طیبہ تشدد کیس

دنیا میں انسانی جذبوں سمیت ہر شے کا انداز مشینی ہوگیا ہے، انسانوں کی اوسط عمر تیزی کے ساتھ کم ہو رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ " خبر " کی عمر میں اضافہ ہو ۔ ایک معمول کی خبر کی عمر سمٹ کر 24 گھنٹے اور کسی غیر معمولی خبر کی عمر 72 گھنٹے قرار پائی ہے ۔ یعنی کوئی عام خبر ایک دن بعد اور کوئی خاص خبر تین دن بعد ہمارے ذہنوں سے محو ہو جاتی ہے ۔ ہزاروں لوگوں کا لاپتہ ہو جانا تو ایک اجتماعی خبر بن کر دردمند دلوں میں مقیم رہتی ہے مگر دکھ اور درد کا احساس صرف ان ہزاروں لوگوں کے لواحقین تک محدود رہتا ہے جنکی ہر صبح اور ہر شام اپنے پیاروں کی راہ تکتے گزرتی ہے اور ان لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد کا تعین کسی قومیت کے حوالے سے اخبار کی ایک کالمی خبر کی زینت بھی بن جائے تو غنیمت ہے ۔لاپتہ ہونے والوں کا انفرادی تذکرہ میڈیا کی تیز رفتار ترقی اور ریٹنگ سے کسی طور ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والے بھی کرپشن اور سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انسانی حقوق کی عمومی خلاف ورزیوں پر اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک کوئی این جی او اپنے ذرئع سے اس کی نشاندہی نہ کرئے یا اسے منظر عام پر لانے کی سعی نہ کرئے ۔ مقصد گمنام لوگوں کا گمنام ہو جانا یا گمنام لوگوں پر ظلم ہونا بہ مشکل ہی میڈیا کی توجہ حاصل کرتا ہے ۔ واحد بلوچ اور سلمان حیدر جیسے وسیع حلقہ احباب رکھنے والے لوگ بھی پہلے سوشل میڈیا پر زیر بحث آتے ہیں اس کے بعد نیشنل میڈیا بھی حسب توفیق کوئی خبر بنا دیتا ہے ۔ اخبارات میں ایسی خبر پہلے دن دو کالمی اور باقی دو دن ایک کالمی فالواپ کی حقدار قرار پاتی ہے ۔
چائلڈ لیبر قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی اور کمسن بچوں پر تشدد کے واقعات ہمارے سماج میں روزمرہ کے معمولات میں شامل ہیں مگر جب کسی معروف صاحب حیثیت کی جانب سے اس جرم کا ارتکاب کیا جائے تو وہ خبر بن کر کچھ دن تک زیر بحت رہتا ہے اسکے بعد وہی بے حسی کا نہ ختم ہونے والا جمود ۔طیبہ بھی ایک ایسی ہی دس سالہ معصوم بچی تھی جسے اسلام آباد کے ایک بنگلہ میں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،اس کے چہرے اور ہاتھوں کو آگ سے جلایا گیا اس معصوم اور کمسن بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر آنے کے بعد اسلام آباد پولیس حرکت میں آئی اور اس بچی کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے برآمد کر لیا گیا ۔بچی جج صاحب کی ملازمہ تھی اور جج صاحب اور انکی اہلیہ نے مبینہ طور پر بچی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا ،جنکے خلاف مقدمہ بنا اور پھر اعظم نامی ایک شخص بچی کا مبینہ والد بن کر سامنے آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنے طور پر تحقیق کر لی ہے۔ یہ مقدمہ بد نیتی پر مبنی ہے میں جج صاحب سے صلح کر رہا ہوں اگر انھیں رہا کر دیا جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔اس راضی نامہ کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا اور ایک دو رکنی بینچ اب اس مقدمہ کی سماعت کر رہا ہے ۔
بچی کو اعظم نامی شخص ساتھ لے گیا تھا مگر اب بچی کو بازیاب کروا لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر اسے سویٹ ہوم میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ اعظم کی تلاش میں پولیس چھاپہ مار رہی ہے ۔ دوسری طرف دو مختلف خواتین کا دعویٰ ہے کہ طیبہ انکی بیٹی ہے ۔ دونوں خواتین کا تعلق فیصل آباد سے ہے ایک کا نام فرزانہ اور دوسری کا کوثر ہے ۔ ایک خاتون فرزانہ کا کہنا ہے کے طیبہ اسکی بیٹی ہے جس کا نام طیبہ نہیں آمنہ ہے جبکہ کوثر نامی خاتون کا کہنا ہے کہ طیبہ کا نام ثنا ہے ۔ اس صورت حال میں جج صاحب نے تو دونوں خواتین اور طیبہ کا ڈی این اے کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کیلئے خون کے نمونہ بھی لے لیے گئے ہیں مگر کسی نے ان خواتین سے یہ سوال نہیں کیا کہ انکی بچی فیصل آباد سے اسلام آباد کس طرح آئی اور یہ ملازمت اختیار کی ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر راجا خرم علی خان سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی خدمات واپس لے لی گئی ہیں اور انھیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت مکمل ہونے تک ہائیکورٹ میں بطور او ایس ڈی خدمات انجام دیں۔ گو کہ یہ ہے تو راجا خرم کی تنزلی مگر اس سماج اور نظام کا المیہ کہ چیف جسٹس کا ریڈر بھی کسی سیشن جج سے زیادہ انتظامی اختیارات رکھتا ہے جنکی کوئی قانونی حیثیت نہیں مگر یہ وہ زہر ہے جو پوری انتظامی مشنری میں سرایت کر چکا ہے صاحب کا چپڑاسی بھی صاحب سے کچھ زیادہ نہیں تو کم اثر و رسوخ کا مالک نہیں ہوتا ۔ طیبہ کو انصاف دلانے کیلئے ملزمان کی گرفتاری ضروری ہے ۔
اسلام آباد میں ایک جج کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی معصوم طیبہ ہی نہیں لاکھوں معصوم بچے جبری مشقت اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں جن کو انصاف ، تعلیم اور بہتر معیار زندگی فراہم کرنا سی پیک اور نیلی پیلی بسوں سے زیادہ ضروری ہے ۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک بچہ جو ایک روپیہ کی ٹافی خرید کر کھاتا ہے اس پر بھی چالیس پیسے حکومت کو ٹیکس دے رہا ہوتا ہے مگر حکومت جواب میں اسے جو مستقبل دیتی ہے طیبہ اسکا استعارہ ہے ۔
طیبہ سویٹ ہوم میں بہت خوش ہے۔ اس نے اپنے پہلے دونوں دن وہاں کھیلتے کودتے گزارے ہیں ۔ عدالت اسکے ماں باپ کا تعین تو ڈی این اے سے کر لے گی مگر کیا اسکے مستقبل کی ضمانت دے پائے گی ؟ طیبہ کے جسمانی زخم وقت کے ساتھ مندمل ہو جائیں گے مگر اسکی روح پر لگے زخموں کا مداوا ہو پائے گا ؟ ہم نہیں کہتے کہ راجا خرم یا اسکی اہلیہ کو ڈی چوک پر لٹکا دو مگر اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ وہ دونوں سفاک میاں بیوی اس ننھی بچی کے قدموں میں بیٹھیں اور بچی ان سے اپنے زخموں کا حساب لے یا انھیں معاف کر دے ۔قید و جرمانہ قانون کا منشا ہے جس سے بچی کو کوئی سروکار نہیں ۔ معزز چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس قابل قدر ہیں کہ” بنیادی حقوق کے معاملات پر راضی نامہ نہیں ہو سکتا “مگر افسوس کے آپ ہی کے ادارے کا ایک سیشن جج یہ بات نہیں جانتا تو دیگر انتظامی مشنری سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply