افغانستان اور پاکستان۔۔کامران ریاض اختر

حکومت پاکستان نے بارہا اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ ہم افغانستان کے معاملات میں مکمل غیر جانبدار ہیں اور اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے کہ افغانستان میں کون حکومت بناتا ہے۔ دوسری طرف کابل حکومت اور اس کے حمایتی عناصر پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حکومت کے سفارتی موقف اور مخالفین کے الزامات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مناسب ہوگا کہ پہلے اس بات پر غور کر لیا جائے کہ کیا پاکستان افغانستان کے معاملات سے بالکل لاتعلق رہ بھی سکتا ہے یا نہیں۔

یہ بات کہنے کو تو بہت بھلی لگتی ہے کہ کسی ملک کو کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقیقتاً دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جہاں جہاں جس ملک کا بس چلتا ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ دوسرے ممالک خصوصا ً جغرافیائی طور پر قریب ممالک میں اپنے مفادات کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرے۔ امریکہ نے کیوبا، نکاراگوا، ایل سیلواڈور اور دوسرے بہت سے ممالک میں ان حکومتوں کے خلاف عملی اقدامات کیے جو اس کے خیال میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہی تھیں۔ سابقہ سوویت یونین اسی بنیاد پر   مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے ممالک میں مداخلت کرتا رہا اور روس اب بھی ایسا کر رہا ہے۔ چلیں امریکہ اور روس تو سپرپاورز ہیں لیکن باقی ممالک بھی اس معاملے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے،بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال میں اپنی مرضی کی حکومتیں لانے اور برقرار رکھنے کے لئے کوششیں کرتا رہتا ہے۔ ایران، عراق، شام اور یمن میں اپنے حمایتی گروہوں کا مددگار ہے تو ترکی شام میں ایسا ہی کرتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر ملک اپنی بساط کے مطابق اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں کسی نہ کسی شکل میں مداخلت کرتا ہے۔

جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو پاکستان اس کے معاملات سے کسی صورت الگ تھلگ رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ ان کا براہِ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ افغانستان کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ پاکستان میں مقیم ہے۔ افغان  کی معیشت پاکستان سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر تاریخی طور پر اکثر اوقات پاکستان میں ہونے والی ہر شورش کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ اکثر افغان حکومتیں، بین الاقوامی سرحد کو نہ تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے بڑے حصے پر اپنا حق جتاتی رہی ہیں۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں فقیر ایپی کی بغاوت ہو یا 60 کی دہائی میں باجوڑ پر حملے، ستر کی دہائی میں   پشتون اور بلوچ انتہا پسندوں کی مسلح بغاوت کی امداد و سرپرستی ہو یا موجودہ دور میں بلوچ فراریوں کو محفوظ ٹھکانوں کی فراہمی، یہ سب کچھ افغانستان کی حکومتیں ہی کرتی رہی ہیں۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ کسی بھی پاکستانی حکومت کے لئے افغانستان کے معاملات سے یکسر لاتعلق رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ افغان حکومت کے معاندانہ رویہ سے تنگ آکر  ستر کی دہائی   میں پہلی بار ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت نے جواباً افغانستان کے حکومت مخالف گروہوں کی حمایت کا فیصلہ کیا اور بعد کی تمام حکومتوں نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی۔

پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان میں جو بھی حکومت ہو وہ پاکستانی علاقوں پر دعویٰ نہ کرے، پاکستان کے باغی گروہوں کی امداد نہ کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے دشمنوں کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ افغان حکومت سے پاکستان کی یہ توقعات بالکل جائز اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں۔ افغانستان کے متحارب گروہوں میں سے جو بھی ان معاملات میں پاکستانی توقعات سے ہم آہنگ ہوگا، چاہے وہ اسلامسٹ ہو یا کمیونسٹ، منطقی طور پر پاکستان اس کی حمایت پر مجبور ہوگا۔ اس لیے اگر پاکستانی حکومت واقعی اپنے دعوؤں کے مطابق افغان مسئلے میں بالکل غیر جانبدار ہے اور یہ کوشش نہیں کر رہی کہ افغانستان میں جو بھی حکومت ہو وہ پاکستان دوست ہو، تو یہ پالیسی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کابل حکومت، پاکستان کے خلاف کارروائی کے لئے اپنے بیرونی دوستوں سے فریاد کر رہی ہے، لیکن اسے بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر کابل حکومت پاکستانی باغیوں کی سرپرستی نہ کرتی، لروبر یو افغان والے نعرے نہ لگاتی، پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتی تو آج شاید اس کا یہ حال نہ ہوتا جو ہوا ہے۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply