنہ سینکڑوں لوگ اپنے نام سے “کون” ہوتے جاتے ہیں۔

اس کی ایک اور وجہ لوگوں کا پریکٹیکل ہو جانا بھی ہے۔  لوگ اب احساس  ، محبت   ، قدر  اور اچھائی کی   بجائے مقاصد کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس سب سے باہر نکلنے کے لئے ضروری ہے روابط میں تسلسل اور اعتبارکا لازمی  ہونا۔ اگر آپ سے بھی کوئی اس قدر انجان ہو چُکا ہے تو کوشش کریں وجہ تلاش کریں، اپنی کوتاہیوں کو دور کریں اور اپنے کھوئے ہوے نام اور پہچان کو حاصل کریں۔ آپ کی کوشش میں وقت بھی آپکا ساتھ دے گا، قدرت بھی ساتھ دے گی اور معاشرہ بھی۔ ایسا نہ کیا گیا اور ہم خاموشی سے زندگی گزارتے رہے تو آنے والے وقت میں ہم سب ایک دوسرے سے اتنے بے خبر ہو جائیں گے کہ پھر نام نہیں لیے جائیں گے صرف “کون “رہ جائیں  گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو آئیں وقت کے ساتھ فاصلے مٹائیں اور وقت کو الزام دینے کی بجائے اپنی غلطیوں کو سُدھاریں۔

Facebook Comments

Zeeshan Chandia
Zeeshan Chandia is the student of IR from Muslim Youth University Islamabad Zeeshanchandia05@gmail.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply