ما بعد از پائے۔۔۔ معاذ بن محمود

انسان اس عالمِ فانی میں برہنہ تشریف لاتا ہے۔ جامہ پوشی اسے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنی پڑتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جامہپوشی خوب طبیعت سے سیکھنے کے بعد بھی انسان جہاں اور جس پر داؤ لگے اس کے برعکس اپنی فطری حالت و ابتدائی مقام کوواپس جانے کی سعی میں جتا رہتا ہے۔ پس اے دوستو! حاصل یہاں تک کا کلام یہی ہے کہ بندہ بہت سے تجربات پہلی بار حاصلکرتا ہے۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھیے گا۔ ہم اس پر واپس آئیں گے مگر اس سے پہلے برصغیر کی چند چیدہ خصوصیات پر نظر ڈالتے ہیں، کہکڑی سے کڑی ملانے کا اپنا مزا ہے (کڑی اردو والی ہے، پنجابی والی ہو تو بھی فقرہ درست بیٹھتا ہے)۔

برصغیر پاک و ہند کی آبادی اسی سرعت سے بڑھ رہی ہے جس تیزی سے مغرب کے جامہ بالا و زیریں کا رقبہ چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔مغرب کی باتیں مغرب ہی جانے البتہ برصغیر کی بڑھتی آبادی کے اثرات و ثمرات ایک عدد واجب الفکر موضوع ہے۔ ایک وقتتھا کہ ہمارے کھیت کھلیان لہلہاتے سر سبز و شاداب تھے۔ تب تک ہند و پاک سنڈاس کی نحوست سے نابلد تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہخوش خوراکی کا ثبوت دینے کے بعد نظام انہضام کی کاملیت کا ثبوت دینے کھیت میں جانا پڑتا۔ اللہ اللہ۔۔ کیا مناظر ہوتے ہوں گےجب جتھے کے جتھے ہاتھ میں لوٹا لیے کھیتوں کی جانب رواں نظر آتے ہوں گے۔ گزشتہ سے پیوستہ ان تخیلاتی مناظر پر ذرا غور کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ باہمی دلچسپی کے امور پر بات کرنے کے لیے بغیر کسی چائے بسکٹ کے خرچے یہ ایک بہترین موقع ہوتا ہوگا۔مثلاً کرتار سنگھ اور چوہدری اکبر دورانِ دورہ میاہ ناصرف بٹوارے پر بات کر رہے ہوں بلکہ ہر کچھ دیر بعد اپنے کیے پر شرمندہ ہوئےبغیر نئے کیے کرانے کے لیے تین فٹ آگے بھی بڑھتے جاتے ہوں گے۔ یوں دورانِ گفتگو تب کے دہقان ناصرف معدوی و دماغیتبخیر سے جان چھڑا کر ہلکا محسوس کرتے ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے کھیت کو مزید سر سبز کرنے کا مؤجب بھی بنتے ہوںگے۔ تب قدرتی کھاد کھیت کو شاداب بنائے رکھتی تھی۔ سب کچھ بہترین چل رہا تھا کہ گورا سنڈاس کلچر لے آیا۔

اور اس کے بعد ہمارے کھیت کھلیان بنجر ہونے لگے۔ ہمارا دہقان بھوک کی جانب چلنا شروع ہوگیا۔

بھوک بڑی بری شے ہوتی ہے صاحب۔ سوچیے، دو بٹ برادران ہوں، دونوں ہی بھوکے ہوں اور سامنے فقط ایک مج المعروفبھینس ہو۔ بٹ بھی کیا کریں؟ ظاہر ہے، یہ ناصرف بھینس میں سے کپورے برآمد کر لیں گے بلکہ بھینس کی کھیری، مغز اورپائے۔۔۔ سبھی کچھ چٹ کر جائیں گے۔ ایسے میں بٹوں سے مبالغہ آرائی منسوب کرنا نہایت ہی قبیح فعل ہے کیونکہ اس بھوک کیاصل وجہ انگریزوں کی جانب سے سنڈاس کلچر کا تعارف تھا جس کا نتیجہ بھوکے افراد کی صورت میں سامنے آیا۔ اب اگر دو بٹایک بھینس کھینچ جائیں تو یہاں بٹوں کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے کیونکہ۔۔۔ بھوک بڑی بری شے ہوتی ہے صاحب!

تو صاحب۔۔ بھوک بندے کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ مقتول و مرحوم جانور کا کوئی حصہ زمیں بوس نہ کرنے پائے۔ انہی حصوں میں سےایک پائے ہیں۔ ویسے تو چوپائے کے خصیے بھی پکوان میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں تاہم اس تحریر کی تحریک پائے ہیں۔ خصیوںسے یاد آیا، بخدا ہم کسی طور صنف نازک کی تحقیر کے حامی نہیں لہذا جس شوق سے کپوروں کو پکوان کا درجہ دیتے ہیں اسی ذوقسے کھیری کو تعظیم دیا کرتے ہیں۔ خیر ہمارا آج کا عنوان بہرحال پائے اور ما بعد از پائے ہے۔

اس بے سری و بے پائے تحریر کے آغاز میں ہم نے پہلی پہلی بار ہونے والے تجربات کا ذکر کیا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کے ہمدرویش دہقان پائے کیسے لاگے اس کے سرسری حال پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ اب میں قارئین کرام کو ایک لطیف معاملے کیبابت ذاتی تجربہ بیان کرنا چاہوں گا۔ ویسے تو لطیف ترین تجربات میں بلوغت کا آغاز اور شبِ زفاف سرفہرست ہیں تاہم پائے اورما بعد از پائے بھی لطافت بلکہ کثافت میں کچھ کم مرتبہ نہیں رکھتے۔

تو صاحبو، ہمیں بلوغت سے ہم کنار ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے تھے۔ سردیوں کا ہر جمعہ نت نئے بالغ بچگان کے لیے بھاریہوتا ہے۔ جب جب آپ آنے والے روز کا جمعہ فقط وضو سے بھگتانے کا فیصلہ کرتے ہیں، قدرت آپ کوشٹ اپ اینڈ فک یوکہتی انگشتِ منجھل کا دیدار کراتی ادھر سے آتی ادھر گم ہوجایا کرتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اب تو بوجہ ایامِ مخصوصہ(وبا پڑھیے) جمعہ پڑھے ایک عرصہ ہوا، ان دنوں جمعہ نہ پڑھنا کفر سے زیادہ بڑا گناہ ہوا کرتا تھا۔ ابا مرحوم تو چلو خطبے میں دلچسپی نہرکھنے پر صلوتیں سنا دیا کرتے مگر ضمیر کا کیا ہو صاحب جو امت مسلمہ کو ڈھکوسلہ سمجھنے سے کہیں زیادہ جمعہ گول کرنے کے تصور پرلعنت و ملامت کیا کرتا۔

یہ بات مگر اماں کو کون سمجھاتا؟ ابا کے ایما پر جب ایک فیصلہ ہوگیا سو ہوگیا۔ پائے پکنے ہیں سو پک کر رہیں گے، اور پک کر رہے۔اصول یہ تھا کہ جو پکا ہے کھانا ہے۔ نہ کھانے کی وجہ بھی ہو تو کیا؟ آج بھی گو عمل سے نہ سہی، باقی اوصاف تو مسلمانوں والے ہیہیں۔ مختون ہیں، با ایمان ہیں، اسلامی نام ہے اور سب سے بڑھ کر۔۔۔ گوشت کے رسیا ہیں۔ اب ہیں سو ہیں، تھے سو تھے۔پائے سامنے آئے، جمعرات کو رستی، سنی ہوئی چِپ چِپ کرتی انگلیوں سے مزے لے لے کر کھائے۔ کیا معلوم تھا کہ پائوں کا یہلیس ہی عذاب بن کر رہ جائے گا!

اس روز بھی پائے کھاتے ہوئے بہت مزا آیا۔ آج کل اتنا مزا کامران طفیل صاحب کی باتیں سن کر آتا ہے یا بھٹی صاحب کیسنگت حاصل کر کے۔ انعام بھائی کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کم و بیش ویسا ہی مزا دیتی ہے اور افضل بھائی کے پرانے قصے بھی۔ تبالبتہ ان میں سے ایک نعمت بھی میسر نہ تھی لہذا اس چسکے کی تمثیل محال تھی۔

اس قدر ثقیل طعام کے بعد معدے کی جانب سے شکایت موصول ہونا شروع ہوئی۔ ایک آدھ بار نظرانداز کیا کہ تب تک باہر شاہینبازار میں کسی کام سے پہنچ چکے تھے۔ شاہین بازار چھے فٹ کے عرض پر پھیلا ایک لمبا بازار ہے جس کی لمبائی شنید ہے کہ افضلبھائی کی آنت سے کچھ کم ہے۔ اب معدے نے پہلا الارم دیا تو ہم نے نظر انداز کیا۔ سوچا افواہ ہے۔ تاہم احتجاج کا سلسلہ جاریرہا یہاں تک کہ ساتھ چلتے ساتھی نے بھی محسوس کیا۔ اب معاملہ سنجیدہ ہوچکا تھا۔ پہلے پہل تیز قدموں پر اکتفا کیا تاہم بعد میںیوسین بولٹ بننے سے پہلے ساتھی کو آگاہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملی۔

ما بعد از پائے کا یہ تجربہ ہولناک تھا۔ سوچا تھا اتنے پر اکتفا ہو پائے گا۔۔۔ مگر صاحب۔۔۔ وہ پائے ہی کیا جو تبخیر کے بعد حدتسے روشناس نہ کروائیں۔ مانا کہ سرد موسم میں نمی نمی گرمی اچھی لگتی ہے مگر تاتمان اچانک سے بڑھ جانا بھی کوئی شرافت ہوئی؟

شام ہونے تک ہم سخت قسم کے احساسات سے متعارف ہو رہے تھے۔ بعد طعامِ لیل ہم نے دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ وقتبتانے کی بجائے اوپر اپنے بستر کی راہ لینے میں عافیت جانی۔ سردیوں کے دن تھے، لحاف میں دبک کر اندازہ ہوا کہ سخت لونڈا یعنیباچیز پگھلنے کے درپے ہے۔ مسلم معاشرہ، احساسِ گندی سوچیں، نئی نئی بلوغت اور پائے۔۔۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

ساری رات گونگے خوابوں کی بے آواز فلمیں چلتی رہیں، صبح تک معلوم ہو چکا تھا کہ کپڑوں سے بکرم کیسے بنائی جاتی ہے۔

سخت سردی اور جمعہ کا مبارک روز! کیا آپ نے نوٹ کیا کہ سردیوں میں جمعۃ المبارک کے پیغامات آج بھی کم کم موصول ہوتےہیں۔ غالباً جتنا جمعے کا دن مبارک ہوتا ہے اتنی ہیسختپچھلی رات۔ کم از کم اس دن میرے احساسات یہی تھے۔ خیر مرتےکیا نہ کرتے، نصف ایمان ہمارا ویسے ہی قابلِ مواخذہ ہے اور باقی کا نصف طہارت سے دور ہو کر کھو چکے تھے۔ کچھ دیر بعد مولویصاحب نے صدائے جمعہ لگانا شروع کر دینی تھی، سو نہانے کے لیے گھسنا پڑا۔

حضرات و خواتین، باچیز نے چار سال دورانِ ٹیلی کام انجینئیرنگ فورئیر ٹرانسفارم، فاسٹ فورئیر ٹرانسفارم اور انورس فورئیر ٹرانسفارمکے علاوہ الیکٹرمیگُیٹک ویو تھیوری واحد و اثنین پڑھے ہیں۔ باچیز گزشتہ ۱۴ برس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اندر باہر ہو چکا ہے جسدوران انتہائی پچیدہ گتھیوں سے پالا پڑا۔ اس کے باوجود، ٹھنڈ میں برپا ہونے والے غسل کے ابتدائی لمحات میں گرم و سرد پانی کےمیزان کا جو مسئلہ امت مسلمہ کو لاحق ہے، خدا کی قسم یہ کائنات کے رموز و اسرار میں سے ایک رہے گا۔ مجال ہے کہ کم سے کمایک اوئی حق بجانب سرد پانی اور دوسری گرم پانی کے حق میں جاری ہوئے بغیر آپ توازن حاصل کر پائیں۔ اس روز بھی ایسا ہیہوا تاہم آنے والے مستقبل کے برعکس تب کی کوفت کہیں زیادہ تھی کہ یہ سب ما بعد از پائے کا حصہ تھا۔

کیوں کھائے تو نے پائے؟

دوستو! انسان اس عالمِ فانی میں برہنہ تشریف لاتا ہے۔ جامہ پوشی اسے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنی پڑتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہجامہ پوشی خوب طبیعت سے سیکھنے کے بعد بھی انسان جہاں اور جس پر داؤ لگے اس کے برعکس اپنی فطری حالت و ابتدائی مقامکو واپس جانے کی سعی میں جتا رہتا ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے، تاہم آج، بلوغت کے پہلے تجربے کے دو دہائیوں بعد میرا ماننا یہ ہے کہما بعد از پائے انسان ملبوسات سے قصداً تغافل کی جانب چل نکلتا ہے۔ لہذا پائے کھائیے، مگر ما بعد از پائے کے ذمہ دار آپ خودہوں گے۔

نوٹ: یہ تحریر پائے کھانے کے بعد لکھی گئی شاید تبھی ایسی لکھی گئی۔

۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply