تزویراتی گہرائی کا جنازہ ۔۔ اظہر سید

پاکستانیوں نے پاناما ڈرامے کے بعد ستتر سالہ کشمیر پالیسی کا جنازہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، نصف گھنٹہ دھوپ میں کھڑے ہو کر اور بھارت “کشمیر سے نکل جا ” کا گانا گنگنا کر اس جنازے میں عملی شرکت بھی کی ہے ۔کشمیر پالیسی نے اہل وطن کے جذبات کچھ اس طرح گرمائے تھے ہزاروں پاکستانی اور کشمیری بوڑھے، بچے جوان شہید ہو گئے ۔شہ رگ کے تحفظ کی مالا جپ کر امریکیوں اور چینیوں سمیت دنیا بھر سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا اور ان ممالک کی تجوریاں بھریں ۔پاکستانیوں کو تعلیم ، صحت اور روزگار کی بنیادی سہولتوں سے محروم کیا، کشمیر کے نام پر ایٹم بم بھی بنا لیا ۔ جب بھارتیوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیر پالیسی کو بے موت مار دیا تو ہم اس شہادت کو ٹھنڈے پیٹوں پی گئے ۔

پاکستانی اب حب الوطنی کے پہاڑوں کی بنائی ہوئی تزویراتی گہرائی کی سسکتی موت کا منظر دیکھ رہے ہیں اور تزویراتی گہرائی پالیسی کا جنازہ پڑھنے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔

پہلے تالی بان کامیاب نہیں ہوئے تھے بلکہ سعودی عرب ، امریکہ اور چین کی مرضی سے سوویت یونین کی قائم کردہ افغان حکومت ختم کر کے تالی بان کو کامیاب کرایا گیا تھا ۔ اس مرتبہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ جو چند کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں انکا دورانیہ بہت مختصر ہے اور اگلے چند ہفتوں میں عالمی برادری پاکستانیوں کی گردن پکڑ کر ناک سے لکیریں نکلوائے گی اور عالمی برادری کی حمایت یافتہ افغان حکومت اپنے تمام کھوئے ہوئے علاقے واپس لے لے گی ۔پاکستان پر عالمی پابندیاں لگنے کو ہیں اور بھگتنا عام پاکستانیوں کو ہے ۔ جنکی پالیسوں کی وجہ سے آج ہم دنیا بھر میں حقیر ہو گئے ہیں وہ انہیں ممالک میں بھاگ جائیں گے جو پاکستان پر پابندیاں لگانے جا رہے ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا چکے ہیں عیاشی کی زندگی جئیں گے مریں گے عام پاکستانی ۔

پاکستان کو اگر مذہبی انتہا پسندوں کا اگلا میدان جنگ بننے سے روکنا ہے تو فوری طور پر چینی کیمپ میں شامل ہو کر بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا ۔ جن چالاکیوں کے ساتھ ہم عالمی طاقتوں سے کھیلتے رہے اب سود سمیت ادائیگیوں کا وقت ہے ۔ جو طوفان برق رفتاری سے پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے اس سے بچنے کیلئے ایک اور چالاکی کی ضرورت ہے ۔ فوری طور پر سب کچھ عوام کے اصل منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جائے اور ہمیشہ کیلئے بیرکس کا رخ کر لیا جائے ۔

مظلوم پاکستانی کس کا گریبان پکڑیں ۔جس افغانستان کو پانچواں صوبہ تصور کر کے تزویراتی گہرائی مشہور کیا گیا تھا اس کے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت ہی نہیں ملی اور جس مشاورتی اجلاس میں شرکت کا موقع ملا وہاں تقریر کی اجازت نہیں ملی ۔یہ ہے چالیس سالہ افغان پالیسی کا نقد سودا جو ہم نے خریدا ہے ۔پوری دنیا ہمیں الزام دے رہی ہے اور ہمارے پاس بھاگنے کی جگہ بھی نہیں ہے ۔

جس سول حکومت کو پاکستانیوں پر مسلط کیا گیا ہے پالتو میڈیا اور ففتھ جنریشن وار کے مجاہدوں کے ذریعے اہل وطن کو زبردستی احمق بنایا جا سکتا ہے پوری دنیا اس حکومت کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتی ۔

ایک طرف یورپین یونین کی مذہبی انتہا پسندی کا نام لے کر تجارتی پابندیاں ہیں ، برطانیہ کی منی لانڈرنگ کے حوالہ سے شرائط ہیں ، امریکیوں کی طرف سے چائلڈ سولجر کی فہرست میں شمولیت ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی لٹکتی ہوئی تلوار ہے دوسری طرف تالی بان کا پاکستانی ہسپتالوں میں علاج ہے اور افغان حکومت کی طرف سے ترقی یافتہ ممالک کو فراہم کردہ وہ شواہد ہیں کہ افغانستان میں مرنے والے طالب علموں کے جنازے پاکستان میں پڑھے جا رہے ہیں ۔

ہمیں خدشہ ہے پاکستان کیلئے بہت سخت وقت تیزی سے قریب آرہا ہے ۔سسکتی ہوئی دیوالیہ معیشت اور عالمی برادری کا مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اتحاد ہم سے بہت کچھ چھین کر لے جائے گا ۔ روسی افغان سرحدوں سے منسلک وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں ۔ چینی تالی بان کی کامیابی کو سنکیانگ کیلئے خطرہ سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کو پرے پرے کرتے ہوئے پہلی مرتبہ تالی بان سے براہ راست ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ بھارتی پوری طاقت سے افغان حکومت کے پیچھے کھڑے ہیں ایک دوست ملک ترکی والے بھی افغان حکومت کی مدد کرتے ہوئے کابل ائر پورٹ کی حفاظت کیلئے “بندے ” بھیجنے کیلئے آمادہ ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں لگتا ہے یہ آخری موقع ہے ہم چالیس سالہ افغان پالیسی سے رجوع کر لیں یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔
عظیم لوگوں کی کشمیر پالیسی کا جو حال ہوا ایک دنیا نے دیکھا ۔ افغان پالیسی کا حال تو بچہ بچہ اور بوٹا بوٹا جانتا ہے لیکن
“جانے تو جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے”
نوٹ ۔ پتہ پتہ کو ہم نے جان بوجھ کر بچہ بچہ میں تبدیل کیا ہے تصیح کی زحمت نہ کی جائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply