جنسی ہراسگی، وائنسٹائن سے سوشل میڈیا تک۔۔۔ انعام رانا

سلسلہ شروع ہوا ہاروی وائنسٹائن سے اور سمجھئیے چھوت کی طرح پھیلا۔ اکتوبر میں اینجلا جولی اور گوئلتھ پالترو جیسی نامی گرامی اداکاراوں نے ہالی وڈ مغل، ہاروی وائنسٹائن پر جنسی ہراسگی کا الزام لگایا اور پھر تو جیسے بارش ہو گئی۔ اسّی کے قریب خواتین سامنے آ گئیں جو سن ستر سے اب تک ہاروی کی ہراسگی کا شکار ہوئیں۔ تھو تھو اتنی بڑھی کہ ہاروی کو اپنے ہی بنائے سٹوڈیو سے برطرف کر دیا گیا اور اب قانونی کاروائی اور ہرجانے کے دعووں کا سامنا ہے۔ اس واقعے سے ہمت پکڑی اور خواتین آہستہ آہستہ دیگر شخصیات کے اوپر الزام لگاتی سامنے آتی گئیں۔ بین ایفلک اور کیون سپیسی جیسے معروف اداکار بھی الزامات کی زد میں آ گئے۔ اور تو اور ترانوے سالہ سابق امریکی صدر بش سینیئر بھی نا بچے۔ ایک ٹی وی اینکر کے مطابق صدر نے انکے کولہوں پر دست صدارت رکھا جب وہ انکی وہیل چیئر کے پاس کھڑی تصویر اتروا رہی تھیں۔ دیکھئیے امریکہ سے مزید کیا کیا راز افشا ہوں۔
ہاروی اور دیگر امریکی واقعات نے برطانوی خواتین کو بھی حوصلہ دیا اور اس وقت برطانوی سیاست بھونچال کا شکار ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمارے سیاستدان جب تھک جاتے ہیں تو سٹاف کے ساتھ خرمستیاں کر کے تھکن دور کرتے ہیں۔ خواتین تو تھیں ہی، برطانوی پارلیمنٹ کے کئی مرد اہلکار بھی جنسی ہراسگی کا شکار نکلے۔ معاملہ بڑھا تو تمام پارٹیوں نے کمیٹی بنا دی جو ایسے واقعات کی تحقیق کرے۔ رواں ہفتے میں بڑا جھٹکا وزیر دفاع کا استعفی تھا جو نادم نظر آئے کہ دوران انٹرویو اک صحافی کے ننگے گھٹنے پر ہاتھ پھیرتے رہے تاوقتکہ وہ چلا نا اٹھی کہ “اب کیا تو تیرا منہ توڑ دوں گی”۔ واقفان رازِ شاہی کہتے ہیں کہ تماشا ابھی دیر تک چلے گا اور بات نکلی ہے تو بہت دور تلک جائے گی۔
پاکستان میں جنسی ہراسگی کے حوالے سے عوام تذبذب کا شکار رہتی ہے۔ اگر پسندیدہ سیاستدان پہ الزام لگے تو الزام لگانے والی کے کردار، بلکہ اسکی بہن تک کے کردار پر سوال اٹھ جاتے ہیں۔ صحافی کو موبائل کی آفر کروانا یا خبر کا لالچ دئیے ساتھ ساتھ لئیے پھرنا کچھ معیوب نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہماری خواتین بھی ایسی بات سن کر ہنس دیتی ہیں اور کہتی ہیں “بھئی اب یہ مرد تو ہوتے ہی ایسے ہیں مگر اپنی عزت کو بات کھول کر خراب کیا کرنا”۔ یہاں تو ہراسگی کا دعوی بھی خاتون ہراسگی سے زیادہ اس دعوے سے کرتی ہے کہ “اے ملزم تجھے معلوم نہیں تو نے کس خاندان کی عورت کو چھیڑا ہے”، یعنی خاندان اہم یا برتر نا ہو تو ہراسگی غیر اہم ہو جاتی ہے۔

مگر لگتا ہے چھوت نے پاکستان کی فضا میں بھی قدم رکھ دیا۔ بات کھلی اک دوست کی پوسٹ سے۔ مزید تائید آئی ایک سابق بیوروکریٹ کی منظورِ نظر اک پارسا خاتون سے اور معلوم پڑا کہ خواتین کسی گروپ میں اکٹھا ہوئیں اور وہاں سوشل میڈیا پر پاکستانی مردوں کی جنسی ہراسگی کھول کر رکھ دی گئی۔ کسی مولانا کا حال کھلا جو وائس میسج پر ایک “شادی شدہ باجی” کو غسل کب فرض ہوتا ہے سمجھاتے پائے گئے۔ ایک سائیٹ کے ایڈیٹر کی پول کھلی کہ سائیٹ پر تحریر اور ناول چھاپنے کی آرزو کا اظہار کر کے خواتین سے ٹھرک کے مجرم بنتے ہیں۔ کوئی تصویر مانگتا ہے تو کوئی بانٹتا ہے اور کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ آپ خاتون ہیں جب تک اپ انکو کال کر کے یقین نا دلا دیں۔ ایک صاحب تو سنا ہے قوم کی بہن بیٹیوں کے گھر بسائے رکھنے کے اتنے شوقین ہیں کہ انکو “شوہر کو خوش رکھنے کے طریقے” بھی سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عرصہ ہوا، میری بہن نے مجھ سے مشورہ کیا کہ مجھے فرنود عالم کی تحریر بہت پسند ہے کیا میں اس سے انباکس بات کر لیا کروں؟ بلاتامل میں نے کہا ہاں بالکل بہت نفیس انسان ہے۔ فرنود کی کئی بار میری بہن سے بات ہوئی بلکہ وہ لاہور میں میرے گھر ائے اور میری والدہ اور بہنوں اور بہنوئیوں سے ملاقات بھی کی۔ (مجھ سے ملاقات البتہ ابھی قرض ہے) موسیو میرے گھر کا فرد ہے اور کوئی بات ہو تو میں اپنی بہن سے کہتا ہوں رانا صاحب سے مشورہ کر لو۔ مجھے یہی اعتماد یدبیضا، عارف خٹک یا حسنین جمال اور دیگر کئی دوستوں پر بھی ہے۔ مجھ سے بیسیوں خواتین انباکس بات کرتی ہیں حالانکہ بطور “کنوارا” میں زیادہ خطرناک ہوں اور شہرت بھی خیر سے منہ پھٹ کی ہے۔ مگر شاید ہی کوئی خاتون مجھ پہ یہ الزام لگا سکے کہ میں نے لائن کراس کی۔ (مجھے تو ویسے بھی عمر میں چھوٹی بھی ماں بن کر نصیحتیں کرتی ہے)۔ مقصد خود کو اچھا بتانا نہیں بلکہ یہ عرض ہے کہ اک خاندان ہے جو ہم نے مل کر ترتیب دیا ہے۔ مجھے اگر فرنود اور دیگر پر اعتبار ہے تو احساس ہے کہ نجانے کتنے بھائیوں اور شوہروں کو مجھ پر بھی اعتماد ہو گا۔ اور اعتماد ٹوٹنا نہیں چاہیے۔
صاحبو، خواتین ہمارے معاشرے میں بہت پسا ہوا طبقہ ہے۔ اس سوشل میڈیا نے بہت کچھ بدلا ہے۔ جو گھر کی کھڑکی پر آتے اور سبزی والے سے بات کرتے ڈرتی تھی وہ اب گھر پر بیٹھے آرام سے اپنے پسندیدہ لکھاری سے گپ لگا لیتی ہے۔ مصنفہ ہے تو کسی سینیئر سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہے یا اپنا مضمون لگوانے یا آئیڈیا ڈسکس کرنے کیلئیے کسی مدیر سے انباکس بات کرتی ہے۔ یہ انکے آپ پر اعتماد کا اظہار ہے ناکہ آپ پر مر مٹنے کا۔ ایسے اقدامات سے پرہیز کیجئیے جو ان خواتین سے اتنی سی آزادی اور اعتماد بھی چھین لیں۔ آپ خواہ جتنے بڑے شکاری ہیں، سوشل میڈیا کے جال سے شکار پھنسانے کی کوشش مت کیجئیے کہ یہ جنگل نہیں کوئلے کی کان ہے اور ناک منہ کالا ہو جاتا ہے۔ یقین کیجئیے کہ ایک فین یا مصنفہ اپکے پاس اسی اعتماد سے آتی ہے جس اعتماد سے آپکی بارہ برس کی بیٹی یا بائس برس کی بہن، اس اعتماد کو ٹوٹنے نا دیجئیے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”جنسی ہراسگی، وائنسٹائن سے سوشل میڈیا تک۔۔۔ انعام رانا

  1. عمدہ ، لیکن ہمارے معاشرے کی کواتین کی ہے۔ ایک سنسکرت کی مثال ہے جو ہمارے پورے معاشرے کے لیے ہے کہ ہندوستان کی عورت زندگی بھر غلام رہتی ہے، بچپن میں والدین کی، جوانی میں خاوند کی اور بڑھاپے میں بیٹوں کی۔۔۔

  2. سوشل میڈیا کے جال سے شکار پھنسانے کی کوشش مت کیجئیے کہ یہ جنگل نہیں کوئلے کی کان ہے اور ناک منہ کالا ہو جاتا ہے۔ بہت خوب۔

  3. بہت ہمت سے لکھا گیا ہے ۔ عورتوں کی عزت اور حفاظت کی بات مرد کے منہ سے کم ہی نکلتی ہے جب تک کہ وہ ان کی اپنی نہ ہو ۔۔عورتوں کے بارے میں عمومی طور ہریہی رویہ ہوتا ہے کہ ہنس دی تو پھنس گئی ۔۔ جاب کرنے نکلی ہے تو دستیاب ہی ہو گی ، شاعری یا لکھنے کا کسی اور قسم کا شوق ہے تو سب ہی شوق رکھتی ہو گی۔ سمائل والا ایموجی بھیج دیاتوھارٹ والا بھی بھیجتی ہو گی۔کسی سہیلی کے خلاف بات کر رہی ہے تو شوہر یا والد کے خلاف بھی ہو گی ۔ دو پٹہ سر پر نہیں لیتی تو آزاد خیال ہو گی ۔ یہ تو تھی ذیادہ تر مردوں کی سوچ ۔ خاص خاص مرد ابھی موجود ہیں دنیا میں جن سے عام عورتوں کا زندہ رہنا ممکن ہوا ہے ۔۔لیکن عورتیں خاص بھی ہو تی ہیں ۔ جو کہتی ہیں اس عورت پن کو استعمال کر کے زندگی میں آگے نہ بڑھے تو عورت ہو نے کی فرسٹریشن کھا جا ئے گی تو وہ اپنے آپ کو عام مردوں کے لئے جو کسی بھی کام کے ہوں ،گھیر لیتی ہیں ۔۔عام مردوں میں خاص بھی ہو تے ہیں اور خاص عورتوں میں عام بہت زیادہ ہو تی ہیں ۔
    ترقیاں اور خوشیاں پہلے کمبینیشن میں ہیں ۔۔ دوسرے میں مایوسی اور اداسی ۔ مگر ضمیر زندہ رہتا ہے ۔

Leave a Reply to شاہد یوسف خان Cancel reply