پیراڈوکسیکل انٹینشن(Paradoxical intention)۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایک مکھی جب کمرے سے نکلنے کیلئے کھڑکی کی طرف اڑان بھرتی ہے تو کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے وہ سیدھی شفاف شیشے سے جا ٹکراتی ہے، یہیں سے مکھی کی پریشانی شروع ہوتی ہے، اس پر خوف غالب آتا ہے، وہ مزید کوشش کرتی ہے لیکن کھڑکی بند ہے، اس عالم میں مکھی اسی کھڑکی کے شیشے پر اپنا سر ٹکراتی رہتی ہے، بھنبھنائٹ اور جھنجھلاہٹ بڑھتی جاتی ہے، مکھی کی کوششیں جاری ہیں حتی کہ وہ اسی شیشے پر پھسلنا شروع ہو جاتی ہے لیکن کمرے سے باہر نکلنا اس کیلئے پھر بھی ممکن نہیں ہو پا رہا۔
یہاں اس بات سے انکار نہیں کہ اس بند کھڑکی نے مکھی کو خوفزدہ کر دیا ہے جو کہ فطری ہے، لیکن اصل مسئلہ اس خوف کو غیر ضروری اہمیت دینا ہے، جب بھی آپ اپنے کسی خوف کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو دائرہ نظر و دماغ سکڑتا جاتا ہے، اور خوف سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔
خوف کو غیر ضروری اہمیت دینے سے کیا مراد ہے ؟
جب بھی آپ کو کسی ناکامی، کسی گھاٹے، کسی پریشانی یا رسوائی وغیرہ کا خوف ہوگا تو آپ اس خوف سے نکلنے کیلئے ہر وقت کچھ سوچتے رہیں گے، حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، مشیر و ناصح بھی تسلی و دعا کی ترغیب دیں گے، صاحبِ حکمت احباب ٹوٹکے بھی بتائیں گے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ ان تمام کوششوں میں بنیادی لفظ ، خوف، ہی مرکزی کردار ادا کرے گا، گویا کہ آپ اسی لفظ، اسی عنصر کو بار بار اپنے دماغ و شعور میں گھسا رہے ہیں، نتیجے میں ہر وقت یہ بلا آپ کے سامنے ہوگی، یہی انسانی دماغ کا طریقۂ واردات ہے۔
آپ جسے ، نکلنے کی کوشش، کہہ رہے ہیں، درحقیقت وہ غیر ضروری اہمیت ہے جس نے آپ کو اس قدر جکڑ لیا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
یہ مکھی اپنے خوف کی اہمیت کو ترک نہیں کر سکتی، کیونکہ اسے اس کی آزادی کے چھننے کا خوف ہے کہ وہ اسی بند کمرے میں مقید ہو کر رہ جائے گی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ خوف کا حقیقی علاج اسی خوف کی انتہا کو قبول کرنا ہے، یعنی لوہے کو لوہے سے کاٹنا ہے، مکھی اگر اسے قبول کرتے ہوئے چند قدم پیچھے کو مڑے تو دیکھے گی کہ کھڑکی کے اوپر والا روشن دان کھلا ہے جہاں سے وہ باہر نکل سکتی ہے لیکن کھڑکی سے پیچھے ہٹنا اس کیلئے خوف کی انتہا کو چھونا ہے اس لیے وہ واپس نہیں پلٹ رہی۔
انسانی دماغ ہر صورت میں انسانی شخصیت پہ غلبہ چاہتا ہے اور وہ تمام خوف یا مسائل جو فطری ہیں، ان سے نکلنے کیلئے یہ آپ کو ایسی راہیں بتائے گا جو حقیقت میں دلدل ہیں اور آپ دھنستے چلے جائیں گے، اس پہ غالب آنے کا نفسیات میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ خوف یا مسئلے سے نکلنے کا جو راستہ یہ آپ کو دکھائے، آپ اسی سمت پہلے ہی تیزی سے چلنا شروع کر دیں، دماغ حیرانی و پریشانی کے عالم میں آپ کے وجود کو دوسری سمت یعنی، کھلے ہوئے روشن دان، کی طرف دھکیلے گا، بالخصوص وہ معاملات جو طبی یعنی جسمانی ہیں، ان معاملات میں آپ قصداً تضاد کا مظاہرہ کریں، یعنی خوف کی انتہاء کو چل دیں، تو نتائج آپ کے حق میں آئیں گے، نفسیات میں اس رویے کو Paradoxical intention کہتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر والد یا والدہ بچے پہ ہاتھ اٹھانے یا اسے جسمانی مار دینے کا ارادہ کریں تو ایسی صورت میں بچے کا خوفزدہ ہونا لازم ہے ،لیکن بعض بچے والدین کے ہاتھ اٹھانے سے پہلے ہی خود کو پیٹنا، روندنا اور گاہے دیوار پہ سر مارنا شروع کر دیتے ہیں، یہ بچہ خوفزدہ ضرور ہے لیکن وہ منت سماجت یا اپنی صفائی پیش کرنے کی بجائے خوف کی انتہاء سے جدوجہد شروع کر دیتا ہے، ایسے زیادہ تر کیسز میں والدین اپنا ارادہ ترک کرتے ہوئے بچے کو منانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
یہاں چند مثالیں دینا ضروری ہے تاکہ ایک تو بات سمجھ میں آئے اور دوسرا اگر آپ یا آپ کے اقارب درج ذیل مسائل کا شکار ہیں تو عملی طور پر ان کا بھلا بھی ہوجائے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت سرعتِ انزال اور erectile dysfunction جیسے مسائل کا شکار ہے، اور چونکہ وہ اس مکھی کی طرح شیشے پہ ٹکریں مارے جا رہے ہیں اس لیے مثبت نتائج نہیں آرہے اور نہ ہی آئیں گے۔
فرض کیجئے کہ اگر آپ کا دورانیۂ ہمبستری ایک منٹ ہے تو آپ اپنی زوجہ کے پاس اس نیت سے جائیے کہ آج ایک منٹ کی بجائے میں نے پندرہ سکینڈز میں ہی کھیل ختم کر دینا ہے، بس اسی سوچ اور نیت کو پکا کر کے مشغول ہوئیے، اس رویے سے آپ درحقیقت خوف کی انتہاء کو منہ دے رہے ہیں اور کھونے کیلئے آپ کے پاس مزید کچھ نہیں، ایسے میں دماغ الٹی گیم چلے گا اور غالب گمان ہے کہ اس قصد کے نتیجے میں عملِ زوجیت تین چار منٹس تک طویل ہو سکتا ہے، چند بار کی مشق سے آپ اس مسئلے سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑا سکتے ہیں۔
جو لوگ عضوِ خاص کی انتشاری سے محروم ہیں، وہ اپنی رفیقِ حیات کے ساتھ ایک معاہدہ کریں کہ اگلا ایک ہفتہ مسلسل ہم دونوں بسترِ عروسی پر لباسِ آدم وحوّا میں گزاریں گے، خوب بوس وکنار کریں گے لیکن کسی صورت عملِ زوجیت ادا نہ کریں گے، یعنی ہر صورت دخول کو خود پہ حرام کر لیجئے، نتیجے میں دماغ الٹا چلے گا اور ایسی انتشاری لائے گا کہ دخول کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا، آپ خوف کی انتہاء کو پہنچے، دماغ نے جان لیا کہ آپ ناکامی سے خوفزدہ نہیں اور وہ فشارِ خون کے نظام کر متحرک کرتے ہوئے ہر حال میں انتشار کو پروموٹ کرے گا، ایسی چند مشقیں آپ کو اس پریشانی سے ہمیشہ کیلئے نجات دلا سکتی ہیں۔
کچھ خواتین عملِ زوجیت میں تکلیف محسوس کرتی ہیں ، اس کی بنیادی وجہ نفسیاتی ہے، کیونکہ بعض اوقات بچیوں کی ہرورش میں اس عمل کو قباحت و غلاظت، یا گناہ وغیرہ جیسے عناصر سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی کہ یہ ایک، گندا کام ،ہے، اس کے علاوہ کچھ نادیدہ آنٹیاں بچیوں کو اپنی سہاگ رات کے واقعات پورے ذوق و شوق سے سناتے ہوئے اس بات پہ خصوصی توجہ دیتی ہیں کہ تکلیف کی وجہ سے میری تو جان ہی جاتی رہی، ان تمام خرافات کے نتیجے میں بچیوں کی نفسیات میں اس عمل کو لے کر خوف کا عنصر جڑ پکڑتا ہے، اسی خوف کی وجہ سے شادی کے بعد عملِ زوجیت کے دوران ان کی اندامِ نہانی کے مسلز سکڑتے ہیں اور وہ واقعتا تکلیف محسوس کرتی ہیں، اس سے نکلنے کا بہترین طریقہ قصداً تضاد کی پالیسی ہے، خاتون یہ تہیہ کر لے کہ آج شوہر کے ساتھ ہمبستری کے وقت پوری قوت سے اندامِ نہانی کے مسلز کو سکیڑنا ہے، یعنی ٹائیٹ کرنا ہے، ایسے کہ شوہر کیلئے دخول ہی ممکن نہ ہو پائے، اس رویے کے نتیجے میں دماغ اندامِ نہانی کے مسلز کو ریلیکس کرنے کیلئے پورا زور لگائےگا اور وہ تمام کیمیکلز ریلیز کرے گا جس سے دخول آسان اور غیر تکلیف دہ ہوگا۔
جو افراد لوگوں کے سامنے یا سٹیج پر بات اور تقریر کرنے سے خوف محسوس کرتے ہیں یا کنفیوز ہوتے ہیں، وہ ارادہ کر لیں کہ آج تو اس قدر گھبراؤں گا کہ شلوار تک گیلی ہوجائے تو پرواہ نہیں، یعنی پورے زور سے یا مصنوعی طریقے سے اس کنفیوژن کو خود پہ طاری کیجیے، نتیجے میں آپ پورے اعتماد کے ساتھ اپنا مدعا پبلک کے سامنے بیان کر پائیں گے۔
اگر پہلوان اکھاڑے میں اترتے ہوئے ہار سے خوفزدہ ہے تو یہ قصد کر لے کہ آج ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا ہے، نتیجے میں خوف جاتا رہے گا کہ مزید کھونے کو کچھ نہیں رہا، ایسا پہلوان کشتی کے وقت پورے زور اور داؤ پیچ کامظاہرہ کرتے ہوئے کشتی آسانی سے جیت سکتا ہے۔
ایک نفسیات دان کو کسی بڑی بی کے علاج کیلئے دعوت دی گئی، بڑی بی کے ہاتھ اس قدر کانپتے تھے کہ پانی کا گلاس یا پنسل تک پکڑنا ناممکن تھا، تمام طبی علاج وقتی اور جزوی فائدہ دے رہے تھے لیکن بزرگ خاتون کی حالت جوں کی توں تھی، ماہرِ نفسیات نے کہا کہ دادی جان ہم آپ کے ساتھ ایک کھیل کھیلیں گے، دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے کون زیادہ ہاتھوں کو کپکپا سکتا ہے، دونوں نے پوری طاقت سے مصنوعی طور پر ہاتھ کپکپانا شروع کئے، پانچ منٹس تک عمل جاری رہا، بڑی بی قہقہے بھی لگاتی رہیں اور ہاتھوں کو زور سے ہلاتی بھی رہیں، گیم کے اختتام پر بزرگ خاتون کو چائے دینے کا کہا گیا اور انہوں نے پوری تسلی اور ہاتھوں کی مضبوط پکڑ سے چائے نوش فرمائی، چونکہ خاتون بہت عمر رسیدہ تھیں اور اندرونی اعضاء بے حد کمزور تھے اس لیے مکمل اور طویل العمر شفا ممکن نہ تھی، ماہرِ نفسیات نے مشورہ دیا کہ گھر کا کوئی فرد ان کے ساتھ ہر ہفتے ہاتھوں کو کپکپانے والی گیم کھیلتا رہے تو بزرگ خاتون کا کاروبارِ زندگی چلتا رہے گا۔
یہی پیراڈوکسیکل انٹینشن بے شمار طبی و نفسیاتی پیچیدگیوں میں بے حد مددگار ہے اور تجربہ کار نفسیات دان اس کی مدد سے عوام الناس کی دن رات خدمت کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply