ظاہر محمود کی ڈھولکی۔۔محمد حمزہ حامی

بقول پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب “ڈھولکی بجنے والی ہے۔ ظاہر محمود نے ہاتھ ڈھولکی پہ رکھ دیئے ہیں۔”
اور پھر ڈھولکی ایسی بجی کہ اچھے اچھوں کی بجا گئی۔

مضامین، یادوں، سفرانچوں اور افسانچوں پر مشتمل یہ کتاب اپنے اندر صدیوں کا خزانہ چھپائے ہوئے ہے۔ ایک سائنس کے طالبعلم سے اتنے خوبصورت نثر پاروں کی توقع بھی بعید از قیاس ہے، کہاں کیمیا جیسا ذہن شکن مضمون اور کہاں اردو ادب جیسا نرم خو اور طنز و ظرافت سے مزین مضمون، لیکن ایک بنجارہ ایسا ہے جو بیک وقت دونوں مضامین پر قدرت رکھتا ہے۔ دریاؤں، سمندروں، پہاڑوں، جھیلوں، صحراؤں اور کھنڈرات میں گھومتا یہ نوجوان کبھی کسی صنم کدے میں بدھا سے ہمکلام ہوتا ہے اور کبھی دیوی دیوتاؤں سے، کبھی بلند و بالا چوٹیوں سے اور کبھی ہزار ہا برس پرانے بوسیدہ در و دیوار سے جن پہ صدیوں کے تحّیر کے ڈورے پڑے ہوں، پھر ان سے ایک ماہر سنگ تراش کی طرح نثر پارے تراشتا ہے۔

ڈھولکی میں جمع کیے گئے شہ پارے خوبصورت استعارات، ترکیبات اور محاوروں سے مزین ہیں زبان و بیان کی خوبصورتی، طنز و مزاح کا تڑکا، تلخ حقائق کی عکس بندی اور منفرد اسلوب ڈھولکی کو مزید چار چاند لگاتا ہے۔ کتاب اپنے نام اور کام دونوں اعتبار سے منفرد ہے جہاں ظاہر محمود نے “ڈھولکی” جیسا منفرد نام منتخب کیا ہے وہیں افسانچے اور سفرانچے جیسی نئی اصطلاح بھی متعارف کروائی۔ اول اول کتاب کا نام سن کر از راہِ تفنن میں نے کہہ دیا، بھائی ڈھولکی کے بعد بالترتیب گھنگھرو، ہارمونیم، سارنگی، طبلہ اور رقاصہ تخلیق کر کے کلیات بنام کوٹھا چھپوا دیں، ایک دن کہنے لگے اگلی کتاب کیلئے نام “گھنگھرو” زیرِ غور ہے تو مجھے لگا شاید موصوف نے واقعی “کوٹھا” منزلِ مقصود بنا لیا ہے۔

کتاب میں کئی جگہ پر انتہائی تلخ، خوبصورت اور دل کو چھو  لینے  والے جملے استعمال ہوئے ہیں جو معاشرتی اور اخلاقی کم ظرفی پر کاری ضرب ہے، ملاحظہ فرمائیں۔

“وہ اپنا پیٹ پالنے کو نجانے کتنوں کی وحشت روزانہ ٹھکانے لگانے کا فریضہ سرانجام دیتی۔ اس کے آس پاس کنجر بھی تھے مگر وہ اتنے بدنام نہ تھے جتنی وہ تھی چونکہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتی تھی جہاں روایات غیر منطقی بنیادوں پر گھڑی جاتیں اور پھر اگلوں کو ان روایات پر کاربند رہنے کا پابند بھی کیا جاتا تھا۔ (مضمون، کنجری)”

“اتنے میں ایک چبوترے پر سے ایک اور جوتے مارتا دستہ چابک دستی سے آیا، جھنڈا تہہ کیا اور سلامی پیش کی۔ عوام اس جذباتی منظر کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔ دور پیچھے حبس کا مارا قائداعظم، اکبر کا مارا شہیدِ ملت اور کسی نامعلوم کی ماری مادرِ ملت خاموش تھے۔ (سفرانچہ، حاضری مزارِ قائد پہ) ”

“ہم نے جو اب تک دیکھا یا محسوس کیا ہے، ہندوستانی سرمایہ داروں اور شاطر مذہبی پیشواؤں نے مذہب کو بطور کنجری استعمال کیا ہے اور خود دلالی کی ہے جبکہ عوام کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ لٹو کی پھرکی پہ گھمایا ہے۔ (سفرانچہ، مکلی کا قبرستان)”

“قلعہ کے احاطے میں جابجا بکھرے کھانے پینے کی اشیا کے چھلکے اور گندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ سندھ ہو یا پنجاب، پاکستانیوں کو ان کی جبلت اور گھٹیا رویوں کے اظہار سے کوئی مائی کا لعل نہیں روک سکتا۔ (سفرانچہ، کوٹ ڈی جی کا قلعہ)”

اس خوبصورت شہ پارے میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جنہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے جو اس کے حسن کو ماند کر رہی ہیں وہ کئی مقامات پر مونث مذکر، واحد جمع اور پروف ریڈنگ کی اغلاط ہیں۔ کئی جگہ پر جملوں کا احتتام ” ہوا پڑا تھا، ہوئے پڑے تھے اور کرا کری” جیسے غیر کتابی و غیر ادبی الفاظ پر ہوتا ہے جن کی درستی لازم ہے۔ ایسے الفاظ جملے کی صحت اور بیانیے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک ہی چیز کا ذکر بارِ دگر بھی تحریر کو کمزور بناتا ہے۔ مصنف نے مختلف مضامین میں مختلف حوالوں سے اپنی مادرِ علمی اور اقامت گاہ کا ذکر بار بار بہت مفصل کیا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔ ایک ہی جامع مضمون تخلیق کرنا جس میں موضوع کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے ایک صحت مند طرزِ تحریر اور قادر الکلام مصنف کی نشانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ظاہر بھائی کو اس خوبصورت شہ پارے کیلئے بہت مبارکباد اور کامیابی کیلئے ڈھیروں دعائیں۔
آپ دوستوں سے بھی التماس ہے کہ ڈھولکی سے ضرور استفادہ کریں یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گی بلکہ آپ کے شعور کو نئے ردھم اور نئے سروں سے آشنا کرے گی۔

Facebook Comments

محمد حمزہ حامی
شاعر ، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply