الزام کی سیاست نہیں،نجات کا راستہ تلاش کریں

الزام کی سیاست نہیں،نجات کا راستہ تلاش کریں
طاہر یاسین طاہر
پاکستانی سیاست کا نمایاں پہلو ایک دوسرے پہ الزام تراشی ہے۔ساری سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے چھوٹے بڑے ترجمان اس ہنر سےخوب واقف ہیں۔دنیا بھر میں اگرچہ اس حوالے سے کافی” جمہوری پیش رفت “ہوئی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت قریب قریب ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس رویے سے سیاستدان اپنے ووٹرز کو مصروف کر لیتے ہیں،یہ منفی رویہ ہے ، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو،سیاسی و معاشی اور دفاعی،داخلہ و خارجہ پالیسی ترجیحات پہ بات کرنی چاہیے نہ کہ ذاتیات پہ۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات تو امریکی تاریخ کے ہیجان انگیز صدارتی انتخابات قرار دیے جارہے ہیں۔ ٹرمپ اپنی جارحانہ سیاسی چالوں سے میڈیا بالخصوص ٹویٹر کے ذریعے ہیلری کلنٹن اور ان کی جماعت کی پالیسیوں پر خوب برسے،حتی ٰ کہ ہیلری جو ٹرمپ کی مد مقابل صدارتی امیدوار تھیں،کے عورت ہونے کو بھی ٹرمپ نے بعض اوقات مذاق اڑایا۔یوں توقع تھی کہ ٹرمپ اپنے صنفی و نسلی تعصب کےسبب ممکن ہے ہار جائیں،مگر یہی نسلی تعصب ان کی فتح کی بنیاد بنا۔لیکن امریکی صدارتی امیدواروں کی ایک دوسرے پہ ذاتی الزام تراشی،کم او ر بحث اپنی اپنی سیاست کے حوالے سے داخلہ و خارجہ اور دفاع و معیشت کی پالیسیوں پر رہی۔ ٹرمپ نے ہیلری کو عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی ماں بھی کہا۔
دوسری طرف ٹرمپ نے غیر ملکیوں، عالمی دہشت گردی،امریکی معیشت اور میکسیکو کے حوالے سے بڑا واضح اور دو ٹوک موقف اپناہوا تھا۔ہم امریکی سیاست یا امریکی سیاست دانوں کا موازنہ اپنے سیاست دانوں سے قطعی نہیں کر رہے ، نہ ہی امریکی و پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کا باہم موازنہ قرین انصاف ہے۔بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی روش مدمقابل کی کمزوریوں کو تلاش کر کے اس پر اپنی سیاسی دیواروں کو مضبوط کرنے کا رحجان موجود ہے۔ ہمارے ہاں لیکن یہ رحجان بام عروج پرہے۔ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا جیسا ہمارے ہاں ہے۔ ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ نے بے شک ایک دوسرے کو ٹی وی ٹاک شوز میں آڑے ہاتھوں لیا مگر ان کی ساری گفتگو پالیسی پہ ہوتی تھی۔اس دوران ٹرمپ کو جہاں موقع ملتا ذاتی حملے کرتے۔ٹرمپ پہ بھی انتخابی مہم کے دوران ذاتی حملے ہوئے اور انھیں پاگل تک کہا گیا۔ بلکہ اوباما نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ٹرمپ دنیا کے لیے خطرہ ہوں گے،وغیرہ وغیرہ۔ہمارے ہاں مگر ذاتیات پر رکیک حملے ایک بہتر سیاسی ہنر تصور کیا جاتا ہے۔محترمہ بےنظیر بھٹو اور ان کی والدہ کی کردار کشی،اسی طرح سیتا وائٹ سکینڈل اور پھر مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے وزیر اعظم کی صاحبزادی کے کردار پہ رکیک حملے،ہماری سیاسی تاریخ کا افسوس ناک تعارف ہے۔اس سے زیادہ مثالیں بھی موجود ہیں۔کرپشن ہماری سیاسی و حکومتی تاریخ کا ایک اور افسوس ناک پہلو ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات کے سہارے بھی سیاست کرتی ہیں۔اسٹیبلشمنٹ بھی سیاستدانوں اور سیاسی قیادت کی ان کمزوریوں سے خوب فائدہ اٹھاتی ہے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ کرپشن معاشرتی رویوں اور ریاستی بنیادوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ مگر ہمارے ہاںیہ کام حکومتی سر پرستی میں ہوتا ہے۔ بیوروکریٹس،سیاست دان اور فوجی افسران اس میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ بعض تو آشکار بھی ہوتے رہتے ہیں۔نیب میں کئی ایک کے کیسز پڑے ہوئے ہیں،سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کچھ افسران کو جبری ریٹائرڈ کیا تھا،جبکہ این ایل اسی ،اور ڈی ایچ اے سکینڈل کی بازگشت ابھی کم نہیں ہوئی۔پانامہ سکینڈل،حدیبیہ پیپرز ملز،مہران بینک سکینڈل۔قرض اتارو،ملک سنوارو،اسی طرح سرے محل،کشتیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ،چائنہ کٹنگ کے سکینڈل اور کک بیکس تو ہمارے فیصلہ سازوں کا پسندیدہ کام ہے۔ایک دوسرے کے رازدان ایک دوسرے پہ عوامی اجتماعات میں ایسے برستے ہیں کہ پتا چلتا ہے اب ہر طرف عدل و دیانت کا دور دورہ ہوگا اور کم از کم سیاست و حکومت کے ان اہداف کی طرف قدم اٹھایا جائے گا جنھیں معروف معنوں میں الہٰی سیاست کی طرف پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔ایسا مگر نہیں ہوتا۔ الہٰی سیاست سے کوئی نام نہاد مذہبی سیاسی جماعتوں کا فہم ِسیاست یاان کی حکومت مراد نہ لے،کہ جہاں موقع ملتا ہے یہ بھی چندے اور کھالوں و عطیات پر اپنی دنیا کو ہی جنت بنا لیتے ہیں۔جہادی کاروباری الگ سے ان کے لیے سود مند ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پانامہ لیکس یا کسی بھی اور ایشو پہ سیاسی جماعتیں،ان کے کارکن اور قیادت ذاتیات کے بجائے ترجیحات پہ بات کریں۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت ہر شعبے میں ناکام ہو گئی،قوم کو نا اہل حکمرانوں سے نجات دلائیں گے۔ وہ مگر یہ نہیں بتاتے کہ اس نجات کے بعد ان کی پارٹی کے پاس کیا ایجنڈا ہے جس سے رزق و روزگار کے بند دروازے پاکستانی معاشرے پہ وا ہو جائیں گے۔نون لیگ کی قیادت موٹر ویز اور سی پیک کو ہی ترقی کہتی ہے،اگلے سال بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن دینے والے سردیوں میں بھی آٹھ سے بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں۔عمران خان کا سارا زور نئے پاکستان اور پانامہ و سرے محل کرپشن پہ ہے، مگر وہ ابھی تک اپنی سیاسی جماعت کو برداشت کی سیاست نہ سکھا سکے نہ ہی اس طرح منظم کر سکے کہ پاکستانی انتخابی سیاست میں بار آور نتائج حاصل کر سکیں۔یہاں مگر سارا زور مخالف سیاستدان کی ذاتی کمزوریوں کو اچھالنے میں لگایا جا رہا ہے۔ سارے انسان ہیں اور سب میں بشری کمزوریوں بھی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف عمران خان نے جو شعوری مہم چلائی ہوئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔لیکن اس کے ساتھ جس لب و لہجے سے وہ مخالف سیاسی کرداروں کو مخاطب کرتےہیں وہ قابل گرفت ہے۔
اسی طرح نون لیگ کے ترجمان جس لہجے میں بات کرتے ہیں وہ بھی قابل گرفت ہے۔یہ وہ ترجمان ہیں جو بہر حال ووٹ اس لیے لے کر اسمبلی پہنچے کہ عوامی فلاح کے کاموں میں حصہ لیں گے، مگروہ بے چارے مفادات کے اسیر ہو کروزیر اعظم کے ذاتی ترجمان بن کر رہ گئے۔یہ رویہ مفادات کی سیاست کا عکاس ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی،نون لیگ ہو یا قاف،جماعت اسلامی ہو یا مولانا فضل الرحمان کی “ہمہ اقدار دوست” سیاسی جماعت۔سب کو برداشت کی سیاست کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیےاپنے اپنے مشور میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ الزامات کی تکرار سے بہتر ہے معاشرتی ترقی میں تعلیم و صحت اور سائنس و ادب کے فروغ کے لیے کام کیا جائے۔کب تک ہمارا معاشرہ عجوہ کھجور،سی پیک اور خلافتِ عثمانیہ کی گم گشتہ یادوں کے سہارے زندہ رہے گا؟

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply