امریکہ کے پتے از کپتان نیازی۔۔۔ معاذ بن محمود

امریکہ کے پتے
کپتان نیازی ✍
قسط نمبر 69

“ہیلو؟ اس نے فون کان سے لگایا۔”

“کپتان۔۔۔۔۔۔۔”

آہ۔۔۔ جو بائیڈن! وہی بھاری، خوب صورت، شائستہ آواز۔

اس نے گہری سانس لی۔

یہ لوگ اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، وہ جتنا ان کو پرے دھتکارے، وہ اس کا سائے کی طرح تعاقب کرتے رہیں گے۔

“کہیے! کس لیے فون کیا ہے آپ نے؟”

اس کی آواز میں خود بخود رکھائی در آئی۔ یہ پوچھنا بے سود تھا کہ جو بائیڈن کو اس کا نمبر کیسے ملا اور فون بند کرنا بھی بے سود تھا۔ وہ پھر فون کر لے گا اور کرتا ہی رہے گا۔ اسے کس اور طرح سے اب ڈیل کرنا ہو گا۔

“کیا ہم کچھ دیر کے لیے بات کرسکتے ہیں؟” اس کی آواز بوجھل تھی۔ تکان سے بھری۔ غم سے لبریز۔ اداس، متفکر۔

نیازی نے لمحے بھر سوچا، اس کا ذہن چند خیالات کو ترتیب دینے لگا تھا۔

“دیکھیں صدر بائیڈن۔۔۔”

اس نے سوچ سوچ کر کہنا شروع کیا۔

“اگر تو آپ کوئی ایسی بات کرنا چاہتے ہیں جو کسی چنتخب زیرِ باجوہ سے کرنا غیر مناسب ہے تو مت کیجئے، لیکن اگر آپ کوئی باہمی مفاد کی بات کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو سن رہا ہوں”

وہ دراصل “سن رہا ہے ناں تو۔۔۔ رو رہا ہوں میں” کہنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر بندہ جتنا بھی غیرت سے عاری کیوں نہ ہو۔۔۔ ہلکی پھلکی رمق رہ ہی جاتی ہے۔

وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر اس کی آواز فون میں ابھری۔

“مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے جو آپ کے ساتھ ہوا۔”

وہ ایک دم بالکل ساکت ہو گیا۔ اس کے کانے ہونے کی خبر پھیل چکی تھی۔

“تو کیا وہ سب راز نہیں رہا؟” ایک بوجھ سا اس کے دل پہ آن گرا تھا۔

”فکر نہ کریں، پاکستان میں کسی کو علم نہیں ہوا۔”

وہ اس کے لہجے پر غور کرنے لگا۔ یہ کیا کوئی دھمکی تھی کہ وہ چاہے تو پاکستان میں سب کو علم ہوسکتا ہے؟ اس کے پاس یقینا ً اس کی ویڈیو تھی اور پاشا کے پاس اس کی بہت سی تصاویر ۔ بلیک میلرز!

“میں نے آپ سے کہا تھا ناں۔۔ اگر زندگی میں کوئی آپ کو افغانستان کے پتے لا کر دے تو انہیں تھام لیجئے گا۔ وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گے۔”

اس کی آواز میں دل کو چیرتا ہوا درد تھا۔

“اور میں نے بھی آپ سے کہا تھا کہ ہم امریکہ والوں نے جنتیں کہاں دیکھی ہیں۔”

“آپ نے میری بات نہیں مانی۔ مجھے اس واقعے نے جتنی تکلیف دی، شاید زندگی میں کسی اور شے نے اتنی تکلیف نہیں دی۔”

“میں انتظار کرتا رہا، فون آپ نے نہیں کیا، ظلم میرے ساتھ ہوا، تو آپ مجھے کیوں قصور وار ٹھہرا رہے ہیں؟”

“وہ ہر کسی کو اغوا نہیں کرتے۔ لالچی انسانوں کو کرتے ہیں۔”

“میں لالچی ہو تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟”  وہ حیران نہیں ہو رہا تھا، وہ پوچھ رہا تھا۔

“انہیں یہ پتہ چلا کہ آپ لالچی ہیں اس میں آپ کا قصور ہے۔”

وہ بھی طنز نہیں کر رہا تھا، بس مغموم انداز میں کہہ رہا تھا۔

“تو اب میں کیا کروں؟ اب ان سارے مسائل سے کیسے جان چھراؤں؟”

“کون سا مسئلہ ہے؟ آپ مجھے بتائیں؟ آپ مجھے ہمیشہ اپنا خیرخواہ پائیں گے نیازی صاحب!”

وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر ایک فیصلے پر پہنچ کر کہنے لگا۔

“اگر کوئی آپ کو بلیک میل کرنے لگے تو کیا کرنا چاہیے؟”

“بلیک میلر ایک بے نتھے بیل کی طرح ہوتا ہے کپتان! اس سے بھاگیں گے تو وہ آ پ کا تعاقب کرے گا اور تھکا تھکا کر مار دے گا۔ سو اس سے کمر کر کے بھاگنے کی کے بجائے اس کا سامنا کریں اور آگے بڑھ کر اس کو سینگوں سے پکڑ لیں۔ دنیا کا کوئی ایسا بلیک میلر نہیں ہے جس کی اپنی کوئی ایسی کمزوری نہ ہو، جس پہ اسے بلیک میل نہ کیا جاسکے۔”

“آپ کی کمزوری کیا ہے؟”

“بہت سی ہیں۔ کمزوریاں پوچھی نہیں۔ تلاشی جاتی ہیں۔ لیکن میں بلیک میلر نہیں ہوں۔”

“اگر مجھے آپ کی کمزوری تلاشنی ہوتی تو پوچھتا نہیں۔ اس نے ذرا محفوظ سے انداز میں جتایا ۔”

“ویسے وہ فون کا شوشہ کس نے چھوڑا تھا؟” وہ جوابا خاموش رہا۔

“صدر بائیڈن! میرا خیال ہے اب ہم یہ ڈمب گیم بند کر دیں اور یہ بات تسلیم کر لیں کہ آپ مجھے ایک خنجر بن کر فون کرتے رہے ہیں۔”

اس نے ٹرمپ کے بجائے خنجر کہنا مناسب سمجھا۔

“میں تسلیم کرتا ہوں۔”

“آپ ٹرمپ نہیں تھے مگر ٹرمپ کون تھا؟”

“آئی ایس آئی نے بتایا تو تھا آپ کو!”

“کیا میں نے آئی ایس آئی کا اصلی چہرہ دیکھا ہے؟”

“نہیں، آپ اسے نہیں جانتے۔”

“وہ شیخ رشید مجھے آئی ایس آئی نے بھیجا ہے مگر اس کا ماضی، وہ دودھ اور بھینس۔۔۔ وہ کس نے لکھا تھا؟ کون لکھتا ہے یہ اچوالِ زیریں؟ کیا آپ لکھتے ہیں؟”

وہ خاموش رہا۔

“بائیڈن صاحب! مجھے سچ سچ بتا دیں۔ ویسے میں جانتا ہوں کہ وہ آپ ہی لکھتے ہیں۔ آپ جیسے لوگ منظر عام پہ آنے کی بجائے پس منظر میں بیٹھ کر عقل کی ڈوریں ہلاتے رہتے ہیں۔”

“وہ آئی ایس آئی لکھتی ہے۔”

“واقعی؟” اس کی آواز میں محتاط سی حیرت تھی۔

“جی!”

“اچھا مجھے نیند آ رہی ہے”  نیازی ذرا بےزاری سے بولا۔

“آپ بے شک سو جائیں مگر پلیز فون بند مت کیجئے گا۔ وہ جیسے التجا کر رہا تھا۔”

“جب میں کچھ بولوں گا ہی نہیں تو آپ کیا سنیں گے؟”

“میں آپ کی خاموشی سنوں گا کپتان!”

“میں سو رہا ہوں۔ سکون صرف قبر میں ہے!”

اس نے تکیے پہ سر رکھتے ہوئے “جان چھوڑو” والے انداز میں کہا، مگر پھر اس نے واقعی موبائل بند نہیں کیا۔ایک ہاتھ سے فون کان سے لگائے دوسرا بازو آنکھوں پہ رکھے وہ کب سو گیا اسے علم نہیں ہوا۔

گیارہ بج کر انسٹھ منٹ صبح صادق اٹھتے ہی اس نے موبائل چیک کیا۔

موبائل پر جلی حروف میں لکھا تھا۔۔۔

“بھاگیوان پیرنی مدظل علیہ کالڈ یو ۹۹ ٹائمز”

“وڑ گئے بھئی۔۔۔ اب نہیں چھوڑنے والے مؤکل”

مؤکل کے خوف میں وہ یہ بھی بھول گیا کہ صدر بائیڈن کی کال فقط اس کے تخیل کا کارنامہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply