کپاس (25) ۔ محمد علی پاشا کا مصر/وہاراامباکر

ہندوستان کے برعکس مصر میں حالات کپاس کی برآمد کے لئے زیادہ سازگار تھے۔ مصر میں کپاس کی برآمد دیر سے شروع ہوئی۔ مصر کے گورنر محمد علی پاشا طاقتور حکمران تھے۔ انہوں نے عسکری طاقت کے بل بوتے عثمانیوں سے بڑی حد تک خودمختاری چھین لی تھی۔ ان کی ترجیح مصری علاقے کی معاشی ترقی تھی۔ اور کاٹن انڈسٹری بنانا مصر میں کی گئی اصلاحات کا نتیجہ تھا۔ وہ 1818 میں فرانسیسی ٹیکسٹائل انجینر لوئی جومیل کو اس سلسلے میں مصر لائے۔ جومیل نے قاہرہ میں کپاس کا جو ریشہ دیکھا تھا وہ لمبا اور مضبوط تھا۔ محمد علی پاشا نے ریسرچ فنڈنگ دی اور جومیل نے اس قسم کو مزید ڈویلپ کیا۔ 1821 تک یہ قسم جومیل کاٹن یورپ میں برآمد کی جانے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد علی پاشا کو اس کی قدر کا علم تھا۔ انہوں نے ملک بھر میں اس کو اگانے کا حکم دیا۔ اور شروع سے ہی اس پراجیکٹ میں زبردستی کا عنصر شامل تھا۔ کسانوں سے سرکاری زمینوں پر بے گار میں کام کروایا جاتا تھا۔ اس کو کوروے ٹیکس کہا جاتا تھا۔ ٹیکس کی یہ قسم سرکار کے لئے مفت مشقت کی صورت میں تھی۔ کاشتکاروں کو اپنی زمینوں پر بھی کپاس اگانے کا حکم تھا۔ خاص طریقے سے اگانے کا حکم تھا اور اپنی فصل حکومت کو فروخت کرنے کا حکم تھا۔ اس کی قیمت حکومت مقرر کرتی۔ اور اس کی ٹرانسپورٹ اور سکندریہ کی منڈیوں میں برآمد کا بندوبست کرتی۔ غیرمصریوں کے لئے ممنوع تھا کہ وہ مصری کاشتکاروں سے براہِ راست سودے کر سکیں۔
کپاس کی فصلوں کو پانی دینے کے لئے نہریں کھودی گئیں۔ زیریں مصر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا تا کہ اس پر کپاس کی ٹرانسپورٹ ہو سکے۔ یہ کام بے گار سے لیا گیا۔
نیویارک کے میگزین کے 1834 کے ایک آرٹیکل سے اقتباس، “فلاحین (عرب کسان) کپاس کی کاشت اپنی مرضی سے نہیں کرتے اور اگر پاشا کے جابرانہ احکامات نہ ہوں تو مصر میں بہت کم ہی کپاس پیدا کی جائے”۔
امریکہ میں محنت جبر سے تھی لیکن تجارت نجی تھی۔ مصری ریاست کا کپاس کی تجارت پر کنٹرول بھی خود تھا۔ مصری حکمران بیرونی تاجروں کا اثر روکنے میں 1850 کی دہائی تک کامیاب رہے تھے۔ حکومت مقرر کردہ قیمت پر کپاس خرید کر سنٹرل گوداموں میں ذخیرہ کرتی اور پھر سکندریہ بھیج دی جاتی۔ بیرونی تاجروں کو خام کپاس فروخت کرنے والے واحد شخص محمد علی پاشا تھے۔ 1820 اور 1830 کی دہائیوں میں مصری ریاست کی آمدن کا دس سے پچیس فیصد کے درمیان کپاس کی فروخت سے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپی صنعتکاروں کو برآمدات نے امریکہ سے غرب الہند، برازیل سے مصر تک کی زمین کو بیش قیمت بنا دیا۔
اس کے مقابلے میں افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں یا تو کپاس گھریلو ضرورت کے لئے اگائی جاتی رہی یا مقامی منڈی میں کھپت ہوتی رہی۔
چین کی بہت بڑی مقامی مارکیٹ کا گڑھ شنگھائی تھا۔ کپاس کے بڑے تاجر یہاں تھے۔1845 کی ایک ڈائری سے، “شنگھائی کی طرف آنے والی سڑکوں پر خزاں میں رش ہوتا تھا۔ قلیوں کے گروپ کپاس لادے شہر کی طرف آ رہے ہوتے تھے۔ جاپان میں بھی مقامی مارکیٹ پھل پھول رہی تھی۔ بنگال میں اگرچہ کپڑے کی برآمدات گر گئی تھیں لیکن 1802 میں 7 ملین پاونڈ کپاس مقامی طور پر اگتی تھی جبکہ 43 ملین باقی ہندوستان سے درآمد ہوتی تھی۔
مقامی پیداوار کے یہ نیٹورک کمزور ہوتے گئے۔ یورپی صنعتوں سے بننے والے کپڑے نے ہر جگہ پر مقامی ہنرمندوں اور جولاہوں کے کاروبار ختم کر دئے۔ یہ کاریگر وہ اشیا بنا رہے تھے جن کا خریدار نہیں تھا۔ ٹنچ کوکس لکھتے ہیں کہ “برطانیہ سے آنے والا کپڑا جس جس طرح سستا ہوتا گیا، مقامی پیداوار ختم ہوتی گئی”۔
چین، ہندوستان، جاپان اور دیگر ممالک میں مقامی پیداوار کم ہونے کا مطلب یہ نکلا کہ اب یہ علاقے صنعتکاری کے بغیر یہاں کی پیداوار بے فائدہ ہو رہی تھی۔
صنعتی کیپٹلزم نے اب یورپ سے نکل کر دوسرے ممالک کا رخ کیا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر محمد علی پاشا کی ہے۔ یہ 1840 کا پورٹریٹ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply