موٹر وے حادثہ،ظاہر جعفر ،لبرلازم اور بیڈ گورننس(1)۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

نظریاتی قیاس آرائی سے قاتل و مقتول کا تعلق:

شاید قارئین  کو یاد ہوگا گزرشتہ سال غالباً ستمبر کے مہینے  میں لاہور موٹر وے پر رات گئے سفر  کرتی خاتون خانہ کے ساتھ  ایک ظالمانہ سفاکانہ واقعہ وقوع پذیر ہوا تھا جس میں موٹروے پر رات کو سفر    کے دوران فرانسیسی  شہریت یافتہ  خاتونِ خانہ  کے ساتھ انکے کم سن بچوں کی موجودگی میں جنسی زیادتی کی گئی تھی، اس معاملہ کے ساتھ ہی بحث و مباحثہ،تنقید کا عمل شروع ہوگیا جیسا کہ اس قسم کے ظلم و بربریت اور ظالمانہ اقدامات اور اعمال کے رونما ہونے کے بعد شروع ہونا وطن عزیز میں معمول سا بن گیا ہے،اس قسم کے واقعات کے بعد دائیں بازو اور اور بائیں بازو،قدامت پسند اور جدت پسندوں ،مشرق زدہ اور مغرب زدہ افراد کے درمیا ن جو مباحثہ اور مکالمہ شروع ہوتا ہے اس سے حقائق کی مبادیات،جزئیات و کلیات میں تو شاید کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے ،مگر اس سے لوگوں کو دل   ٹھنڈا کرنے اور بقراطیت جھاڑنے کا نادر موقع مل جاتا ہے،پھر واقعہ اور حادثہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے سے زیادہ جذباتیت کی سیاست   شروع ہوجاتی ہے، جسکا  نہ ہی قاتل اور مقتول پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ    بلاتکار کرنے والوں اور متاثر ہونے والوں پر فرق پڑتا ہے،کیونکہ نا مجرم اس جرم کو لبرل اور مذہبی بنیادوں پر سرانجام دیتا ہے ،اور متاثرہ فرد اس حادثہ سے ان افکار کی روشنی میں ذبح ہوتے ہیں کیونکہ ،جرم کی ننانوے فیصد عمل کاری علمیاتی کم جذباتی،سیاسی اور معاشی نوعیت کی حامل ہوتی ہیں۔مجرم متاثرہ فرد پر جرم کا اطلاق کرنے سے قابل اسے کوئی علمی دلائل  پر لکھا گیا نہ  مقدمہ پیش کرتا ہے اور نہ  اسے کوئی لیکچر دے کر خود کو جائز ثابت کرتا ہے،جرم جرم ہوتا ہے ،اور ہر جرم عموماً حرام ،ناجائز اور غیر منصفانہ اور حق کے خلاف ہوتا ہے۔

ریاستی بدعملیت اور پاکستان:

اس بات میں تو کوئی دو رائے قائم  نہیں ہونی چاہیے اور کوئی کلام ممکن نہیں ہے کہ سول،لبرل ریاست و حکومت ہو یا مذہبی حکومت ہو،امن و امان جان مال کے قیام  کو مسلسل ممکن بنائے  رکھنےکی ذمہ داری  دونوں ہی قسم کے رجحانات کی حامل  ریاست و حکومت کی ہی  ہوتی ہے۔اب یہ ریاستیں ان امور میں اپنے فرائض کی بجاآوری  میں کتنی کامیاب رہتی ہیں اور نہیں رہتی  ہیں اسکا تعین متعلقہ اداروں کے نظم و ضبط،انکی استعداد کار،اہلیت،تربیت،وسائل،مسائل شفافیت،تن دہی اور فرض شناسی جیسے تمام امور کی بنیاد پر ہی  کیا جاسکتا ہے،دوسری طرف  جہاں  تک پاکستانی ریاست میں بستے معاشرے کا معاملہ اور اسکے  خدوخال کا تعلق ہے تو اسکا معاملہ گزرشتہ پچھتر سالوں سے زیر بحث چلا آرہا ہے، جب ہی بہت سوں نے پاکستان کو غیر مستحکم حکومتی ڈھانچہ اور انکی فنی استعداد کار کی عدم موجودگی کے سبب پاکستان کو بنانا ری پبلک تک قرار دے  دیا ہے۔چنانچہ اس سبب حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے باہمی تصادم اور معرکہ آرائی کے نتیجہ میں سیاسی اور معاشی  جہد البقا کی عملی مثالیں تاریخ کے پنوں کی زینت بنتی دیکھی جاسکتی ہیں۔اگر چہ کہنے کو  ہماری ریاست میں آئین بھی موجود  ہے اور قانوں بھی کتابوں میں لکھا نظر آتا  ہے،مگر اسکی شریح و توضیح اور اطلاقِ منصفانہ ایک زائد الفرائض یا پھر فنی زبان میں  اضافیت(ریلیٹیویٹی) پر مبنی معاملہ سمجھا جاتا ہے، چنانچہ  وکلا برادری سے عدلیہ تک اور پولیس سے فوج تک سب اداروں اور جماعتوں میں  بدعملی پر مبنی حکومت کو پروان چڑھانے کا نمایاں عنصر چھلکتا دکھائی دیتا  ہے،کیونکہ لوگ آئین و قوانین سے زیادہ ،خاندانوں اداروں،اور مفادات سے وفاداری رکھتے نظر آتے ہیں یہ ایک جدید لبرل عصبیت ہے جو جمہوری ادارہ جاتی ثقافتوں میں نمودار ہوتی رہتی  ہیں،یعنی جدید  ادارہ جاتی،مفاداتی عصبیتیں خلدون کی تاریخی قبائلی عصبیتوں کی ایک تبدیل شدہ فرع ہیں جسے ایمی چوا کی زبان میں جدید مفاداتی عصبیتیں قرار دیا جاسکتا ہے۔

جنسی اور سماجی حادثات میں نسائیت زدہ سیاست کا ہاتھ:

چنانچہ موٹروے کے واقعہ کے نمودار ہونے کے ساتھ ہی عورت مارچ والیاں ،ماڈرن کم عمر بچیوں کی آڑ میں نمودار  ہونا  شروع ہوگئی تھیں جیسے آج عثمان مرزا اور نور مقدم کیس میں دیکھنے کو ملتا ہے،کیا اس   قسم کے مکالمے اور مباحثوں سے عدالتی انصاف ملنے کے باوجود کیا مرا ہوا واپس آسکتا ہے اور کیا ،عزت و عصمت واپس اپنے مقام پر لوٹ سکتی ہے،کیونکہ  ہم یہ جانتے ہیں کہ  جن مجرموں نے یہ جرائم سرانجام دیئے ہیں  اسکی سزا تو انھیں دنیا اور آخرت میں ملنی ہی ہے،مگر کیا ان عوامل سے دوبارہ آنکھیں موند لی جائیں جن کے سبب اس قسم  کے معاملات رونما ہوتے ہیں، پاگل کتے اور انسان کا منطقی نتیجہ کاٹنا اور حملہ کرنا  ٹھہرتا ہے ،کیا انکے سامنے صرف اس لیے جایا جائے کہ آپکو محسوس ہوتا ہے کہ انکا  سامنا نہ  کرنے کا خطرہ آپکی  مطلق آزادی کے دعوے اور خواہش کے سامنے رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے،شاید نراجیت پسندوں،سادیت پسندوں کو یہ بات عمدہ لگے گی ،مگر ان اقدار کے سبب جب اپنا وجود ہی خطرے کا شکار ہونے لگے تو وجود کو بچانا نظریہ اور فکر کو بچانے سے زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔

یہ بات یاد رکھیں کہ قوانین چاہے لادینی ہوں یا مذہبی نوعیت کے حامل ہوں   یا  انکی نوعیت کسی بھی قسم کی ہو مگر انکے پیچھے ایک نظری اور تجرباتی پس منظر کارفرما ہوتا ہے،وہ کسی امر وقوع پذیر کو اگر بدی،منفی فعل یا بد قدرتی  قرار   دیکر سزائیں دیتے ہیں تو اسکا مدعا و مقصد معاشرے و ریاست کا عمومی تحفظ ہوتا ہے،اور اس سے انحراف قانونی تربیت کے بھی خلاف ہوتا ہے،اور سول فرائض اور ذمہ داری کی دوئیت کا  بھی منکر ہوتا  ہے،سول سوسائٹی نمک پر مرہم زخم لگنے اور موت کے بعد لگانے آتی ہے ،سوسائٹی کی تربیت کے سبب جو جرم نمودار ہوتا ہے اور سوسائٹی کی منطق جس جرم،گناہ اور بد اعمالی کو عمل میں لاتی ہے اسے سوسائٹی مکالمے،میرا نقطہ ہے جیسے الفاظوں،یا احتجاج میں چھپا دیتی ہے،جرم اور گناہ کو پیدا ہونے دینے کی بابت وہ اپنے تصور آزادی کےسبب کچھ  نہ  کرنے کے موڈ میں ہوتی ہے اسکو لگتا ہے کہ مجرم اور متاثرہ فرد کے سروں پر کراماً کاتبین کی مانند پولیس اور ایجنسیز کی نگاہ ہوتی ہے،جب بھی ایسا ہوا تو ہمارے قانون اور قانون ساز اداروں کی کمزوری،کوتاہی اور غفلت کے سبب ہوا ہے، جبکہ انکی جو ذاتی ذمہ داری انفرادی اور عملی سماجی  سطح پر ہوتی ہے اس سے وہ تغافل برتنے لگتے ہیں،انھیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب کل معاشرے کا اپنے اداروں کی کمزوری،بد عملی،عدم قانونیت اور امن و امان کی صورت حال روز اول سے عیاں ہے تو وہ کس کے  آسرے پر خود کی اور دوسروں کی جان جوکھم میں ڈالنے  کو تیار ہوجاتےہیں؟۔۔

جب آزادی کی بلا تحدید تربیت این۔جی اوز آنٹیز کے سبب نمودار ہوتی ہے تو کم عمر اور درمیانی عمر کی لبرلازم کے حقیقی ڈسکورس سے ناواقف لڑکیاں  کچھ اظہار کلام کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو انکے حلقوں سے کچھ اس قسم کے نعرے نمودار ہوتے ہیں : لے کر رہیں گی آزادی ،ابا سے لیں گی آزادی ،چچا سے لیں گی آزادی ،دادا سے لیں گی آزادی ،بھائی سے لیں گی  آزادی ،خالو سے لیں گی آزادی ، اب ظاہر ہے وہ یہ آزادی بھی آزاد ہوئے بغیر مانگ نہیں سکتی ہیں،کیونکہ اس قسم کہ بیانیہ آزادی مانگ نہیں رہے ہوتے بلکہ یہ معلومات بہم پہنچارہے ہیں کہ مطالبہ کار تخیلی و نظری بنیاد پر پہلے ہی آزاد ہوچکے ہیں،اس قسم کے نعروں کے ساتھ وہ جن سے آزادی مانگتی ہیں ان سے خاندانی رعایت  اور سہولیات مانگنے کے مطالبات سے بھی فنی طور پر دستبرداری اختیار کرلیتی ہیں،یعنی وہ شروع ہی میں کہہ دیتی ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور تم بھی آزاد ہو،اب یہ معنی تو ممکن نہیں ہیں کہ ہم تو آزاد ہیں مگر تم ہماری ذمہ داریوں کے بندھن سے آزاد نہیں ہو،یا پھر ہماری آزادی کی یہ حدود ہیں اور تمہاری آزادی اور ذمہ داریوں کی فلاں فلاں حدود ہیں۔

نسائی آزادی کی وکالت کس کے لئے؟

چنانچہ مارچ کے دوران   ایک انٹرویو کرنے والے نے ایک  بچی سے دریافت کیا آپکو اتنی آزادی نہیں ملی ہے کہ ایسے نعرے مارتی پھر رہی ہیں تو موصوفہ نے کہا انکے والدین نے انکو شروع سے ہی  آزادی دی ہوئی ہے ،مگر وہ انکے لئے آواز اٹھارہی ہیں جن کو آزادی نہیں ملی ہے، یہ عجب معاملہ ہے کہ جس طبقہ کی طرف اشارہ ہے وہ ،روزی روٹی اور ذاتی مسئلوں میں پھنسا ہوا ان معاملات سے لا تعلق نظر آتا  ہے ،اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ اسکی وکالت کوئی اسکی مرضی اور علم میں لائے بغیر مفت میں سرانجام دے رہا ہے،اس سے قبل انکے تحفظ کے لئے لائے گئے  کئی قوانین پولیس  اپنی درون خانہ مقامی،قبائلی،سماجی ،مذہبی اور معاشرتی وجوہات کے سبب   مفلوج بنا چکی ہے،جیسا کہ ایک بھاگ کر شادی کرنے والوں کے گھر والوں نے جب لڑکے والوں کے خلاف تھانہ میں پرچہ کٹوایا اور  پولیس جب پرچہ کٹوانے والوں کے پاس اعلیٰ  دباؤ کے سبب مدد کے نام پر گئی تو انھیں تفتیشی افسر نے کہا تمہیں شرم نہیں آئی ایسی بے شرم لڑکی پیدا کی ،اسکی ایسی تربیت کیوں نہیں کی وہ  حرام زادی  یوں بھاگ جاتی ؟  چنانچہ یہ سمجھ لینا اشد ضروری ہے کہ کسی قانون سے لیکر قدر کے نفاذ اور تبدیلی کے لئے معاشرے  اور خاندانی نظام کے ماحول کی منظوری لازمی و ناگزیر ہوتی چنانچہ بلا تحدید معاشرتی اور مذہبی اقدار کی مخالفت میں بیرونی ایجنڈے اور ذاتی رجحانات کے مطابق حقوق تخلیق کرکے آزادی کا درس دینے والے  جن کے  نام پر یہ کھیل  کھیل رہے ہیں اور  در حقیقت اپنے ایجنڈے اور مقاصد کے لئے انکی اجازت کے بغیر ان کی لاشوں پر سیاست کررہے ہیں،ابھی حال میں ہی نور مقدم کے لئے ایک مہم کرکے اسکے کیس کے لئے آن لائن بین الاقوامی فنڈ جمع کرنے کی کوشش جب نور مقدم کے والد اور انکے وکیل کے علم میں آئی تو انہوں نے اسے بند کروادیا بقول وکیل میں یہ کیس پیسوں کے لئے نہیں لڑ رہا ہوں،اور کئی وکلا اس کیس کو مفت لڑنے کو تیار ہیں ظاہر ہے،نور مقدم بھی کسی عام گھرانے کی کوئی غریب لڑکی نہیں تھی وہ خود  ایک اعلیٰ  نوکر شاہی کے گروہ سے تعلق رکھتے گھرانے کی رکن تھی جسکی تعلیم و تربیت رہائش ،آئر لینڈ اور انگلستان کے ماحول میں ہوئی تھی،اسکا باپ کوئی غریب آدمی نہیں ایک سفیر تھا جو اس کیس کی پیروی خود کررہا ہے اور تمام اخراجات خود سے برداشت کرسکتا ہے۔

اسی طرح نسائیت زدہ عورت مارچ والیوں کے نعروں سے انکی ذہنی حالت چھلکتی نظر آتی ہے،کارڈ والیوں کو لگتا ہے کہ سارے مرد موٹر وے ریپ کیس کے مجرموں عابد ملہی ،شفقت اور مفتی عزیر یا مفتی قوی جیسے ہوتے ہیں چنانچہ آنٹیوں کی مقلد لڑکیوں کا  ایک نعرہ یہ سامنے آیا کہ سنبھلتا نہیں ہے تو کاٹ دو، جسے کاٹنے کوٹنے کی بات ہورہی  ہے اسکے لئے اہل مغرب نے پورن انڈسٹری کا بزنس کھولا ہوا ہے،جہاں ایک طوائف کو عزت کے طور پر سیکس ورکر کہا جاتا ہے،جس کے لئے باقاعدہ ہر مغربی ملک سے بینکاک تک اسٹریٹ موجود ہیں، اور اسی مغرب کی فلموں میں مرد کے اعضا کا احترام نارمل حالتوں میں اتنا زیادہ ہے کہ ہالی ووڈ میں عورت کو پورا ننگا دکھادیا جاتا ہے ،مگر مرد کے عضو کو چھپا دیا جاتا ہے ،اسی مغرب کی ایک پورن اسٹار مرد اسٹار سے لیکر جج تک سے زیادہ کماتی ہے،جبکہ مذہب کی نگاہ میں مرد ہوں یا عورت دونوں کی جان اور حیات،عزت و شرف ایک ہیں، اس میں منظر کشی کی یہ دوئیت دیکھنے کو نہیں ملتی ہے،کیونکہ فحش چاہے مرد ہو یا عورت گناہ گار دونوں مانے جائیں گے،جرم پر سزا بھی دونوں کو ہوگی۔

اسلام آباد  کی مدنی ریاست(شہری ریاست) کے مدنی تمدنی شاہکار:

جیسا کہ  ہم ریاست  مدینہ کے دارالخلافہ  :اسلام  آّباد میں  جانچتے ہیں کہ  اس  فوٹو شاٹ والے واقعے کی جڑیں  تحقیقات کے بعد عورت مارچ کی منتظمین سے جا ملتی ہیں،بول چینل کے مطابق مکینیکل شاعری نامی گروپ سے وابستہ لڑکا اور لڑکی ،ماضی میں بھی عورت مارچ سے متعلقہ کئی سرگرمیوں میں فعال ہوتے دیکھے گئے ہیں،اور اکثر کے مطابق یہ گروپ، اور یہ دونوں لڑکا لڑکی،ہم جنسیت کے پکے  حامی بتائے جاتے ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ ایسے واہیات،اور فحاش ایک یکساں ردھم میں گول لبوں کی ہیت کا ردھم کیا ذو معنی مفہوم فراہم کرتا نظر آتا ہے،یہ فوٹو شوٹ اگر تمام عریانیت کے باوجود اگر انڈور ہوا  ہوتا تو  غالباً نہ اتنا شور شرابہ ہوتا اور نہ   ہی یہ دونوں نامزد ہوتے اور  نہ  پولیس انکو ڈھونڈنے کی کوشش کرتی حالانکہ بول کے مطابق لڑکی اسکے لئے بیرون ملک سے آئی تھی،اب ان باتوں میں کتنی صداقت ہے ،پولیس اور میڈیا جانے۔دوسرا سوال   یہ  بھی سوچا جاسکتا ہے کہ  جناح کے مجسمہ اور موٹوز کے سامنے لڑکا ناک میں عورتوں والی نتھ پہن کر یک رخی ہیت میں لڑکی کے ساتھ جامنی موزونیت  زدہ تصویر کا اشارہ کس طرف  کروارہا ہے، ہونق  چہروں کے ساتھ غیر سنجید  گی  سے تجربہ اور نزاکت کی معاملہ فہمی  کی جگہ جرات اور آزادی کی آزمائش  چھلکتی نظر آتی ہے،آزادی  اظہار کی بہرحال  ہم  پڑھتے ہیں کہ  کچھ مثبت  نتیجہ خیز چیزیں بھی علمی دنیا  میں موجود   ہیں ،جو مارکسیت اور نو مارکسیت  کی بحثوں سے  ہیبرمارس سے  میشل فوکو  تک دیکھنے کو ملتی   دیکھی جاسکتی ہیں، اس ضمن میں اسٹیٹس کو  ،کو چیلنج   کرنا فحاشی،عریانی ،جنسی آزادی کے ماسوا بھی ممکن ہے،جسکا فکری اور عملی آزادی میں شاید کچھ مہذبانہ  حصہ علمی طور پر  قابل قبول ہو، بد قسمتی  سے اہل یورپ کی نسائیت اور آزادی معاشی مجبوری پر کھڑی ہونے کے باوجود علمی رخ اور فکر بھی رکھتی ہے،مگر مشرق میں اسکا رخ بس احتجاجوں،ناچ گانوں اور فحاشی عریانی کے مظاہروں تک محدود دکھتا ہے، جب ہی   علمی بلوغت کی قلت کے سبب   سوچنا ممکن ہے کہ  ان علامتی اظہاریوں کے پس پشت کن امور کا اظہار  علامتی تناطر   میں کیا جارہا ہے ؟  کون ان میچور  ماڈلز سے میچور  ہم جنسی اظہاریہ ڈسپلے کروارہا ہے ؟ آخر اتنا تو طے ہے کہ اسکا مقصد اپنی آزادی کے اظہار کے ساتھ عامتہ الناس کے جسدوں میں آگ لگانا بھی تھا،اور شہرت بھی مطلوب تھی، تیسرا  سوال جو پیدا ہوتا ہے جب یہ عمل مقام وقوع پر جاری تھا تو کیا کسی نے یہ حرکات  وسکنات کھلے عام   سرانجام ہوتے نہیں دیکھی تھیں،یا اسلام آباد میں تواتر سے آزادی کے اظہار کا  مختلف ہیتوں اور کیفیتوں میں  وقوع پذیر ہونا روز مرہ کی بات ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply