انصاف کا جنازہ۔۔عطا الحق قاسمی

مجھے جب کسی عدالتی فیصلے کے بارے میں رائے لینا ہوتی ہے تو میں استادِ محترم انصاف علی انصاف سے رجوع کرتا ہوں، بفضلِ خدا فوت وہ ہو چکے ہیں مگر اُن کا فیض ابھی تک جاری ہے۔ اُن کے تخلص انصاف کی وجہ تسمیہ وہ واقعہ بنا جس نے اُن کی سوچ کے دھارے بدل کر رکھ دیے۔ انصاف مرحوم جوانی میں ایک عفیفہ پر عاشق ہوئے، اس کے والدین شادی پر رضا مند نہیں تھے، دراصل انہیں شک تھا کہ انصاف مرحوم ’’چانڈو‘‘ پیتے ہیں حالانکہ استاد ساری عمر اس گھٹیا نشے کے قریب نہیں گئے، وہ صرف ’’ٹھرا‘‘ پیتے تھے یا کبھی کبھی چرس سے شوق فرماتے تھے۔ بہرحال جب انہیں یقین ہو گیا کہ محبوبہ کے والدین اس شادی پر تیار نہیں ہوں گے تو انہوں نے اپنی محبوبہ سے خفیہ نکاح کر لیا مگر محبوبہ کے ’’شقی القلب‘‘ والدین نے ایک دفعہ پھر اس شک کا اظہار کیا کہ ان کی بیٹی کو استاد کے پالتو غنڈے زبردستی اٹھا کر لے گئے تھے۔ یہ سراسر غلط بیانی تھی کیونکہ جنہیں غنڈے قرار دیا گیا وہ استاد کے ہونہار، سعادت مند اور نیک اطوار شاگرد تھے جو اکھاڑے میں اُن سے فنِ پہلوانی کے دائو پیچ سیکھتے تھے، وہ اپنے استاد کی محبوبہ کو کیسے اٹھا کر لے جا سکتے تھے؟ وہ تو اسے ٹیکسی میں بٹھا کر لائے تھے۔ بہرحال عدالت میں کیس دائر کر دیا گیا، استاد مرحوم سالہا سال اُس کیس کی پیروی کرتے رہے جس کے نتیجے میں اُنہیں عدالتی نظام سے گہری واقفیت ہوتی چلی گئی۔ کیس کا فیصلہ استاد کے خلاف ہوا۔ مجسٹریٹ درجہ چہارم نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مغویہ سے جبراً نکاح کے کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور یوں یہ شادی نہیں ہوئی۔ مجسٹریٹ درجہ چہارم نے استاد کو سزا سنائی اور ایک ہفتے بعد مغویہ سے خود شادی کر لی۔ استاد اس صورت حال سے اس درجہ دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے شاعری شروع کر دی۔ والدین نے تو ان کا نام کچھ اور رکھا تھا مگر شاعری انہوں نے انصاف علی انصاف کے نام سے شروع کی اور پھر اس میں اتنا نام کمایا جتنا انہوں نے ہیروئن کی اسمگلنگ میں بھی نہیں کمایا تھا۔ دور دراز سے لوگ ان سے شعر کی اصلاح کے علاوہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں رائے لینے کے لئے بھی آتے تھے۔ استاد نے اپنے گھر کے دروازے پر یہ شعر لکھ کر لٹکایا ہوا تھا:
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
میں نے ایک دن پوچھا استاد آپ کو یہ شعر اتنا پسند کیوں ہے؟ بولے ’’کس کافر کو پسند ہے اگر پسند ہوتا تو میں اسے لٹکاتا کیوں؟ میں تو اس شعر کے خالق کو بھی اسی طرح اپنے دروازے پر لٹکانا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’استاد میں آپ کی بات کچھ سمجھا نہیں‘‘۔ فرمایا ’’سمجھنے کی کوشش کرو، بادشاہوں کا بھلا عدالت سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اور جب تعلق نہیں ہوتا تو کسی کے کہنے پر زنجیر ہلانے کی حماقت کا کیا جواز ہے؟ جس عدالت سے انصاف کی توقع نہ ہو اس کا دروازہ کھٹکھٹانا اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے‘‘۔
اس پر میں نے استادِ مرحوم کے ہاتھ چوم لئے اور کہا ’’آپ کی وساطت سے اس شعر کے سقم مجھ پر پہلی بار آشکار ہوئے ہیں مگر بادشاہوں کے دروازے پر لگی زنجیر ہلانے سے کچھ لوگوں کو تو انصاف ملتا ہی ہوگا ورنہ لوگ بار بار زنجیر کیوں ہلاتے؟ فرمایا ’’تم ابھی بچے ہو، ایک سو غلط فیصلوں کے بعد ایک صحیح فیصلہ سنانے سے لوگوں کا عدالت پر اعتماد قائم ہوتا ہے جس کے نتیجے میں باقی فیصلے بادشاہ سلامت اپنی مرضی سے کرتے ہیں! یہ کہتے ہوئے استادِ مکرم انصاف مرحوم نے شفقت سے میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’دیکھو بیٹے بیک وقت بادشاہ ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ عادل مشہور ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ آج کل بہت سے پسماندہ ممالک میں اس نوع کے تجربات کئے جا رہے ہیں، کہیں سیاست دانوں کی باہمی پھوٹ کام آتی ہے، کہیں بادشاہ سلامت کا رستہ ایجنسیاں ہموار کرتی ہیں لیکن یہ طریقے فرسودہ ہو چکے ہیں اور اب ان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اِن دنوں تبدیلیاں عدالتی فیصلوں کے ذریعے عمل میں آتی ہیں، مہذب بادشاہتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کہہ کر انصاف مرحوم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے حتی کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں، میں نے دلاسا دینے کے لئے ان کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا مگر اس کے نتیجے میں ان پر مزید رقت طاری ہو گئی، جب کچھ دیر بعد ان کی سسکیاں رکیں تو بولے ’’میں نے ابھی جو کچھ کہا غلط کہا، بکواس کی، انصاف اس طرح قائم نہیں ہوتا، میری منکوحہ کو مجسٹریٹ درجہ چہارم لے اڑا اور حق دار کی یہ حق تلفی عدالتی عمل ہی کے ذریعے وجود میں آئی تھی، لعنت ہے مجھ پر، میں کیا اول فول بک گیا؟ میں نے دیکھا استاد کا گلاس خالی تھا اور ایش ٹرے میں پڑا سگریٹ بھی بجھ چکا تھا۔ میں نے گلاس اور سگریٹ دونوں ’’بھر‘‘ کر استاد کو پیش کئے۔ استاد نے بھرے ہوئے سگریٹ کا سوٹا لگایا اور گلاس ’’ڈیک‘‘ لگا کر خالی کر دیا۔ کچھ دیر بعد ان کے نتھنے کھلنے اور بند ہونے لگے اور ان کے مترنم خزاٹے سنائی دیے تو میں اٹھ کر چلا آیا۔ اس کے چند دنوں بعد استاد انتقال فرما گئے، ان کی نماز جنازہ میں مجسٹریٹ درجہ چہارم نے بھی شرکت کی۔
استاد کے جنازے پر ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا، ایک راہگیر نے پوچھا کس کا جنازہ جا رہا ہے؟ ایک شاگرد نے جواب دیا انصاف کا جنازہ جا رہا ہے جس پر مجسٹریٹ درجہ چہارم کے حکم پر پولیس نے جنازے کے شرکا پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply