مذہب پر چند اعتراضات کا جائزہ (2،آخری حصّہ)۔۔عرفان شہزاد

یہ کہنا کہ قرآن اپنے دور کے لیے نازل ہوا تھا ۔ پہلے دور کی کتاب کو آج کے دورمیں قابل عمل سمجھنا درست نہیں تو پوچھا جائے گا کہ قرآن میں ایسا کیا ہے جو اب قابل عمل نہیں ہو سکتا؟ کیا خدا ایک نہیں رہا، یا خدا کو مان لینے کے بعد اس کی عبادت و اطاعت کا جذبہ انسان میں مرچکا ہے، یا انسان کی اخلاقی حس میں کوئی واقع تبدیلی ہو گئی ہے اور اب یہ وہ انسان نہیں رہا جو صدیوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ مرد و عورت، مرد وعورت نہیں رہے، دونوں کو ایک دوسرے میں کشش محسوس ہونا بند ہو گئی ہے یا بچے پیدا کرنے کی خواہش ختم ہو گئی ہے اور خاندان کا ادارہ ختم کردینے کا اعلان ہوگیا اس لیے جنسی رویوں کو ریگولرائز کرنے کی ضرورت نہیں رہی؟
قرآن اس انسان سے مخاطب ہوتا ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ اس کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔اس کی مستقل اقدار کبھی نہیں بدلتیں۔
ایسا نہیں کہ قرآن میں اپنے دور سے مخصوص احکامات نہیں ہیں، یقینا ہیں اور اپنی نوعیت سے خود بتا دیتے ہیں کہ یہ اس دور کی سرگزشت کا حصہ ہیں نہ کہ ابدی شریعت کا۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان کی فطرت اور سماج کی وہ اقدار جو کبھی نہیں بدلتیں، ان کے بارے میں مستقل احکامات کیوں نہیں دیے جا سکتے۔ احکامات کے اطلاقات میں تو تنوع ہوتا ہے، وہ ناگزیر ہے، مگر احکامات ہی بدل جائیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟ یا دکھایا جائے کہ اس کے احکامات میں کوئی خرابی ہے جو نہ اس وقت چل سکتے تھے اور نہ اب۔
یہ ہماری فقہ میں ہوا کہ ایک دور کے شرعی احکاما ت کے اطلاقی صورتوں کو بھی مستقل سمجھ لیا گیا، جس سے بدلے ہوئے دور میں توحش محسوس ہوتا ہے۔ انسانی رویے کی یہ غلطی شریعت ہی میں نہیں، تقریبا ہر معاملہ میں ہوتی ہے۔ کلچر کی ہر تبدیلی اسی جمود سے ٹکرا کر آتی ہے۔ یہی معاملہ شریعت کے اطلاق میں بھی ہوا۔ ایک دور کے کلچر میں شریعت کی اطلاقی صورتیں، شریعت ہی باور کرا دی گئیں۔ جیسے خواتین کے پردے کا تصور۔ یہ بات کہ عورتیں مردوں سے پردے کی اوٹ میں رہیں، یہ قرآن نے بیان نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس اس نے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کے موقع پر آداب بیان کر کے بتا دیا تھا کہ ایسی کوئی بات اس کے پیش نظر نہیں ہے۔ ان آداب میں بھی اس نے بتایا کہ اگر مرد و عورتوں نے زیب و زینت کا اہتمام نہیں کر رکھا تو بس آنکھوں اور عصمت کی حفاظت کافی ہے۔ اور اگر خواتین نے زیب و زینت کر رکھی ہے یعنی پارٹی میک اپ ہے تو ان میں بھی جو اعضاء عام طور پر کھلے رہتے ہیں انھیں چھپانے کی زحمت میں نہ پڑیں، اس کے علاوہ جو زیب و زینت ہے اسے ڈھانک کر رکھیں۔ وقار سے رہیں، ایسی حرکتیں نہ کریں جس سے مردو ں کی توجہ کھینچ کھینچ کر حاصل کی جائے۔چنانچہ کوئی آواز والا زیور ہو جیسے پازیب یا چوڑیاں تو اسے بجا بجا کر انھیں متوجہ نہ کریں۔ پروقار مرد و خواتین ان آداب کو کسی نہ کسی صورت مانتے آئے ہیں۔ اِنھیں کو ضابطہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ رہا معاملہ گھروں میں بیٹھے رہنے اور مردوں سے سخت لہجے میں بات کرنے اور ان سے اوٹ میں رہنے کا، تو یہ آیت مخاطب ہی ازواج مطھرات کو کرتی ہے۔ انھیں یہ مسائل درپیش تھے کہ مدینے کے منافق ان کی زندگی کو اسکینڈلائز کرنے کے درپے تھے جیسا کہ اسی سورہ احزاب میں بیان ہوا ہے۔ یہ ان کے پروٹوکول کے احکامات تھے۔ اسی طرح گھروں سے باہر نکلنے وقت چادر اوڑھنے کی ہدایت بھی اوباشوں کہ وجہ سے دینی پڑی اور یہ منہ چھپانے کی نہیں بلکہ اس لیے تھی کہ وہ پہچان لی جائیں کہ یہ خاندانی خواتین ہیں اور باہر کھڑے اوباش انھیں چھیڑ کر ریاست کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ اوباشوں کی وجہ سے خواتین کو گھروں میں بیٹھے رہنے کی تلقین نہیں کی گئی، الٹا اوباشوں سے کہا گیا کہ اب بھی باز نہ آئے تو مدینے سے نکال دیے جائیں گے۔ مگر مذہبی تعبیرات نے اشرافیہ کے ہاں پائے جانے والے پہلے سے چلے آئے سخت پردے کی رسم کو قرآن کے غیر متعلق مقامات سے نکال کر اس پر چسپاں کر دیا کہ خواتین گھروں میں بیٹھی رہیں وہی ان کا اصل ٹھکانہ ہے۔
وراثت کا معاملہ دیکھیے۔ اس میں انسان ہمیشہ سے افراط و تفریط کاشکار رہا ہے۔ ایک دور وہ تھا جب سب کچھ مردوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا اورا یک دور یہ ہے جو مرد و وعورت میں کوئی فرق کرنے پر تیار نہیں۔ قرآن نے اس میں جو راہ بتائی وہ یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم میں سب سے پہلے مرنے والے کی وصیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر اس نے کسی مصلحت اور متعلقین کی ضروریات یا خدمات کو مد نظر رکھتے سارے مال کی وصیت کر دی ہے تو قانون کے تحت تقسیم وراثت کی ضرورت نہیں۔ اور اگر نہیں کی تو اب یہ اس اصول پر طے ہوگی کہ مرنے والے کے لیے جو جتنا زیادہ مالی اور جسمانی فوائد کا سبب ہے اسے اسی حساب سے وراثت سے فائدہ ملے گا۔ چنانچہ ماں باپ کی منفعت برابر ہوتی ہے، اس لیے وراثت میں ان کے حصے بھی برابر ہیں۔ اولاد میں بیٹؤں کی منفعت بیٹیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ماں باپ بیٹوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ سب بیٹؤں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ بیٹیاں دوسرے گھر رخصت ہو جاتی ہیں۔ ان کی منفعت ان کے سسرال، شوہر اور ان کے بچوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔اس کے باوجود وہ جو خدمت کر پاتی ہیں وہ ان کی عنایت سمجھی جاتی ہے نہ کہ ذمہ داری۔ ذمہ داری بیٹوں ہی کی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر بیٹؤں کا حصہ بیٹیوں سے دوگنا رکھا گیا کہ ان کی منفعت بھی بیٹیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اولاد نہ ہو تو یہی حصے بہن بھائیوں کو منتقل جاتے ہیں۔ وہاں بھی یہی اصول ہے کہ بھائیوں کی مالی و جسمانی منفعت بہنوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بہنوں اور بیٹیوں کی منفعت جذباتی لحاظ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے جذبات ہی میں سے حصہ انھیں دیا جاتا ہے۔
میاں بیوی کے معاملے میں شوہر کی مالی منفعت بیوی کی مالی منفعت سے زیادہ ہوتی ہے۔ شوہر پر ذمہ داری ہے وہ بیوی پر خرچ کرے نہ کہ بیوی کی ذمہ دای ہے کہ شوہر پر خرچ کرے۔ بیوی گھر اور شوہر پر اگر کچھ خرچ کرتی ہے تو اس کی عنایت سمجھی جاتی ہے۔ ذمہ داری بہرحال مرد پر ہے کسی سماج میں بھی اب تک اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی بنا پر مرد کا حصہ اس کی بیوی کی وراثت میں بیوی کے حصے سے دوگنا ہے جو اسے مرد کی وراثت سے حاصل ہوتا ہے۔
یہ نہایت ہی مبنی بر انصاف قانون ہے جس میں اوّلیت مرنے والےکی وصیت کو حاصل ہے کہ اگر یہ عمومی قاعدہ اس پر لاگو نہیں ہوتا اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی جائداد کے زیادہ حق دار کوئی اور ہے، مثلا اس کی بیوی جس نے غیر معمولی خدمت کی ہو اور بالفرض بیٹوں نے خیال نہ کیا ہو، یا بیٹیوں نے زیادہ کردار ادا کیا ہو یا اولاد سے باہر کسی اور شخص نے کوئیخدمت یا احسان کیا ہو، یا اس کی اولاد کو اس کی دولت ضرورت نہ ہو اور وہ کسی فلاحی ادارے کو دینا چاہے، تو اس کے حق میں وصیت کر لے۔ لیکن اگر وصیت نہیں کی تو اب یہ قانون نافذ ہوگا جو دنیا کے عمومی قاعدے کے اعتبار سے انصاف کی بہترین صورت پیش کرتا ہے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply