لکشمی بلڈنگ: تاریخ کی راہداریوں میں۔۔انور اقبال

بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
یہ آیا ریڈیو پاکستان
ہے گویا خبروں کی دوکان
تو اس کے گنبد کو پہچان
کہیں مسجد کا ہو نہ گمان
کہ ہوتا ہے درسِ قرآن
کہیں گمشدگی کا اعلان
بابو ہو جانا فٹ پاتھ
یہ آئی لکشمی بلڈنگ
کبھی کی سب سے بڑی بلڈنگ
جو لالو کھیت سے بھی دیکھو
نظر آتی تھی یہی بلڈنگ
ہے جن کا اس میں اک دفتر
اب وہ رکھتے ہیں کئی بلڈنگ
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر

لکشمی دیوی بلڈنگ ،بمبئی
لکشمی بلڈنگ،کراچی،پرانی تصویر
لکشمی بلڈنگ ،کراچی،نئی تصویر
گنیش ہاتھی،لکشمی بلڈنگ ،بمبئی

ہمارے بچپن میں پاکستان میں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا تھا بلکہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے اتوار کی صبح بچوں کا پروگرام آیا کرتا تھا۔ اس پروگرام میں اکثر یہ گیت نشر ہوتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں یہ گیت بچوں اور بڑوں میں يكساں طور پر مقبول تھا۔ اس کے تخلیق کار مہدی ظہیر تھے اور اس کی دھن بھی انہوں نے ہی ترتیب دی تھی۔ یہ گیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا او ریڈیو پاکستان سے پہلی دفعہ سن 1954 میں نشر ہوا۔ اس طرح بچپن سے ہی ہمارے دل و دماغ میں لکشمی بلڈنگ کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی۔ لالو كهیت اور لکشمی بلڈنگ کا فاصلہ تقریباً دس کلو میٹر ہے۔ ایک اور اتفاق یہ تھا کے مهدی ظہیر اسی سرکاری بستی کے باسی تھے جہاں ہم رہتے تھے یعنی کہ فیڈرل کیپٹل ایریا اور ہمارے ہی محلے میں ایم اے رزاق بھی رہتے تھے جو ریڈیو کے ڈراموں میں صوتی اثرات کا بندوبست بھی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ٹرین کی آواز، رکشے کی آواز، طوفانی ہوا چلنے کی آواز وغیرہ وغیرہ۔ اس گیت میں بھی گھوڑا گاڑی کی آواز اور دیگر آوازوں کا بندوبست ایم اے رزاق نے ہی کیا تھا۔

پھر یوں ہوا ہم بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کرتے ہوئے 1982 میں برسرِ روزگار ہو گئے۔ ہمارا پہلا دفتر لکشمی بلڈنگ کے قریب ہی واقع ایک عمارت میں تھا اور ہم روز لکشمی بلڈنگ کے درشن کرتے ہوئے گزر جاتے تھے۔

لکشمی بلڈنگ پانچ منزلہ عمارت ہے۔ نہ صرف قیامِ پاکستان کے وقت بلکہ 1955 تک یہ کراچی کی سب سے بلند و بالا عمارت ہونے کا اعزاز رکھتی تھی لیکن 1955 میں جب “قمر ہاؤس” کا افتتاح ہوا تو لکشمی بلڈنگ نے کراچی کی سب سے بلند عمارت ہونے کا اپنا یہ اعزاز کھو دیا، کیونکہ “قمر ہاؤس” کی عمارت “لکشمی بلڈنگ” سے بھی بلند تھی۔

نامور مورخ عثمان دموئی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں “لکشمی بلڈنگ” کے بارے میں لکھتے ہیں کہ؛

“اس عمارت کی آرکیٹیکٹ کمپنی میسرز ڈی۔ایچ دارو والا اینڈ کمپنی کراچی تھی جبکہ کنٹریکٹر ہندوستان کنسٹرکشن کمپنی تھی”
قیام پاکستان سے قبل یہ کراچی کی سب سے بلند عمارت ہوا کرتی تھی، جو بندر روڈ پر عین تجارتی علاقے میں واقع ہے۔ اس عمارت کے اوپر پہلے لکشمی دیوی جو ہندو دھرم کے مطابق دولت کی دیوی ہے کی مورتی نصب تھی اور اس کے ساتھ ہی عمارت کی پیشانی پر جلی حروف میں انگریزی زبان میں لفظ لکشمی تحریر تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد نہ صرف لکشمی دیوی کی وہ مورتی ہٹا دی گئی بلکہ لفظ لکشمی بھی مٹا دیا گیا۔ لکشمی کے وہ حروف جس فولادی فریم پر لگائے گئے تھے اُس فریم کا ڈھانچہ ابھی تک عمارت پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر خصوصی طور پر جےپور سے منگوایا گیا تھا۔ اُس زمانے میں نجی شعبے میں یہ کراچی کی وہ پہلی عمارت تھی جس میں آئرن لِفٹ کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اس عمارت کا ڈیزائن شکاگو اور نیویارک کی بلند و بالا عمارتوں کے طرز پر بنایا گیا تھا۔ جبکہ اندرونی تزئین و آرائش ڈیکو آرٹ کے اصولوں کے تحت کی گئی تھی۔اس عمارت پر ایک گھڑیال بھی نصب ہے جو کہ اب ناکارہ ہو کر حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ اس عمارت کو تعمیر کرنے والی کمپنی ہندوستان کنسٹرکشن کمپنی لمیٹڈ موجودہ ہندوستان کی سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی ہے اور اس کی نیٹ ورتھ کئی ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

لکشمی بلڈنگ کراچی کا افتتاح 24 دسمبر 1938ء کو برصغیر کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیت مسز سروجنی نائیڈو نے کیا تھا۔ آپ کو بُلبل ہند بھی کہا جاتا تھا۔
سروجنی نائیڈو برطانوی ہندوستان کی اُن چند خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا تھا۔ آپ آل انڈیا کانگریس کی پہلی خاتون صدر بھی رہ چکی تھیں۔ سیاست کے علاوہ آپ کو علم و ادب اور شاعری سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ آپ کی مشہورِ زمانہ کتاب
Muhammad Ali jinaah The Ambassador of Peace
ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے اُس وقت کی سیاست میں محمد علی جناح کا لقب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کی حیثیت سے مشہور ہو گیا تھا۔ آپ ہندوستان کی سیاست میں ہندو مسلم اتحاد کو ضروری خیال کرتی تھیں۔ اسی لیے آپ نے عملی طور پر ہندو مسلم اتحاد کو اپنی سیاست کا اہم جزو بنایا تھا۔ لیکن وائے افسوس 1947 میں قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی سروجنی نائیڈو کے نام کی وہ تختی جو لکشمی بلڈنگ کراچی میں نصب تھی اکھاڑ پھینکی گئی اور فسادات کے دوران اس عمارت کے اندر کچھ ہندوؤں کو قتل بھی کر دیا گیا تھا۔

اتفاق سے ہمیں اُس دن کے سندھ کے اخبار “دی گزٹ” کا ایک تراشہ ملا جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ شہر کی بلند ترین عمارت ہے اور اس میں اوپر کی منزلوں تک رسائی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی شاہکار آئرن لِفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔ مزید براں کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب سنتھیانام کی طرف سے کراچی کے شہریوں کو یہ مژده بھی سنایا جا رہا ہے کہ کمپنی کی اس نئی برانچ کے افتتاح سے مقامی شہریوں کو روزگار کے نئے اور بہتر مواقع میئسر آئیں گے۔

لکشمی انشورنس کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب سنتھیانام اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ پنڈت سنتھیانام 1885 میں تامل ناڈو میں ایک راسخ العقیدہ برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کم عمری میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔ اس لیے آپ کی تعلیم و تربیت کا بیڑا آپ کے بڑے بھائی نے اٹھایا جو وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے سن 1906 میں آپ کو انگلستان بھیج دیا گیا۔ وہاں پر آپ نے کنگز کالج، کیمبرج سے کامیابی کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر مکمل کیا اور ہندوستان واپسی کی راہ لی۔ ہندوستان واپسی کے بعد آپ کی زندگی میں اُس لمحے ایک ایسا موڑ آیا جب آپ کو خاندان کی طرف سے یہ مژده سنایا گیا کہ سمندر کے اوپر سے گزرنے کی وجہ سے آپ کا مذہب ختم ہو گیا ہے اور یوں سنتھیانام کے اہل خانہ نے ان سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لیے۔ یہاں تک کہ جس بھائی نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا تھا وہ بھی آپ سے لاتعلق ہونے پر مجبور ہو گیا۔ خاندان کی طرف سے قطع تعلق کے بعد آپ کی زندگی اب پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ سماج میں سب کچھ تنہا اپنے بل بوتے پر کرنا تھا۔ اُس زمانے میں کسی بھی تنہا فرد کے لیے سماج میں کوئی مقام بنانا انتہائی کٹھن اور دشوار تھا۔ لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری۔ ثابت قدمی، محنت اور لگن سے آپ نے اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا۔

حسنِ اتفاق سے انگلستان میں ہی آپ کی ملاقات لالہ لجپت رائے سے ہو چکی تھی اور اس ملاقات میں وہ آپ کو باضابطہ طور پر لاہور آنے کی دعوت بھی دے چکے تھے۔ یوں آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز لالہ لجپت رائے کی سرپرستی میں کیا۔ کچھ ہی برسوں میں آپ ایک کامیاب وکیل بننے کے ساتھ ساتھ رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہو گئے۔ آپ کی زندگی کا یہ سفر آہستگی سے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ اس دوران ایک افسوسناک سانحہ رونما ہوا۔ یہ 1919 کا سال تھا، پنجاب میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے ہولناک سانحے نے برطانوی ہند کے طول وعرض میں ایک بھونچال برپا کر دیا تھا۔ جنرل ڈائر کی بربریت کے خلاف مقامی ہندوستانیوں کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ کرفیو کے باوجود لوگ گھروں سے باہر نکل کر جنرل ڈائر کے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ جیسے ہی مظاہرین کے خلاف انگریز سرکار کی طرف سے مقدمہ عدالت میں پیش کیا گیا تو اُسی لمحے سنتھیانام نے جلیانوالہ باغ کے متاثرین/ مظاہرین کی طرف سے اس مقدمے کو لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

کانگریس کی جماعت جلیانوالہ باغ کے سانحے کے سلسلے میں حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں تھی۔ اس لیے کانگریس نے سانحے کی تحقیقات کرنے کے لیے شملہ میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں انہوں نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جس کے نتیجے میں جنرل ڈائر کو برطرف کر دیا گیا۔ دوسری جانب سنتھیانام اس دوران حکومت کے خلاف مختلف تحریکوں اور مظاہروں میں حصہ لیتے رہے جس کے نتیجے میں اُن کو کئی بار جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔

سن 1920 میں سانتھیانام نے مہاتما گاندھی کی “سِوِل نافرمانی تحریک” کے دوران اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح وکالت کا پیشہ چھوڑ دیا۔ اس بےروزگاری کے عالم میں لالہ لجپت رائے دوبارہ ان کی مدد کو آئے اور انہوں نے ایک خالص سودیشی انشورنس کمپنی قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس طرح لکشمی انشورنس کمپنی وجود میں آئی تو لالہ لجپت رائے نے اس کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر آپ کو ہی بنایا۔ اس انشورنس کمپنی کی بدولت آپ کو پورے برصغیر کے تجارتی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔

لکشمی انشورنس کمپنی (ایل آئی سی) کے دفاتر ہندوستان کے ساتھ ساتھ مشرقی افریقہ میں بھی قائم ہوئے۔ اس کمپنی نے لاہور، کراچی اور بمبئی سمیت کئی شہروں میں بڑی بڑی سرکاری اور رہائشی عمارتیں تعمیر کیں۔ ابھی اس کمپنی کا سفر جاری تھا کہ تقسیمِ ہند کا تاریک دن نمودار ہوا۔ برطانوی سرپرستی میں کانگریس و مسلم لیگ کی سیاست اس خطے کو متحد کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی اور ملک تقسیم ہو گیا۔ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور بڑے پیمانے پر لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ یہ سنگین حالات پنڈت سنتھیانام کے لیے تکلیف دہ تھے، انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ہندوستان یوں تقسیم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ پنجاب بھی دو ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

اُن دنوں آپ دمہ کے مرض میں مبتلا تھے، اس لیے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق آپ اپنے خاندان کے ہمراہ علاج کی غرض سے کشمیر میں رہ رہے تھے۔ پنجاب کا شہر لاہور جہاں پر آپ کئی برسوں سے مستقل طور پر سکونت اختیار کر چکے تھے اب وہاں پر واپس جانے کے راستے مسدود ہو چکے تھے، مجبوراً آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی لاہور کے بجائے دہلی جانا پڑا۔ واضح رہے کہ تقسیم کے فوراً بعد ہی لکشمی انشورنس کمپنی کا صدر دفتر لاہور سے دہلی منتقل ہو گیا تھا لیکن سنتھیانام نے کمپنی کو دوبارہ جوائن نہیں کیا۔ دہلی میں آپ “وزارت امداد و بحالی” کی مشاورتی کمیٹی کے رکن بن گئے اور آپ نے مکمل طور پر اپنے آپ کو اُن متاثرین کے لیے وقف کر دیا جو تقسیم کی وجہ سے بےپناہ مصائب کا شکار تھے۔ یہ متاثرین دوردراز کے علاقوں سے اپنے آبائی گھروں سے بےگھر ہو کر اب ریلیف کیمپوں میں سکونت پذیر تھے۔ تقسیم کے جان لیوا صدمے سے آپ پھر کبھی باہر نہ نکل سکے اور محض 64 برس کی عمر میں سن 1949 میں دہلی میں آپ کا انتقال ہو گیا۔

لکشمی انشورنس کمپنی لالہ لجپت رائے اور موتی لال نہرو نے مل کر لاہور میں 1924 میں قائم کی تھی۔ اس لیے اس کمپنی کا صدر دفتر لاہور میں ہی واقع تھا۔ 1924 سے لے کر 1930 تک کمپنی کا دفتر لاہور میں کس مقام پر تھا، باوجود کافی تحقیق کے یہ ہم ڈھونڈ نہ پائے۔ البتہ 1930 میں کمپنی نے مال روڈ پر واقع شادی لال کی حویلی خرید لی جو لاہور ہائیکورٹ کے پہلے ہندوستانی چیف جسٹس تھے۔ لالہ لجپت رائے نے اس حویلی میں نہ صرف اپنا صدر دفتر قائم کیا بلکہ اس میں دوسرے تجارتی دفاتر اور رہائشی فلیٹس بھی بنائے۔ کمپنی نے اس عمارت پر بھی لکشمی انشورنش کی مناسبت سے “لکشمی دیوی” کی مورتی نصب کی تھی۔ جس کا حشر 1947 میں وہی ہوا جو کراچی کی لکشمی دیوی کی مورتی کا ہوا تھا۔ ہندو دھرم میں لکشمی دیوی کے ساتھ گنیش (ہاتھی) دیوتا کا بھی ذکر آتا ہے۔ لکشمی مینشن کے صدر دروازے کے اوپر پیشانی پر دونوں طرف ہاتھی کی مورتیاں آج بھی موجود ہیں۔ لاہور کی اس مشہور عمارت کے سامنے واقع چوک کو بھی “لکشمی چوک” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لالہ لجپت رائے ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ایک نمایاں کردار ہیں۔ آپ ہندوستان کے مشہور و معروف انقلابی لیڈر اور تحریکِ آزادی کے مجاہد تھے، اس کے ساتھ ساتھ ادیب و مورخ بھی تھے۔ تیس اکتوبر سن 1928 کو برٹش سامراجی حکومت کے خلاف لاہور میں ہونے والا ایک مظاہرہ جو سائمن کمیشن کی آمد اور اسے قائم کرنے کے خلاف کیا جا رہا تھا۔ بدقسمتی سے اس مظاہرے کی قیادت کے دوران ہونے والے لاٹھی چارج میں آپ بری طرح سے زخمی ہو گئے اور 17 نومبر 1928 کو زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گئے تھے۔ لالہ لجپت رائے کے والد اردو اور فارسی کے استاد تھے۔ لالہ لجپت رائے کا ایک اہم کارنامہ لاہور میں ٹی بی کے علاج کے لیے پہلا ہسپتال بھی قائم کرنا ہے جس کو انہوں نے اپنی والدہ گلاب دیوی کے نام پر بنایا تھا۔

لکشمی انشورنس کمپنی کا قیام موتی لال نہرو اور لالہ لاجپت رائے نے ایک ایسے وقت میں کیا جب برطانوی کمپنیوں کے ذریعہ مقامی ہندوستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں انشورنس کے کاروبار پر مکمل طور پر انگریزوں کا ہی قبضہ تھا۔ ہندوستانی انشورنس کمپنیاں قوم پرست اصولوں پر کاربند تھیں جو پالیسی ہولڈرز کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش میں سرگرداں رہتی تھیں اور محض سرمایہ اکھٹا کرنے کو ہی فوقیت نہیں دیتی تھیں۔

لکشمی مینشن اور لکشمی چوک لاہور کی معاشرتی و معاشی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ کراچی کی لکشمی بلڈنگ تو صرف دفتری سرگرمیوں کے لیے مخصوص ہے جبکہ لاہور کے لکشمی مینشن میں رہائشی فلیٹس بھی واقع ہیں اور مختلف ادوار میں ان فلیٹوں میں کئی مشہور لوگ رہ چکے ہیں جن میں سے ایک اہم نام اردو کے نامور ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا بھی ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ اسی عمارت کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ منٹو کے علاوہ سابق نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد اور مشہور دانشور عائشہ جلال کے والد بھی یہیں پر رہتے تھے۔

ہندوستان کے مشہور سیاستدان جناب مانی شنکر کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے لاہور کے “لکشمی مینشن” کے بارے میں بات کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا تھا کہ
“تقسیمِ ہند سے قبل میرے والد کافی عرصے تک لکشمی بلڈنگ کے کرایہ دار رہے”

مانی شنکر آیر کے والد وی شنکر آیر پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور 1947 میں اُن کی فرم “وی شنکر آیر اینڈ کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس” کا دفتر بھی لکشمی مینشن لاہور میں ہی واقع تھا۔ یاد رہے کہ ‘مانی شنکر آیر’ لاہور ہی میں پیدا ہوئے تھے لیکن پھر تقسیم کی وجہ سے ان کو بھی اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور سے ہجرت کرنی پڑی تھی۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد ملک کی پہلی حکمراں جماعت مسلم لیگ کا دفتر بھی لکشمی مینشن میں ہی قائم کیا گیا۔ اس طرح یہ مقام پاکستان کے ابتدائی دنوں کی سیاسی سرگرمیوں کا اہم مرکز بھی رہا۔
لکشمی انشورنس کمپنی لاہور نے کراچی سے پہلے اپنی ایک برانچ بمبئی میں بھی قائم کی تھی۔ اس عمارت کا نام بھی لکشمی بلڈنگ تھا اور اس کا ڈیزائن ماسٹر سیٹھ اینڈ بوٹا نے بنایا تھا۔ بمبئی اور کراچی کی لکشمی بلڈنگ میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر عمارت کے اوپر کلاک ٹاور اور اس کے اوپر نصب کی گئی لکشمی دیوی کی مورتی۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ کراچی کی لکشمی بلڈنگ سے مورتی ہٹا دی گئی ہے جبکہ بمبئی کی لکشمی بلڈنگ پر لکشمی دیوی کی مورتی نہ صرف آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمارت کے دونوں کناروں پر گنیش(ہاتھی) دیوتا کی مورتیاں بھی موجود ہیں۔

بمبئی میں واقع اس عمارت کا افتتاح سبھاش چندر بوس نے 25 فروری 1938ء کو باقاعدہ طور پر ایک بڑے اجتماع کی موجودگی میں کیا تھا۔ اُس وقت آپ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر تھے۔ اس اجتماع میں بنیادی طور پر مالی معاونین، تاجران اور سیاست دانوں نے بھی شرکت کی تھی۔ افتتاحی تقریب میں مسٹر بوس کی عمارت کی آٹو گراف والی تصویر آرکیٹیکٹس ماسٹر سیٹھ اینڈ بوٹا کو پیش کی گئی تھی۔

سبھاش چندر بوس تحریکِ آزادی کے مجاہدین میں سے ایک ہیں۔ آپ 23 جنوری 1897 میں مغربی بنگال میں اُڑیسہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ 1921 میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس جوائن کی اور 1938 میں کانگرس کی جماعت کے صدر بن گئے۔ بعدازاں ان کے گاندھی جی سے اختلافات پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے انہوں نے کانگریس کی صدارت چھوڑ دی اور اس جماعت سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ اصل میں سبھاش چندر بوس کا خیال تھا کہ ہندوستان کو صرف مسلح جدوجہد سے ہی آزاد کروایا جا سکتا ہے جبکہ گاندھی جی عدم تشدد کے پیروکار تھے۔

1940 میں چندر بوس کو برطانوی حکومت کے خلاف ایک مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور پھر ان کو انہیں کے گھر پر نظربند کر دیا گیا۔ لیکن بوس ڈرامائی انداز میں جنوری 1941 میں اپنے ہی گھر سے فرار ہو کر افغانستان کے راستے نازی جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی پہنچ کر انہوں نے جرمن حکومت کی مدد سے آزاد ہند سینٹر اور آزاد ہند ریڈیو اسٹیشن قائم کیا، اس کے ساتھ ہی تین ہزار سپاہیوں پر مشتمل آزاد ہند فوج کی داغ بیل بھی ڈال دی۔ اس میں وہ ہندوستانی سپاہی شامل تھے جو برطانوی فوج کا حصہ تھے اور جرمنی میں جنگی قیدی کی حیثیت سے اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔

سبھاش چندر بوس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ روس اور افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کر کے اُس کو برطانوی تسلط سے آزاد کروا لیں گے، بدقسمتی سے 1942 میں جرمنی، روس پر بھی حملہ آور ہو گیا اس طرح بوس کا یہ منصوبہ ناقابلِ عمل ہو گیا۔ اس نئی پیچیده صورتحال میں بوس نے ایک متبادل منصوبہ تشکیل دیا جس کے مطابق وہ ہندوستان پر برما کی طرف سے یلغار کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہٹلر سے ملاقات کی اور ہٹلر نے اُن کے منصوبے سے اتفاق کرتے ہوئے اُن کو انڈونیشیا میں واقع سماٹرا کے جزیرے پر پہنچا دیا۔ وہاں سے بوس جزائر انڈیمان پہنچے جو ہندوستانی علاقے میں تھا اور اُس زمانے میں جاپان کے قبضے میں تھا۔ وہاں پر انہوں نے آزاد ہند کی جلاوطن حکومت کے قیام کا باضابطہ طور پر اعلان کر دیا۔ اس دوران انڈین نیشنل آرمی کو بھی منظم کیا جو برطانوی فوج کے اُن ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل تھی جن کو جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضے کے دوران جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ بدقسمتی سے جاپانی یہ جنگ ہار گئے اور سبھاش چندر بوس نے بذریعہ ہوائی جہاز روس جانے کی کوشش کی لیکن تائیوان کے قریب اُن کا طیارہ حادثاتی طور پر گر گیا یا گرا لیا گیا۔۔۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کے طیارے کے ساتھ کس قسم کا حادثہ پیش آیا تھا۔ اس حادثے کے سبب اُن کی لاش اور جسم کے باقیات آج تک نہ مل سکے۔
1947 میں لکشمی انشورنس کمپنی انڈیا کی گیارہ بڑی کمپنیوں میں سے ایک تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سن 1956 میں جب ہندوستان میں انشورنس کا کاروبار قومیا لیا گیا تو اُس وقت بھی “لکشمی انشورنس کمپنی” کا شمار انڈیا کی سات بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ ان سب کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لینے کے بعد کمپنی کا نام “لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا” رکھا گیا، جس کو “ایل آئی سی” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ 1956 میں قومیائے جانے سے پہلے “لکشمی انشورنس کمپنی” کو بھی “ایل آئی سی” ہی کہا جاتا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply