جشنِ آزادی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔خنساء سعید

وہ ایک عرب تاجر کی بیٹی تھی ،جس کو بحری قذافوں نے قید کر لیا تھا۔ وہ قید خانے میں تڑپتی، سسکتی، مگر اس کی مدد کو کوئی نہ آتا۔زندان کے درودیوار اس معصوم کی سسکیوں سے گونج اُٹھے تھے۔اُس کی آہ و بکا جب بغداد پہنچی تو ایک سترہ سالہ نوجوان کے خون نے جوش مارا اور وہ ہندوستان پہنچا، اُس نے ظلم کی دیواروں کو گرا ڈالا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی، تاریخ کے سنہرے اوراق اس بہادر سپوت کو محمد بن قاسم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جو آزادی پاکستان کی عمارت کا پہلا پتھر ثابت ہوا۔

برسوں پہلے دور سرزمینِ ہمالہ کے دامن میں ایک موٹی موٹی آنکھوں والے، چھوٹے سے قد اور سانولے رنگ کے مرد مومن نے، سرنگا پٹم قلعے میں سوراخ کر کے داخل ہونے والے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے اور وہیں پر شہادت پائی۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے اپنے مقدس لہو سے ہمالہ کی زمین کو سیراب کیا تھا، اور وہاں جو پھول کھلے تھے اُن میں گلستانِ پاکستان کی مہک محسوس ہونے لگی تھی۔

ایک سچے وطن پرست حکمران نواب سراج الدولہ نے جب جنگ پلاسی کا میدان سجایا تو آزادی پاکستان کی عمارت کو مضبوطی بخشی، بعد میں اس عمارت کی آرائش کبھی تو محمود غزنوی نے کی اور کبھی شہاب الدین غوری نے، پھر بہادر شاہ ظفر کا زندان، الطاف حسین حالی کی مسدس، سر سید کی درسگاہ علی گڑھ، علامہ محمد اقبال کا خواب، اور بہادر یار جنگ کی آواز کا شعلہ پاکستان بنا۔

ہندوستان کے سیاسی اندھیرے میں مسلمانوں کے اقتدار کا چراغ ٹیپو سلطان شہید کے لہو سے جلا اور اس چراغ کے اجالے میں سر سید احمد خان سے اقبال تک، اقبال سے بہادر یار جنگ تک، اور بہادر یار جنگ سے قائد اعظم تک سب ان محسن رہنماؤں کے قدموں سے مسلمانوں کے اقتدار اعلیٰ  کا ایک نیا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا اور بلآخر جب یہ راستہ بحرہ عرب کے ساحلی شہر کراچی تک پہنچ گیا تو آدھی رات کو اچانک ساری دنیا پاکستان زندہ باد کے گرجدار نعروں سے گونج اٹھی۔ آزادی کی یہ داستان بڑی خونچکاں تھی لہو لہو قافلے تھے۔اور انہی قافلوں سے ٹپکنے والا گرم گرم خون تعمیر گلستان میں شامل ہوا۔ یہ مہکتا ہوا حسین گلشن، پاک بہاروں کا عطر بیز چمن، غریبوں کی آرزوؤں اور شہیدوں کی جستجوؤں کا وطن بنا۔

ہمیں آزاد ہوئے 74 سال ہوگئے، مگر ہم آج تک ایک مسلسل بھونچال میں کھڑے ہیں۔ ٹھوکریں کھاتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہم ابھی ایک بحران سے زخمی اور نڈھال ہو کر نکلتے ہیں، کہ ابھی ہماری چشم ہوش نہیں کھلتی اور دوسرا بحران جو پہلے سے زیادہ کربناک ہوتا ہے ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ ایسا آزادی کے کچھ دنوں بعد ہی ہونا شروع ہو گیا تھا اور آج تک ہو رہا ہے۔ طغیانی کے خوف سے دریاؤں کے بند پہلے ہی مضبوط بنائے جاتے ہیں، نا کہ اس بات کا انتظار کیا جاتا ہے، کہ لوگ اور مکان بہہ جائیں اور پھر لوگوں کو مخفوظ مقامات پر پہنچا کر نام اور ثواب دونوں کما لیے جائیں۔

ہمارے ملک کے سیاستدانوں کا یہ ہی وطیرہ رہا ہے کہ تہذیب و تمدن کو روند کر غریبوں کے حقوق سلب کرو، جمہور کی محنت قابو میں رکھ کر انہیں بے ثمر کر دو، شہیدوں کی لاشوں پر ایوان تعمیر کرو اور اپنی عیاشیوں اور آسائشوں کو توفیق خداوندی قرار دے دو۔ سرمایہ داری کا استیصال کرنے کی بجائے ہماری قوم میں لاکھوں سرمایہ دار پیدا ہو گئے، جو کہ خو نخوار بھیڑیوں کی طرح اپنی ہی قوم کا خون چوس چوس کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں۔ اور استسقا ء کے مریض کی طرح کبھی سیر ہی نہیں ہوتے۔ انسان کو انسان نوچ رہا، گدھ بیٹھے یہ تماشا  دیکھ رہے ہیں۔

ہم آزاد ہوئے تو ہم نے سوچا اب ہم شب تیرہ کی تیرگی کا جنازہ نکال کر دم لیں گے۔ جبر و استبداد کی کالی گھٹائیں چھٹ جائیں گی اور عدل و انصاف کا قاضی محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کر دے گا۔غربت کے مہیب سائے ر خصت ہو جائیں گے اور خوش حالی اور فارغ البالی کا آفتاب طلوع ہو کر نحوستوں کا سینہ چیر کر رکھ دے گا۔ سرمایہ داری کی توند میں سے غریبوں کا پیا لہو نچوڑ لیا جائے گا اور فلاکت زدہ انسان امن و عافیت کے گہوارے میں خوشی کے نغمے گاتے ہوئے زندگی بسر کریں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہم نے اپنی آزادی کو اپنے کاندھوں پر اٹھا یا اور قبرستان میں دفن کر آئے۔اور اب بس ہم آزادی کا جشن “آزادی” سے مناتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یومِ آزادی پر ہم محبانِ وطن اپنے گھروں سے نکلیں گے ایک طرف سپیکرؤں سے آواز گونج رہی ہو گی “ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر” تو دوسری طرف ہم موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر ہاہاکار مچاتے پھریں گے۔ گاڑیوں کے اونچے اونچے ہارن، اور بے ڈھنگی آوازوں کے باجے بجائیں گے ، منہ اور جسم پر سفید رنگ کر کے، ننگے جسموں پر جھنڈے باندھ کر، انڈین گانوں پر ناچیں گے۔ آزادی کا جشن منانے کے بعد پورا ہفتہ جھنڈیاں اپنے پیروں تلے روند کر کہیں گے “ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔” وہ صبح جس کا انتظار ایک سو سال تک کیا گیا تھا وہ صبح شاید ابھی نہیں آئی۔ مقدس لہو تو اس لیے بہایا گیا تھا کہ ایک سنہری تاریخ رقم کی جائے۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا ہمارے محسن جس صبح صادق سے ہمیں نواز کر گئے تھے اُس کو ہم نے صبح کاذب بنا ڈالا۔
پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
ہم گجر بجنے سے دھوکہ کھا گئے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply