خوفناک تجربہ۔۔گل نوخیز اختر

میں شادیوں پر نہیں جاتا، پتا نہیں اپنی شادی پر کیسے چلا گیا تھا۔ شادیوں پر نہ جانے کی وجہ میرا ایک خوفناک تجربہ ہے جو مجھے بھلائے نہیں بھولتا۔ آج سے پندرہ سال پہلے مجھے دور دراز کے ایک گاؤں کی ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں جو کچھ ہوا وہ بیان سے باہر ہے، میرے ایک دوست کے ملازم کے بیٹے کی شادی تھی، وہ مجھے بھی زبردستی ساتھ لے گیا۔ وہاں کے انوکھے ہی رواج تھے مثلاً یہ کہ دلہن اور دولہا کے گھر والے علامتی لڑائی لڑتے ہیں۔ میں اپنے تئیں بن ٹھن کے گیا تھا، کالی پینٹ کے ساتھ پرپل کلر کی نئی شرٹ اور پیروں میں چم چم کرتے کالے بوٹ۔ ایک طویل سفر کے بعد جب ہم دولہا کے گھر پہنچے تو بارات تقریباً تیار تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی پچاس روپے والے نوٹوں کا لمبا سا سہرا پہنے دولہا کو ’’چنگ چی رکشے ‘‘سے اتار کر ہماری گاڑی میں شفٹ کر دیا گیا، دولہے کے چاچے مامے بضد تھے کہ مجھے گاڑی سے نکال کر پیچھے بیل گاڑیوں کی قطار میں بٹھا دیا جائے جہاں سارے باراتی بیٹھے ہیں اور اُنہیں دولہا کے ساتھ بیٹھنے دیا جائے لیکن بھلا ہو میرے دوست کا جس نے بروقت جھوٹ بول دیا اور میری طرف اشارہ کرکے بولا ’’اس کا چار دن پہلے آپریشن ہوا ہے اس کو نہ اُٹھائیں‘‘۔ بات معقول تھی لہٰذا کسی نے اعتراض نہ کیا اور بارات چل پڑی۔ میں نے پاس بیٹھے دولہا سے پوچھا ’’کیوں بھائی! خوش ہو ناں؟‘‘ دولہا نے یکدم منہ پر رومال رکھ لیا اور سختی سے زبان بند کر لی۔ اس کا باپ جلدی سے بولا ’’سائیں! یہاں کا رواج ہے کہ دولہا نہیں بولتا‘‘۔ میں نے جلدی سے کہا یہ رواج تو شہر میں بھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کا دولہا شادی سے پہلے نہیں بولتا، وہاں کا بعد میں نہیں بولتا۔
دلہن کا گاؤں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لہٰذا تھوڑی ہی دیر میں ہم دلہن کی دہلیز پر تھے۔ سامنے دلہن کے عزیز و اقارب چمکتی آنکھوں کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کرنے کے لئے موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سب نے اپنے ہاتھ پیچھے کیے ہوئے تھے۔ شاید یہ بھی کوئی عزت کا اسٹائل تھا۔ ہم دولہا اور اس کے باپ کے ساتھ نہایت فخر سے گاڑی سے نکلے، ہمارے عقب میں 14بیل گاڑیوں کی قطار تھی جن میں مرد،عورتیں اور بچے بھرے ہوئے تھے البتہ ایک بیل گاڑی بالکل خالی تھی جس کے اوپر چادر سے ڈھکا ہوا کچھ سامان تھا۔ اتنے میں دلہن کے باپ نے آگے بڑھ کر دولہا کے باپ سے سلام لیا اور بولا ’’سائیں! اجازت ہے؟‘‘ دولہا کے باپ نے گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر کہا ’’بسم اللہ کرو‘‘۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کس قسم کی تیاری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دلہن والوں نے اپنے ہاتھ سیدھے کر لیے۔ میں چونک اٹھا۔ سب نے ہاتھوں میں گیلی مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے پکڑے ہوئے تھے۔ ہمارے باراتیوں کی طرف سے بھی ایک نعرے کی آواز آئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا، ایک باراتی نے خالی بیل گاڑی پر سے چادر ہٹا دی تھی، نیچے گندھی ہوئی مٹی کا ڈھیر پڑا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے سارے باراتی بیل گاڑی سے اپنے اپنے حصے کی مٹی اٹھانے لگے۔ میں ہونق بنا کھڑا تھا، میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا جس کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا، میں نے جلدی سے سرگوشی کی’’ابے یہ سب کیا ہے؟‘‘ اُس نے سہم کر کہا ’’میرا خیال ہے! یہ یہاں کی روایت ہے‘‘۔ میں مزید حیران ہو گیا ’’کیا مطلب؟ کیسی روایت‘ کیا تم …‘‘ ابھی الفاظ میرے منہ میں ہی تھے کہ ٹھاہ سے ایک مٹی کا ڈھیلا اڑتا ہوا میرے منہ پر لگا اور میرا جبڑا تک ہل گیا۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا یکدم ہر طرف سے ڈھیلوں کی بارش ہونے لگی۔ لوگ خوشی سے نعرے لگارہے تھے اور ایک دوسرے کے کپڑوں کی ’’مٹی پلید‘‘ کر رہے تھے۔ تین منٹ سے بھی کم وقت میں میرا منہ اور سر مٹی میں لتھڑ گیا۔ اسی ’’بمباری‘‘ کے دوران میں نے دولہا کی طرف دیکھا جو ہاتھ میں پکڑے رومال سے اپنے منہ پر تابڑ توڑ پڑنے والی مٹی صاف کر رہا تھا۔ کمبخت ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہا تھا۔ یہ ’’فرینڈلی فائرنگ‘‘ پانچ منٹ تک جاری رہی، پھر اچانک دلہن کا باپ بلند آواز سے بولا ’’بس بھئی بس‘‘۔ اور اچانک گرنیڈ گرنا بند ہو گئے۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوش ہورہے تھے، میں نے دانت پیس کر اپنے دوست کی طرف دیکھا، ہم دونوں مٹی کے بھوت لگ رہے تھے۔ میں نے بےبسی سے منہ کھول کر گہرا سانس لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی، کہیں سے کوئی آخری ادھ چلا ڈھیلا اڑتا ہوا آیا اور سیدھا میرے منہ پر آلگا اور مجھے یوں لگا جیسے میں نے منہ میں ’’ست ربڑی‘‘ گیند دبائی ہوئی ہے۔ میری حالت رونے والی ہو گئی تھی۔ میں نے دوست سے کہا کہ گولی مارو شادی کو واپس چلتے ہیں۔ وہ بھی تیار ہو گیا لیکن دولہا کے باپ نے منت سماجت کرکے ہمیں روک لیا۔ تھوڑی دیر بعد کھانا کھول دیا گیا۔ ایک بڑے سے تھال میں گوشت کی بڑی بڑی بوٹیاں ڈال کے بیس پچیس بندوں کے آگے رکھ دیا گیا اور اشارہ ہوا کہ ’چار چار ہو جاؤ‘۔ میں آنکھ بچا کر دوست کے ساتھ دوسری طرف نکل آیا۔ ہم دونوں بےبسی سے ایک دوسرے کی حالت دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے رہے۔ تاہم میں نے آہ بھرنے کے دوران احتیاطاً منہ نہیں کھولا۔ تھوڑی دیر بعد دولہا کا باپ ہمارے پاس آیا اور بڑی لجاجت سے میرے دوست سے بولا ’’سائیں! بس ایک چھوٹی سی رسم اور ہے پھر واپس چلتے ہیں‘‘۔ میں چونکا ’’کیسی رسم؟‘‘ دولہا کا باپ آہستہ سے بولا ’’یہاں رواج ہے کہ کھانے کے بعد باراتیوں پر بچا ہوا جوٹھا کھانا پھینکتے ہیں‘‘۔ یہ ہولناک بات سنتے ہی میری اور میرے دوست کی چیخ نکل گئی، ہم دونوں نے اگلی بات سننے سے پہلے ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر چھلانگ لگائی اور گاڑی بھگا دی۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے جو میں نے چلتی ہوئی گاڑی میں سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ ڈیڑھ دو سو بندوں کا ایک غول۔ ہاتھ میں پتیلے اٹھائے ہماری جاتی ہوئی گاڑی کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply