تماشا جاری تھا اور رنگا رنگ روشنیوں کی چکا چوند میں شعبدہ باز اپنے فن سے تماش بینوں کی آنکھیں خیرہ کر رہا تھا۔
یہ عجیب تماشا تھا۔برس ہا برس سے جاری اور نہ ختم ہونے والا۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ شعبدہ باز اپنے فن میں ماہر تھا جو لوگوں کو اپنی جگہ سے حرکت کرنے کا موقع تک نہ دیتا تھا، یا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تماشائی انتہائی صابر اور مستقل مزاج تھے جو باوجود اتنے برسوں کے تھک جانے کا نام نہ لیتے تھے۔
ایک عرصہ اس مخصوص ہال میں ساتھ گزارنے کے بعد تماشبین ایک دوسرے سے واقف ہوگئے تھے اور آنکھ بند کرکے مختلف نشستوں پر موجود بندوں کے نام بتا سکتے تھے۔ تماش بینوں کی یہ جان پہچان رسمی تھی کیونکہ شعبدہ باز کے دلکش اور بھید بھرے شعبدے انہیں آپس میں قریبی تعلق بنانے سے باز رکھ رہے تھے۔
شعبدہ باز سیاہ لباس میں ملبوس ایک پراسرار شخص تھا۔اس کے چہرے پر نقاب تھا اور ہر بار جب وہ تماشائیوں کو محظوظ کرنے کیلئے نقاب اتارتا تو تماش بین بے اختیار تالیاں پیٹنے اور سیٹیاں مارنے پر مجبور ہوجاتے کیونکہ ہر بار شعبدہ باز پہلی صورت سے مختلف شکل و صورت میں نظر آتا۔شعبدہ باز کی پوری کوشش تھی کہ ایک بھی تماشبین ہال سے نہ نکلنے پائے اور اپنی پوری زندگی اس نفیس ہال میں اس کے سامنے دم بخود گزار دے اور وہ اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب تھا۔
تماشبین میں ذی عقل بھی تھے اور کم فہم بھی لیکن شعبدہ باز کے فن اور مہارت کے سامنے وہ سب بے بس تھے۔۔اگر کوئی ان میں زیادہ ہوشیار تھا تو وہ نو نمبر نشست پر براجمان شخص تھا۔روشنیوں سے بھرے اس ہال میں اس کے بال سفید ہوگئے تھے۔کبھی کبھار وہ شعبدہ باز سے نظریں ہٹا کر آس پاس دیکھتا تو اس کے جسم میں عجیب سی بے چینی دوڑنے لگتی۔تب وہ سوچتا کہ اس ہال میں کچھ عجیب اور پراسرار ہورہا ہے، لیکن اس کی یہ کیفیت کچھ دیر تک رہتی اور وہ پھر سے شعبدہ باز کی حرکات و سکنات پر نظریں مرکوز کردیتا۔نو نمبر نشست پر بیٹھے اس شخص نے جان لیا تھا کہ شعبدہ بازیوں کے بیچ ایک وقفہ ایسا آتا ہے جب شعبدہ باز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑنے لگتی ہے۔یہ مسکراہٹ اندر کی لطافت سے خالی ہوتی ہے، یوں جیسے کوئی طنزیہ مسکراہٹ۔اسے محسوس ہوتا کہ شعبدہ باز کی مسکراہٹ والا دورانیہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہال میں غیر محسوس تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
بہت عرصہ گزر گیا۔تماشا جاری رہا۔ایک رات نو نمبر نشست پر براجمان سفید بالوں والے پر ہال کی حقیقت کھل گئی۔یہ حقیقت انتہائی تلخ اور خوفناک تھی۔دراصل اس رات اس نے کسی وجہ سے شعبدہ باز سے نظریں ہٹائی تھیں۔تب اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔اس نے دیکھا تھا کہ ہال میں اس کی جان پہچان والا کوئی شخص باقی نہیں رہا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ نشستیں خالی ہوگئی تھیں بلکہ وہ پہلے کی طرح بھری پری تھیں لیکن وہ سب نہیں تھے جنہیں وہ پہچانتا تھا۔تب اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔اس نے دیکھا کہ اس کے پیر غائب ہو رہے تھے اور ایک نیلی روشنی اس کے پیروں کی طرف سے اوپر کی طرف آرہی تھی۔یہ نیلی روشنی اس کا باقی جسم بھی غائب کرنے کے درپے تھی۔
![julia rana solicitors london](https://i0.wp.com/www.mukaalma.com/wp-content/uploads/2020/10/IMG_2023-scaled.jpg?fit=2560%2C1019&ssl=1)
نو نمبر نشست پر براجمان سفید بالوں والے اس شخص پر اس قدر دہشت طاری ہوگئی کہ نہ تو وہ باقی لوگوں کو ہال کی حقیقت سے آگاہ کرسکا اور نہ ہی وہ شعبدہ باز کو دیکھ سکا جس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تیر رہی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں