مقابلے کا امتحان (ڈرامہ)۔۔محمد وقاص رشید

کردار۔ پروردگارو شہنشاہِ عالم۔ فرشتے اور جنات ، ابلیس۔ آدم۔ حوا

(پہلا سین)
نور کا ایک دربار سجا ہوا ہے۔ ۔یہ دربار ازل سے ابد تک کے شہنشاہ کا دربار ہے۔ شہنشاہِ عالم۔۔۔ باشاہِ کائنات خدا کا دربار بہت سے فرشتے ہیں بہت سے جنات،جو کہ اسکی حمد و ثنا میں مشغول ہیں ۔ سر جھکائے ہوئے پلکیں بچھائے ہوئے،رکوع و سجود کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے،اپنے اپنے جادوئی اور  مسحور کُن انداز میں خدا کی توصیف کی نغمہ گری بھی جاری ہے۔
——–
(دوسرا سین )
ایک جن ہے اسکے رگ و پے میں آگ بھری ہوئی ہے۔۔کہ وہ آگ سے تخلیق کردہ ہے۔۔۔۔وہ جن خدا کا ایک خاص الخاص درباری ہے۔۔۔ کائناتِ خداوند میں کوئی ایسی جگہ اس نے نہیں چھوڑی جہاں اس نے سجدہ نہ کیا ہو۔۔۔ اسکی عبادت گزاری کی مثالیں دی جاتی ہیں خداوند کی سلطنت میں ،اسکا نام ابلیس ہے۔
——–
(تیسرا سین)
ایک دن ابلیس جب ایک نورانی آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اپنے ماتھے پر ایک نشان دیکھتا ہے ۔ اسکے بارے میں سوچتا ہے۔ ۔اسکی آنکھوں کے سامنے اپنے سجدے آنے لگتے ہیں ۔ ہر وہ جگہ ایک فلم کی ریل کی طرح گردش کرنے لگتی ہے جہاں اس نے سجدہ دیا۔ یہ سوچ کر اسکی گردن تھوڑی اکڑنے لگتی ہے ۔اس میں تناؤ سا آنے لگتا ہے ۔وہ اپنے دل میں ایک عجیب سرشاری کی سے کیفیت محسوس کرتا ہے ۔ اسے اچانک اپنا آپ باقی تمام فرشتوں اور جنوں سے برتر نظر آنے لگتا ہے۔ وہ نور کے ماخذ دربار کی طرف کمر کر کے ہر طرف نظر دوڑاتا ہے اسے ہر چیز حقیر نظر آنے لگتی ہے۔  یہ حقارت اسکی آنکھوں میں ایک مخصوص رعونت سی پیدا کر دیتی ہے۔
———
(چوتھا سین )
نورانی دربار میں سبز یاقوت سے بنے بڑے بڑے پردے پھڑپھڑانے لگتے ہیں۔  سلطنت میں ایک سرخ سی آندھی چلنے لگتی ہے ۔ بادل اچانک سے گڑگڑانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔فرشتے اور جنات اپنی اپنی پناہ گاہوں کی طرف لپکتے اور خدا سے پناہ مانگتے ہوئے گڑگڑانے لگتے ہیں ،زرکون سے بنے تخت کے مینار ہلنے لگتے ہیں۔ ایک عجیب دہشتناک سا منظر پوری سلطنت میں چھا جاتا ہے ۔اس ماحول میں اتنی سراسیمگی کبھی کسی نے نہیں دیکھی ۔رات کا اندھیرا چھانے لگتا ہے۔
——-
(پانچواں سین)
صبح کا آغاذ فرشتوں کی آپس میں چہ مگوئیوں سے ہوتا ہے۔۔متوحش نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ انہوں نے خداِ بزرگوار کی جانب سے اتنی سنجیدہ سحر کا آغاز اس سے پہلے ہزار ہا صدیوں میں نہیں دیکھا تھا ۔جید فرشتے اس بات پر فکر مند ہیں کہ خدا کس گہری سوچ میں محو ہے ۔وہ خدا سے بات کرنے کے بارے سوچنے لگتے ہیں۔
———
(چھٹا سین )
خدا واقعی فکر مند ہے۔ ۔کروڑوں اربوں کھربوں صدیوں میں پہلی دفعہ کسی کے دل میں کبر پیدا ہوا ۔۔اپنی عبادتوں کا کبر۔۔۔ اپنی ریاضتوں کا غرور۔۔۔ اپنی پارسائی کا گھمنڈ اور ان تمام کی بنیاد پر اپنی ذات کا احساسِ برتری ۔ “تکبر “۔۔ خدا کو ابلیس سے یہ توقع نہ تھی ۔۔اس رات جب سب سو گئے تو ازل سے ابد اور مابعدِ ابد جاگتے رہنے والے حی القیوم نے کچھ نیا سوچا۔۔۔ کچھ اور سوچا ۔۔ ایک خاص جگہ پر پڑی ہوئی مٹی کو دیکھ کر خدا مسکرانے لگا۔ ۔
——–
(ساتواں سین )
ابلیس کی عبادتیں اس دن کے بعد ایک نیا روپ دھار لیتی ہیں ۔۔۔اسکی ریاضتیں ایک نئی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ اسے اب اپنی ذات سے عشق ہونے لگتا ہے ۔جس آگ سے وہ بنا اس آگ کو وہ الہی کے دربار کی ہر چیز سے برتر جاننے لگتا ہے۔  عبادات سے فارغ ہو کر جب وہ ایک خاص جگہ سے گزرتا ہے تو وہاں پڑی ہوئی مٹی کو پیروں میں مسلتا ہے۔  دھپ سے پاؤں مار کر اڑاتا ہے۔  وہ نہیں جانتا کہ اس آگ اور مٹی کے درمیان کیا معرکہ شروع ہونے والا ہے۔۔۔کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔ بس عالم الغیب شہنشاہ جانتا ہے۔۔جانکاری جس کو سجتی بھی ہے۔
———-
(آٹھواں سین )
دلوں اور نیتوں کا حال جاننے والا علیم الحکیم جان چکا ہے کہ ماتھے کے جس سیاہ نشان نے عجز کی روشنائی کی طرح سیاہ ہو کر بھی دل کے قلم سے روح پر روشنی کی تحریر ثبت کرنی تھی اب تکبر کی ظلمت بن کر بخت کے اندھیروں میں ڈھل چکا ہے۔ جس گردن نے خدا کے سامنے جھک کر اپنے قیام کا سامان کرنا تھا ،اس میں اپنی ذات کا تکبر گردن کا وہ سریا بن چکا ہے جو کہ اب گلے کا طوق بن کر رہے گا ۔ابلیس خدا کی چادر یعنی کبر کی طرف رواں دواں تھا۔۔۔۔اور خدا اسکے من میں پلتی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ۔
———
(نواں سین)
پھر وہ دن آتا ہے جب شہنشاہِ عالم اپنے منصوبے سے سب کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ جس بارے وہ پُر سوچ تھا۔۔۔۔غور فرما رہا تھا ۔زمین و آسمان کی جزئیات کو کن فیکون کے تابع بنا رہا تھا۔ منادی ہوتی ہے۔ تمام فرشتے اور جنات کورنش بجا لاتے ہیں ۔ایک اہم ترین اعلان متوقع ہے ۔ آج کائنات کو ہمیشہ کے لیے ایک نئی ڈگر پر لے جانے والا دن ہے۔۔۔۔ آج شہنشاہِ عالم کے نئے منصوبے کا دن ہے،اسکے خلیفہ آدم کا دن ہے ۔ خدا سب فرشتوں اور جنات سے کہتا ہے ۔ میں نے ایک نئی کائنات بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔ ایک نئی مخلوق بنانے کے بارے میں حتمی فیصلہ میں کر چکا۔۔۔۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

فرشتے کہتے ہیں کہ  یاالہی ہمیں خدشہ ہے کہ وہ تیرے خلیفہ بننے کے شایانِ شان نہ ہو گا ۔پروردگار جواباً وہ کہتا ہے جو صرف وہی کہہ سکتا ہے۔۔ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
———-
(دسواں سین)
خدا مٹی کو فیض عطا کر چکا۔ ۔خاک کے بخت جاگ گئے۔۔۔اسکے ذروں کو اماں مل گئی۔  اسکا ریزہ ریزہ اپنی تخلیق کی میراث پا چکا۔  مٹی خلیفہ یزداں بنانے میں کام آئی۔ خدا نے مٹی کو “کن “کہا۔۔۔ اس نے آدم کے روپ میں ڈھل کر” فیکون “کہہ دیا  ۔فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا۔ ادب کا کیسا مقام آیا۔ سجدہ کرو اسے۔ ۔ خدا نے حکم دیا۔۔۔۔کاش کہ مٹی اپنی اس عظمت کے خراج میں اپنے پروردگار کے در کی دہلیز میں مدغم ہو چکے۔۔۔۔کاش کہ انسان اس رفعت کو محسوس کر سکے کہ مسجود خدا نے اس کے سجدے کا حکم دیا کیوں دیا۔۔۔۔
———–
(گیارہواں سین )
(خدا اور ابلیس کا مکالمہ)
ابلیس۔۔ ۔میں آدم کو سجدہ نہیں کروں گا
الہی۔ کیوں۔۔کس لیےتو نے اپنے رب کے حکم کو ٹالا ؟
ابلیس۔ ۔کیونکہ آدم مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے۔۔۔ جو کہ مٹی سے افضل ہے۔۔۔۔سو یہ سجدہ نہیں بنتا۔۔۔
الہی۔ جا تو آج سے راندہ درگاہ ہے۔۔۔مردود۔۔۔۔نیچے اتر اس مقام سے جو تجھے میں نے عطا کیا۔۔۔ جسے اس تکبر کے ساتھ تو نہیں رکھ سکتا
ابلیس ۔۔مجھے مہلت دے قیامت تلک۔۔۔۔۔
الہی۔۔  جا تجھے عطا کی جاتی ہے یہ مہلت
ابلیس۔ ۔جیسے تو نے مجھے بھٹکایا ویسے میں جسکی وجہ سے بھٹکایا گیا اب اسے بھٹکاتا رہوں گا
(حالانکہ اسے بھٹکانے والا اسکا تکبر تھا۔۔۔ وہ احساسِ برتری جو اس سے لے قیامت تک ہر اس شخص کو خدا کے مقابل لا کھڑا کرتا رہے گا جو خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھتا ہو۔۔۔)
——- –
(بارہواں سین)
الہی آدم سے یہ فرماتا ہے کہ یہ جنت تمہارا گھر ہے۔۔۔۔ اس میں اپنی زوجہ حوا کے ساتھ رہو۔  ہر شے سے لطف اندوز ہو۔۔ ہر شے سے افادہ حاصل کرو۔۔۔ مگر فلاں درخت۔۔۔ شجرِ ممنوعہ ہے۔۔۔ اسکے پاس مت جانا۔۔۔۔آدم وحوا کورنش بجا لاتے ہوئے مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں ٹھیک ہے پروردگارِ عالم۔۔۔ جو حکم ہمارے شہنشاہ
———
(تیرہواں سین)
آدم و حوا ہنسی خوشی وہاں زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔۔ دودھ و شہد کی نہریں، باغات، طرح طرح کی سوغاتیں،کھانے،۔ خدمت گزار و تابعدار فرشتے ۔۔کیا ہی کہنے خدا کی جنت کے۔۔۔۔
——–
(چودہواں سین)
خدا ایک بار پھر فکر مند ہے اپنے خلیفہ کے لئے۔۔۔۔مٹی سے اٹھائے گئے خمیر میں کچھ زود فراموشی کا عنصر ہے۔۔ ارتکاز Concentration کی کمی بیشی فطرت میں شامل ہے۔  سائین ویو کی طرح منفی سائیکل کے دوران بھلا دینے کی خو شخصیت کا حصہ ہے۔۔۔۔ اور انہی چیزوں کے باعث مٹی آگ میں جل کر خاکستر ہو سکتی ہے۔ ۔خدا فکر مند ہے
———-
(پندرہواں سین)
آگ سے بنا ابلیس حسد و بغض کی آگ میں جل رہا تھا اور گھات لگائے بیٹھا تھا منتظر تھا کہ کب آدم جنت اور خدا کی نعمتوں کے یوں عادی ہو جائیں کہ انہیں For Granted لینے لگیں اور ایک دن موقع پا کر وہ آن وارد ہوا اور اس نے آدم کو بہلا پھسلا کر شجرِ ممنوعہ کی طرف مائل کر لیا اور جب وہ اس طرف جا رہے تھے تو فاتحانہ انداز میں پیچھے مڑ مڑ کر وہ پروردگار کے نورانی دربار کو دیکھتا جاتا تھا اور خدا کی اعلی ظرفی کی عظمت کا عروج تھا کہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
————
(سولہواں سین )
آدم شجرِ ممنوعہ سے استفادہ حاصل کرنے کے بعد دربارِ الہی میں حاضر ہیں۔۔۔۔ ابلیس اپنی فتح کا جشن منا رہا ہے۔۔۔ ماحول میں اسکے بھیانک قہقہے اور واشگاف نعرے گونج رہے ہیں۔۔۔آدم سر جھکائے ہوئے ہیں۔۔۔اپنے پروردگار کی حکم عدولی پر نادم ہیں۔۔۔۔انتہائی شرمسار ہیں۔۔۔۔ندامت کے آنسو جونہی انکی آنکھوں سے نمودار ہوتے ہیں۔۔۔ قبولیت کا شرف پاتے ہوئے ایک دعا میں متشکل ہو جاتے ہیں جو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
ربناظلمناانفسناوالم تغفرلناوترحمنالکنکونن من الخسرین۔۔۔
(اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اب اگر تو ہمیں معاف نہیں فرماتا اور ہم پر رحم نہیں فرماتا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہونگے۔۔۔۔۔
– ——–
(سترہواں سین)
پروردگارو شہنشاہِ عالم کا نورانی دربار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔۔۔۔آج فیصلے کا دن ہے۔۔۔۔تفصیلی فیصلہ جاری ہوتا ہے۔۔خدا ابلیس سے کہتا ہے دیکھا یہ فرق ہے ۔ اس فرق کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو دونوں نے غلطی کی، لیکن تو اپنی غلطی پر اترایا جبکہ آدم نے عجز کا راستہ اختیار کیا۔ تیرے پاس علم،عرفان،عبادت کا “ع” تھا ۔اس کے پاس ساتھ میں عشق،عقل اور عجز کا ع بھی تھا۔۔۔۔اس لیے اسکی عاجزی پر اسکی توبہ قبول کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اب جنت دوبارہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے ملے گی۔ اس مقابلے کے امتحان کا مطلب زمین پر انسانی زندگی ہے۔۔۔۔۔اترجاؤ زمین پر۔
— – ——-
(اٹھارواں سین)
آدم کو جنت کے چھن جانے سے زیادہ خدا کی مسکراہٹ واپس مل جانے کی خوشی ہے۔۔۔یہ مسکراہٹ کی بھیک توبہ کے کشکول میں ڈالی گئی ہے وہ اسی سرشاری سے زمین پر حوا کے ساتھ مقابلے کے امتحان کا آغاز کرتے ہیں یہ مقابلہ ازل تا ابد اس ابلیس سے ہے۔۔۔ شیطان الرجیم سے ہے۔۔۔۔آدم کی منزل جنت نہیں۔۔۔۔خدا کی رضا ہے۔۔۔ اسکی خوشنودی ہے۔۔۔۔۔ عادل و منصف شہنشاہ نے تفصیلی فیصلے کی آخری لائین میں پوری کائینات کو یہ لکھ کر حیران کر دیا کہ اب وہ بھی زمین پر قیام کرے گا۔۔۔ اور زمین پر اسکا قیام اپنے خلیفہ کے دل میں ہو گا۔۔۔
اب یہ آدم و آدمی کی مرضی کہ وہ دل کو خدا کا گھر بناتا ہے یا “شجرِ ممنوعہ ” کی کشش میں خدا کے لیے دل کے دروازے بند کر دیتا ہے  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply