اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر پابندی سے عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کی اور میکنزم بنا کر وفاقی حکومت سے مشاورت کا حکم دیا۔ وکیل پی ٹی اے نے عدالت میں جواب دیا کہ پشاوراور سندھ ہائی کورٹ نے پابندی لگائی تھی اور میکنزم بنانے کا کہا تھا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دونوں عدالتوں نے کہیں نہیں کہا کہ آپ ٹک ٹاک کو مکمل طور پر بند کریں ایسے ویڈیوز تو یوٹیوب پر بھی اپلوڈ ہوتی ہیں، تو آپ یوٹیوب کو بھی بند کر دیں گے؟ آپ لوگوں کو گائیڈ کریں کہ غلط چیزیں نہ دیکھیں ایپس تو معاش اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہے، آپ نے دونوں عدالتوں کے فیصلوں کو غلط استعمال کیا میکنزم کا کہا گیا تو کیا آپ نے میکنزم بنایا؟ آپ کے پاس کیا اختیار ہے کہ آپ ٹک ٹاک مکمل بند کررہے ہیں؟ جس بنیاد پر ٹک ٹاک بند کیا، اسی بنیاد پر سوشل میڈیا کے باقی ایپس کیوں بند نہیں کئے؟
وکیل پی ٹی اے نے عدالت میں جواب دیا کہ سوشل میڈیا کے باقی ایپس میں چیزوں کو سرچ کرنا پڑتا ہے جبکہ ٹک ٹاک پر خود ہی آجاتے ہیں عدالت نے کہا کہ اگر پی ٹی اے ٹک ٹاک کو بند کرتی ہے تو کیا پی ٹی اے پاکستان کو بیرون ممالک سے منقطع کرسکتی ہے؟ پی ٹی اے کیا چاہتی ہے؟ کیا مورل پولیسنگ (اخلاقی نگرانی) کرے گی؟ آپ صرف منفی چیزیں کیوں دیکھتے ہیں، آپ مثبت چیزیں بھی دیکھ لیں، بالغوں کو غلط چیزیں خود نہیں دیکھنی چاہیے سوشل میڈیا ایپس کے صرف نقصانات نہیں فوائد بھی ہیں عدالت کو مطمئن کریں کہ کبھی پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کے فوائد اور نقصانات پر کبھی ریسرچ کی ہو بیرون ممالک میں ٹک ٹاک کہاں کہاں پراورکیوں بند ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں