کپاس (35) ۔ ہڑتالیں/وہاراامباکر

صنعتوں میں ابتدائی مزدور وہ تھے جو کمزور ترین تھے۔ سب سے سستی لیبر بچے تھے۔ اور ابتدائی برسوں میں یہ بڑی تعداد میں بھرتی کئے گئے۔ ان کو اپرنٹس شپ پر رکھا جاتا جہاں کئی سالوں تک انہیں کام سکھایا جاتا۔ ایڈنبرا ریویو نے 1835 میں لکھا “فیکٹریاں بچوں کے لئے بہترین اور اہم ترین اکیڈمی ہیں۔ سڑکوں پر آوارہ پھرنے کے بجائے یہ ان کو ہنر سکھا رہی ہیں اور غلط راستوں پر جانے سے روک رہی ہیں”۔ اس وقت لنکاشائر کے فیکٹری مزدوروں میں سے 36 فیصد کی عمر سولہ سال سے کم تھی۔
جب روس میں مائیکل اوسووسکی نے پہلی مشینی سپننگ مل کھولی تو انہیں سینٹ پیٹرزبرگ کے یتیم خانے سے تین سو بچے دئے گئے۔
ملہاوس میں 1837 میں بچوں کے تحفظ کے لئے قانون بنا کہ آٹھ سے دس سال کے درمیان کی عمر کے بچوں سے دن میں دس گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ دس سے چودہ سال کی عمر کے بچوں سے دن کے بارہ گھنٹے سے زیادہ نہیں جبکہ چودہ سے سولہ سال کے بچوں سے زیادہ سے زیادہ تیرہ گھنٹے روزانہ کام کروانے کی حد مقرر کی گئی۔ رات کی شفٹ میں صرف چودہ سال سے زیادہ عمر کے بچے کام کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے علاوہ نوجوان غیرشادی شدہ خواتین کاٹن ورک فورس کا حصہ تھیں۔ یورپ اور امریکہ میں خواتین اس صنعت کے ورکرز میں اکثریت میں تھیں۔ مرد کوئلہ کی کانوں، لوہا بنانے اور ریل روڈ کی صنعت میں کام کرتے تھے۔
زیادہ تر خواتین دیہات سے آتی تھیں۔ ولیم ریتھ بون نیوجرسی میں فیکٹریوں کا دورہ کرنے کے بعد لکھا، “فیکٹری ورکر میں پڑھے لکھے کسانوں اور مذہبی گھرانوں کی خواتین بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ یہاں چند سال کام کر کے شادی کے لئے اپنی پوزیشن بنائیں گی”۔
مورخ کینتھ پومیرانز نے لکھا، “چین میں خاندانی نظام اکیلی خاتون کو گھر سے دور ملازمت کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ بیسویں صدی میں جب فیکٹریوں میں اچھی نگرانی والی رہائش گاہوں کا رواج آیا تو فیکٹری میں کام کرنا چینی خواتین کے لئے قابلِ عزت پیشہ قرار پایا”۔ جیک گولڈسٹون تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چین کی صنعتکاری میں تاخیر کی وجہ خواتین کی فیکٹری میں مزدوری کے لئے عدم دستیابی تھی۔
روس میں ابتدائی مزدور مجرم، جسم فروش، بھکاری اور دوسرے تھے جنہیں “عمر بھر انڈسٹری میں کام کرنے کی سزا” سنائی جاتی تھی۔
امریکہ کے ابتدائی صنعتی دور میں کئی ریاستوں میں قیدیوں کو کاٹن کی بنائی پر لگایا جاتا تھا۔ اپنی مرضی سے اجرت پر کام کرنے والوں سے بھی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ کرین ہوم کے پاس اپنی پولیس فورس تھی جو مزدوروں کو جسمانی سزا دیا کرتی تھی۔ ہیبسبرگ میں رواج تھا کہ مزدوروں کو فیکٹریوں میں ہی بند کر دیا جاتا تھا۔ ان کو صرف اتوار کے روز باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیموئل اولڈنو نے 1796 میں اپنی فیکٹری میں حاضری کا سسٹم نکالا۔ دن میں ہر مزدور کی چار مرتبہ حاضری لگائی جاتی تھی۔
حاضری اور مانٹرنگ کے نظام آج عام ہے لیکن یہ تصور کہ بڑی تعداد میں فیکٹری تک لوگ اپنی مرضی سے آئیں۔ ان کے کام کی نگرانی کی جائے۔ یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنی صلاحیت، مہارت اور توانائی پیداوار کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور اس کے عوض اجرت دی جائے۔ یہ خود انسانی معاشرت میں نیا تھا اور اس کے ڈسپلن اور ردھم کو کئی طریقوں سے بنایا گیا۔
اونچا شور مچاتی مشینوں میں خطرناک کام اور لمبے گھنٹے۔ فیکٹری ورکر کا یہ پیشہ پرکشش نہیں تھا۔ اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ کسان اور ہنرمند فیکٹریوں میں کام کرنے کے خلاف مزاحمت کرتے تھے۔
فرانس میں مزدوروں نے 1780 اور 1790 کی دہائی میں بغاوتیں کیں۔ نارمنڈی میں 1789 میں سینکڑوں کاٹن ورکرز نے فیکٹریوں پر حملے کئے اور توڑ پھوڑ کی جس میں سینکڑوں مشینیں تباہ کی گئیں۔ فوج اور نجی ملیشیا گروپ اس مزاحمت کو توڑنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ لیکن یہ ہمیشہ کامیاب نہیں رہا۔ 1820 میں فرانس میں پاور لوم کے خلاف ہونے والی بغاوت اتنی کامیاب رہی کہ نئی مشینوں کی تنصیب روک دی گئی۔
برطانیہ میں ہر قسم کی مشینوں کو ایجاد کے بعد استعمال پر توڑا گیا۔ 1811 اور 1812 میں ایسی بغاوتیں زور پر تھیں۔ سٹوک پورٹ میں سٹیم لوم توڑی گئیں۔ برٹش فوج نے ان سے نپٹا۔ مشین توڑنے کی ایک اور لہر 1826 میں آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغاوتیں دنیا میں بہت سی جگہوں پر ہوئیں۔ سوئٹزرلینڈ میں پاور لوم کو غیرقانونی قرار دینے پر تحریک 1820 کی دہائی میں چلائی گئی۔ آبرسٹر میں فیکٹری کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ڈچ شہر ٹل برگ میں سٹیم انجن متعارف کروانے پر 1827 میں مل مالک وان ڈورن کے گھر پر پتھراوٗ ہوا اور فیکٹری کے شیشے توڑے گئے۔
صنعتکاری کی کامیابی اس مزاحمت سے نپٹنا بھی تھی۔ اور اس میں کامیاب ہونے کی ایک وجہ فیوڈل اشرافیہ کا کمزور پڑ جانا تھی۔ اس کے بغیر صنعتکار اشرافیہ مضبوط نہ ہو پاتی۔
جب برطانیہ اور فرانس میں لڈائیٹ (مشین مخالف) مشینیں توڑ رہے تھے تو برٹش پارلیمان نے فروری 1812 میں قانون منظور کیا جس کے تحت مشین توڑنے پر سزائے موت رکھی گئی۔ اگلے دو برس میں 30 لڈائیٹ کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ 1830 میں 19 لڈائیٹ لٹکائے گئے۔ مزدوروں کے اکٹحا ہونے پر دس سال قید بامشقت سزا مقرر ہوئی۔ صنعتی علاقے میں ملٹری کی 155 بیرک بنیں جن کا مقصد مزدور ایکشن کو روکنا تھا۔ صنعتکار ورکرز کو قابو میں رکھنے کے لئے ریاست پر منحصر تھے۔ اور ریاست کی اپنی طاقت کا زیادہ سے زیادہ انحصار صنعت کی کامیابی پر ہوتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹریڈ یونین کا تصور آیا۔ پہلی یونین سٹوک پورٹ اور مانچسٹر میں میول سپنرز کی بنی۔ ہڑتال کا تصور آیا۔ امریکہ میں پہلی ہڑتال 1824 میں کاٹن ورکرز نے کی۔ سرمایہ دار اور صنعتکار ان ریاستوں کی طرف توجہ دیتے جہاں مزدور پر کنٹرول اچھا ہو۔
برطانیہ میں یہ چکر اس وقت ٹوٹا جب 1867 میں ورکنگ کلاس کو ووٹ کا حق ملا۔ 1875 میں کام کرنے کی کنڈیشن کے بارے میں اصلاحات لائی جا چکی تھیں۔ جرمنی میں 1918 کے انقلاب کے بعد مزدور کا ملازمت چھوڑنا قابلِ گرفت جرائم کی فہرست سے خارج ہوا۔
آج وہ چیزیں جو دنیا میں ہر جگہ مزدور اور ملازم کا حق سمجھی جاتی ہیں، ان کی قبولیت تک پہنچنے میں کئی دہائیوں کی ہڑتالیں اور بغاوتیں کارفرما رہی ہیں۔
کھیتوں میں غلامی کا نظام اور فیکٹریوں میں جبر کا نظام ایک دوسرے کو تقویت دیتے تھے۔ جب ایک بار ان کا انہدام ہوا، غلامی قصہ پارینہ بن گئی۔ یہ ہمیں صنعتی کیپٹلزم تک کیسے لایا ۔۔۔ اب یہ اجتماعی انسانی یادداشت سے محو ہو چکا ہے۔
جبری مشقت اور غلامی کا نظام جہاں سے بھی ایک بار ختم ہوا، لوٹ کر وہاں واپس نہیں آیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply