دکھاوا نہیں خود کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔۔عاصمہ حسن

اکثر  ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنی  پوری زندگی دکھاوے میں گزار دیتے ہیں ـ لوگ کیا کہیں گے’ لوگ کیا سوچیں گے اسی سوچ سے پریشان رہتے ہیں۔ ـ
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام خواہشات پوری ہو جاتی ہیں’ تمام آسائشیں حاصل ہوجاتی ہیں لیکن قلب کا سکون و اطمینان میسر نہیں ہوتا ‘ ہمہ وقت دل بے چین و پریشان رہتا ہے ـ بس زندگی گزرتی چلی جا رہی ہوتی ہے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ہمیں ان کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے کیا کرنا چاہیے، ـ ان کو راضی کرنے کے لئے ہم کیا کریں، ـ ان کو دکھانے کے لئے اپنی زندگی خراب کر لیتے ہیں، ـ لوگوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں ‘ خوابوں ‘ محبتوں ‘ اور رشتوں کو بھول جاتے ہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں اور وقت کو ضائع کرتے چلے جاتے ہیں، ان لوگوں کی خاطر جو کبھی خوش نہیں ہوتے ـ وہ لوگ ہمارے کسی عمل سے مطمئن نہیں ہوتے۔

کبھی  ایسا بھی ہوتا ہے کہ پوری زندگی ویسے گزارتے ہیں جیسا لوگ چاہتے ہیں حتٰی کہ خود کو بدل لیتے ہیں لیکن پھر بھی وہ لوگ خوش نہیں ہوتے ـ ایسے میں حاصل کچھ نہیں ہوتا نہ لوگ خوش ہوتے ہیں نہ آپ خود خوش رہ پاتے ہیں ـ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں کیونکہ لوگوں کے معیار پر اترنا آسان نہیں ہوتا۔ہم لوگوں کو خوش نہیں کر سکتے ہاں البتہ خود کو خوش کر سکتے ہیں’ مطمئن کر سکتے ہیں۔ ـ

آجکل ایک عجیب سا ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ ہم کئی کام صرف لوگوں کو دکھانے ‘ اپنا معیار و وقار یعنی اسٹیٹس بنانے کی خاطر کرتے ہیں اور اسی چکر میں دیوالیہ ہو جاتے ہیں جیسے پیسے کی نمائش’ تقریبات’ شادی بیاہ حتٰی کہ سالگرہ وغیرہ پر بھی اسراف سے کام لیتے ہیں اور اپنی چارد سے کہیں زیادہ خرچ کر لینے کے باعث ذہنی و مالی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں ـ اس کے علاوہ کپڑے ‘ جوتی ‘ بیگ ‘ گاڑی ‘ بنگلہ’ موبائل فون بھی برینڈڈ استعمال کرتے ہیں چاہے ان کو افورڈ کرنے کی صلاحیت ہو یا نہیں۔ ـ

آج کل کی نوجوان نسل بھی اسی وجہ سے تباہی کا شکار ہے کیونکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا چاہتی ہے والدین کو پریشان کیا جاتا ہے، کہ مہنگا موبائل لے کر دیا جائے کیونکہ ان کو دکھاوا کرنا ہوتا ہے اور یہ سوچ کہ لوگ کیا کہیں گے تنگ کرتی ہے ـ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ والدین کس طرح ضروریات پوری کر رہے ہیں ـ اسی کمتری کے احساس کی وجہ سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے غلط رستوں پر چل نکلتی ہے اور خودکشی تک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ـ

حتٰی کہ کچھ والدین بھی اپنے بچوں کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں کہ فلاں کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر ہے تو ہمارا بچہ کیوں نہیں ـ امتحان میں نمبر نہ آئے تو لوگ کیا کہیں گے ؟ انہی طعنوں کی وجہ سے خودکشی جیسے گناہ سرزد ہوتے ہیں ـ کیونکہ بچوں پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے اور ان کو کوئی اور راہ  نظر نہیں آتی ـ ہم لوگوں کے بارے میں اتنا سوچتے ہیں کہ اپنا آپ’ اپنے پیاروں کی خوشی’ اپنا آرام و سکوں سب بھول جاتے ہیں ـ یاد رہتا ہے تو صرف لوگ یا ان کی باتیں ـ  ،بت یہاں تک آجاتی ہے کہ کسی کا انتقال ہو جائے تب بھی لواحقین ادھار اُٹھا کر دیگیں پکواتے ہیں تمام رسومات ادا کی جاتی ہیں صرف اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے ـ اسی ڈر سے ادھار کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں ـ جن لوگوں کی خاطر سب کرتے ہیں وہ پھر بھی خوش نہیں ہوتے موقع ہو یا نہ ہو ناراضگی کا اظہار کر جاتے ہیں ـ گلہ شکوہ پھر بھی ان کی زبان پر رہتا ہے ـ۔
غرض زندگی کا کوئی بھی کام ہو ہم اپنا نہیں لوگوں کا سوچتے ہیں اُن لوگوں کا جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہوتا ـ۔

ہم لوگوں کو خوش نہیں کر سکتے، نہ ہی ان کی امیدوں پر پورا اتر سکتے ہیں کیونکہ سب کی سوچ اور سوچنے کا دائرہ’ وسائل’ مسائل’ ماحول’ اور حالات و واقعات سب مختلف ہوتے ہیں ـ ایک ماں کی اولاد اور ایک ہی ماحول میں پرورش پانے والے بچے ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ مختلف عادات و اطوار کے مالک ہوتے ہیں پھر وہ لوگ جو ہیں ہی مختلف وہ کیسے ایک جیسا سوچ پائیں گے یا آپ کو سمجھ ہی پائیں گے ـ۔

لہٰذا اپنی سوچ کا زاویہ بدلیں اپنے اندر تبدیلی لائیں کیونکہ ہم اپنے آپ پر کام کر سکتے ہیں ‘ خود کو بدل سکتے ہیں لیکن دوسروں کو نہیں بدل سکتے ـ۔ہمارا ہم پر سب سے زیادہ حق ہے اور ہمیں خوش رہنے کا حق حاصل ہے اپنے وسائل کے اندر رہ کر خوش رہنا سیکھنا چاہیے یہی اصل کامیابی اور دائمی خوشی کا راز ہے ـ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنے لئے جینا ہے دوسروں کے لئے نہیں ـ
ایک دفعہ اپنی سوچ بدل کر دیکھیں ـ تھوڑی دقت ضرور ہو گی’ وقت لگے گا لیکن مشکل آسان ہو جائے گی اور وقت ہی آسانیاں پیدا کرے گا ـ۔
چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جن کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں ـ۔واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ ” آپ وہ عمل نہ کرنا جو دوسروں کے کہنے پر ہو ‘ ورنہ آپ پریشان ہو جائیں گے ” ۔ـ

آج کے دور میں تو صرف دکھاوا ہی چل رہا ہے ـ کسی مفلس حال کی مدد کی تو تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دیں صرف دکھاوے کے چکر میں کہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ آپ کتنے دینے والے ہیں یا آپ کتنی لوگوں کی مدد کرتے ہیں ـ کئی دفعہ ہم ایسا صرف اپنی ذاتی تسکین کے لئے بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمیں لوگوں سے اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے۔ ـ
ہمیں لوگوں کی تعریف کی یا ان کی سوچ کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنے آخری منزل کی فکر ہونی چاہیے ـ اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونا ہے اس کے لئے دن رات سوچنا چاہیے اور اپنا عمل درست کرنا چاہیے تاکہ وہاں شرمندگی نہ ہو۔ ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگوں کا کیا ہے وہ تو باتیں کریں گے آپ ان کی مانیں تب بھی نہ مانیں تب بھی ـ فرضی نمودونمائش  کے چکر میں کئی خاندان خود کو تباہ کر لیتے ہیں ـ ان کی استطاعت ہو یا نہ ہو لیکن ایسی تقریبات منعقد کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں جو نہ صرف بلا ضرورت ہوتی ہیں بلکہ ان میں میزبان بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگ واہ واہ کر سکیں ‘ میزبان کی تعریف ہو سکے حالانکہ مہمان گھر جا کر کچھ دن بعد بھول جاتا ہے کہ کیا کھایا تھا یا کسی نے کیا پہنا تھا لیکن میزبان اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کر جاتا ہے ـ اکژ لوگ ایسی محفلیں سجا کر لوگوں کو یہ بتانے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی معاشرے میں اعلی مقام رکھتے ہیں اور وہ کسی سے کم نہیں جو سراسر زیادتی ہوتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ خود اپنے ساتھ  ہمیں روزمرہ زندگی میں سادگی اپنانی چاہیے سب سے بڑھ کر اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیے  ـ خود نمائی’ فضول خرچی سے بچنا چاہیے ـ اپنی اولاد کی بھی تربیت اسی طرز پر کرنی چاہیے تاکہ وہ بھی سادہ زندگی کی اہمیت کو سمجھ سکیں ـ ہمیں بچت کی عادت اپنانی چاہیے جس میں انفرادی اور اجتماعی فائدہ ہے ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دکھاوا نہیں خود کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔۔عاصمہ حسن

Leave a Reply