• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جناح کا پاکستان, بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامسٹ فکر ۔۔ بلال شوکت آزاد

جناح کا پاکستان, بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامسٹ فکر ۔۔ بلال شوکت آزاد

میں صادق آباد ضلع رحیم یار خان کا مقامی ہوں۔ ۔ گزشتہ چھ ماہ میں پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران میرا خالص ہندو برادری کے علاقوں میں ہر ہفتے ہر ماہ متعدد بار جانا ہوا۔مرید شاخ و ماچھکا تو میں ہر ہفتے جاتا تھا جہاں میری اکثریت ہندو برادری کے پریکٹشنرز سے ملاقات رہتی تھی۔

یقین مانیں یہ میرا واحد فیلڈ ٹوور ہوتا تھا جس کا مجھے ہر ہفتے انتظار رہتا تھا کیونکہ میں جونہی مرید شاخ اور ماچھکا کی حدود میں داخل ہوتا تو لگتا میں کوئی راجہ اندر ہوں جو اپنی سبھا چمکانے اور سنبھالنے جارہا ہے۔

وجہ کیا تھی؟

وجہ تھی ہندو پریکٹشنرز اور میڈیکل سٹور مالکان کا مجھ سے اور مجھ جیسے دیگر میڈیکل سیلز ریپ سے حسن اخلاق جو کہ ہمارے مسلمان پریکٹشنرز و میڈیکل سٹور مالکان ہی نہیں اکثریتی عام مسلمان میں بوجہ غرور و تفاخر کہ ہم تو نبی کی امت سے ہیں لہذا کنفرم جنتی ہیں کے زعم کی وجہ سے ناپید ہوچکا بلکہ کیا گیا ہے۔

میں اپنا فیلڈ ٹور ماچھکا سے شروع کرتا تھا (مرید شاخ پہلے آتا ہے اس سے چھ سات کلومیٹر آگے ماچھکا ہے) کیونکہ وہاں دو تین گھنٹے گزار کر واپسی مرید شاخ آکر اختتامی کام نبٹا کر براستہ چوک ماہی ٹو کوٹ سبزل روڈ واپس صادق آباد نیشنل ہائی وے سے آنا ہوتا تھا۔خیر ایک تو سندھ دھرتی جہاں مہمان نوازی اور میزبانی کی عظیم روایات صدیوں سے چل رہی اور جوں کی توں ہیں اوپر سے وہاں بیٹھی ہندو برادری کی ونمرتا و پریم کی پھوار سونے پہ سہاگہ ہے۔

پانی وہ بھی اپنے پاس موجود بہترین جگہ پر بٹھا کر پلانا تو عام روٹین ہے لیکن آپ کے مزاج اور شوق کے مطابق وہاں دستیاب جوس, چائے, پھل اور بوتل وغیرہ سے تواضع بھی لازم ہے بھلے وہاں ان کے پاس سارا دن تانتا بندھا رہے, جو ان کی خاطر داری کی ایسی دعوت قبول کرلے وہ انہیں وہاں سے یونہی اٹھنے نہیں دیتے۔

اور ایک اور بات۔ ۔ ۔ وہ صرف آپ کی چرب زبانی جو کہ مارکیٹنگ اور سیلز والوں کا عمومی خاصہ ہے پر ہی آپ کو ہینڈسم اماؤنٹ کا بزنس دے دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب انہی کے ساتھ پڑوس میں بیٹھے ہمارے بھائی بندھ مطلب کنفرم جنتی ہم سے ذاتی منافع کی خاطر malpractice اور اوچھے ہتھکنڈوں پر عملدرآمد کی سکیمیں ڈسکس کرتے اور کرواتے اور لارا دیکر روانہ کردیتے کہ پہلے جو کہا گیا ہے وہ کرکے دکھاؤ تو پھر سوچیں گے وغیرہ وغیرہ۔

بہرحال میں نے وہاں عمومی طور پر امن و امان اور باہمی بھائی چارہ دیکھا ہے۔ مسلکی و فرقہ ورانہ ہم آہنگی ہو یا نہ ہو پر مذہبی رواداری اور ہم آہنگی و بھائی چارے کی فضاء ضرور دیکھی۔

آج سنا بلکہ کئی جگہ پڑھا کہ صادق آباد کے نواحی و ہندو برادری کے مخصوص علاقے میں مذہبی دنگا فساد ہوا ہے جس میں اسلامسٹ افراد پیش پیش رہے اور مندر کی توڑ پھوڑ اور مذہبی دہشتگردی کے اظہار میں ہر حد پھلانگ گئے۔ میں ابھی مکمل وقوعے سے نابلد ہوں لیکن کیونکہ میں اس پٹی اس علاقے کا ہوں تو چند مسائل اور حقائق جو جانتا ہوں وہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

صاحبان, ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اصل مسئلہ وہاں بیٹھے عام مسلمان اور ہندو کا ہے ہی نہیں بلکہ وہاں صدیوں سے جاری وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام ہے جو مستقل امن و آشتی کو اپنی نادیدہ حکومت و سربراہی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

جناح نے آزادی کے بعد دستور سازی کے لیے جو فارمولا وضع کیا تھا معاف کیجیئے گا وہ دور حاضر کی جدید لغت میں ٹوٹل سیکیولر فارمولا تھا البتہ قدیم لغت یا شریعی اعتبار سے مکمل اسلامی کیونکہ تمام مذاہب کے ماننے والے (ایک معقول خراج یعنی ٹیکس دیکر) اپنے مذہبی و ذاتی معاملات میں ناصرف آزاد و خودمختار ہونگے بلکہ محفوظ اور ریاست کی ذمہ داری بھی ہونگے۔

مسلمانوں کو شریر و ہندوتوا نظریہ کے حامل ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ کرنے, آزاد و خودمختار رہنے اور اسلام کی تجربہ گاہ سجانے کے لیے الگ وطن کی ضرورت تھی جو مسلم لیگ اور جناح نے جہد مسلسل سے اللہ کی مدد سے ممکن بنائی۔پاکستان ہی کیا دیگر 54 سے 55 ممالک بھی مسلمانوں کے وطن تو بہرحال ہیں لیکن اسلامی ممالک قطعی قطعی نہیں ہیں۔ کہیں جمہوریت کی بہاریں ہیں تو کہیں بادشاہی نظامت چل رہی, کہیں سیکولریٹی کا دور دورا ہے تو کہیں لبرل ازم و ماڈیریشن کی بہاریں ہیں۔ ۔ ۔ الغرض خالص اور مکمل اسلامی نظامت و شریعت کا حامل ایک بھی مسلمان ملک نہیں لہذا اب جدت و حقیقی شریعت کا تقاضہ ہے کہ امن و آشتی اور بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کے لیے مذہبی و غیر مذہبی شدت پسندی, انتہا پسندی اور عدم برداشت سے پہلو تہی کرنی ہوگی۔

میں بارہا اس پر ڈھکے چھپے انداز میں لکھ چکا ہوں کہ ہم اسلامسٹ نے اسلامی کا صیغہ اتنا بدنام کردیا ہے کہ جونہی کوئی اسلامی کا لاحقہ و سابقہ لگا کر کوئی انسانی و خیر سگالی وغیرہ کا نظریہ یا خیال پیش کرتا ہے تو طبیعت مکدر ہونا شروع ہوجاتی ہے دریں کھاتے یہ سوچ کر  کہ جب اسلامی وہ بھی اسلام والا نہیں بلکہ اسلامسٹ والا ساتھ لگ گیا تو مطلب یہ اب انسانی و خیر سگالی والا نظریہ اور خیال تو رہا ہی نہیں بلکہ یہ ایک جانبدار اور متشدد نظریہ و خیال ہے دراصل, جس کا واحد مقصد شکاری بننا اور بنانا ہے۔

ہمیں تو ابھی تک دین اور مذہب کا فرق نہیں سمجھ آیا اور ہم چلے ہیں اللہ و بھگوان کی حفاظت میں گلے کاٹنے, عزتیں لوٹنے اور تباہی کی ڈانگ ایک دوسرے کی منجھی تھلے پھیرنے۔

ماہ اگست ہے, جشن آزادی کی تیاریاں عروج پر ہیں اور ایسے میں ہم سنیں پڑھیں اور دیکھیں کہ دو متضاد مذہبی گروہ آپسی و ذاتی معاملات اور رنجشوں کو مذہبی و نظریاتی رنگ دیکر ایک دوسرے کی عزت مجروح کر رہے, املاک کو نقصان پہنچا رہے, مذہبی شعار کو بگاڑ رہے اور اس سب پر فخرو انبساط کا مظاہرہ بھی کر رہے۔

تف ہے کہ ہم جو سبق بھارت اور بھارتی ہندوؤں کو پڑھاتے رہے کہ اکثریت اقلیت کا خیال کرے اور رواداری کا مظاہرہ کرے اور حقیقی سیکیولر ریاست بنے وہی سبق ہم خود بھول رہے اور بھارت کے نقش قدم پر چلنا شروع ہوگئے۔

واللہ حقیقی اسلامی ریاست میں تو ایک یہودی بھی مقدم ٹھہرا بارگاہ رسالت ﷺ  اور صدیق و عمر رض کے فیصلوں میں لیکن مسلمان بلکہ تب کے منافق اور آج کے اسلامسٹ کو عمر کی تلوار کا مزہ چکھنا پڑا اور ایک آج کا دور ہے جب ہم اسلامی ریاست کا واجا تو وجا رہے لیکن درحقیقت اسلام اور اسلام کا مزاج ہم سے کوسوں دور ہے۔

ساری باتیں ایک طرف۔ ۔ ۔ ریاست بالخصوص اسلامی ریاست کی رٹ یہ ہے کہ دو اشخاص یا گروہوں میں ذاتی ہو یا سیاسی یا مذہبی یا خواہ کسی بھی طرح کی رنجش ہو وہ اس کا فیصلہ خود کی عدالت لگا کر نہیں کرسکتے سو جو بھی ہوا خواہ وہ صحیح یا غلط تھا۔ ۔ ۔ ریاست کو پس پشت کرکے دنگا فساد اور مار دھاڑ قطعی قطعی آئینی اور شریعی فعل نہیں لہذا اس پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرکے ریاست کو آگے لانا ہوگا تاکہ وہ اپنی رٹ قائم کرسکے اور انصاف کے آئینی و شریعی تقاضے پورے کرسکے۔

جناح کے پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی و رواداری تو چل سکتی ہے پر اسلامسٹ فکر کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ اس فکر کو تو خود اسلام کا عمومی مزاج بھی قبول نہیں کرتا اور وجہ ہے کہ یہ اسلام سے 180 ڈگری متضاد بجز ذاتی پسند و ناپسند اور شدت پسندی, انتہا پسندی اور عدم برداشت پر مشتمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناح کے پاکستان میں ایک ہندو, سکھ, عیسائی, قادیانی اور مسلمان اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کے لیے آزاد و خودمختار اور ایک دم برابر ہیں لہذا برابری کی اس پرامن فضاء کو مذہبی و غیر مذہبی شدت پسندی, انتہا پسندی اور عدم برداشت سے آلودہ مت کریں۔ ۔ ۔ آلودہ مت ہونے دیں بلکہ ایسے شر پسند عناصر کا قلع قمع کریں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply