قسط ۳۔ عین جالوت: سلطان قطز۔۔۔ محمد اشتیاق

گزشتہ قسط یہاں پڑھیے۔

نوٹ: سلطان مصر الملک المظفر سیف الدین قطز غلامان مصر میں سے تھا۔اس نے تقریبا ایک سال مصر میں حکومت کی لیکن منگولوںکے طوفان آگےبند باندھ کر ہمیشہ کے لیے تاریخ میں اپنا نام رقم کر لیا۔ روایت کے مطابقشام کے بازار میں بکنے کے لیےسلطنت خوارزم سے لایا گیا، وہاں سے مصرکے بازار میں فروخت ہوا اور ترقی کرتا ہوں تخت مصر پہ متمکن ہوا۔ اس کےزیرقیادت عین جالوت پہ منگولوں کو جو شکست دی گئی، اس کے بعد منگولاس خطے پہ ایک قدم آگے نہ بڑھا سکے۔ عین جالوت کیجنگی اہمیت تاریخیاعتبار سے بہت زیادہ ہے۔ اس علاقے میں پہلی بڑی مزاحمت اور غیر متوقعشکست، اور پھر منگول قیادتکے مسائل نے ایشیا کے اس حصے اور افریقہ کومنگولوں کے حملوں سے محفوظ رکھا۔

1260 عیسوی , 658 ہجری، صفر کے مہینے میں منگول فوج شام کے دارا لحکومت دمشق میں داخل ہوئی۔ سقوط بغداد کے بعد یہ ایکاور بڑا جھٹکا تھا جو ملت اسلامیہ کو لگا۔ ملک شام جو عظمت اسلام کی نشانی اور صلاح الدین ایوبی کے وارثوں کا فخر تھا، منگولگھوڑوں کی سموں کے نیچے تھا، وحشت شام کی گلیوں میں ناچ رہی تھی۔ ایوبی تخت کا آخری وارث سلطان الناصر صحیح وقت پرصحیح فیصلہ نہ کر پایا۔ اس کے رفقا جنہوں نے منگولوں کے ساتھ صلح کا مشورہ دیا تھا اب وہ ان سے رحم کی امید رکھتے تھے۔ وہبھول گئے تھے کہ چند دن پہلے ہی حلب میں منگولوں نے قلعہ حوالے کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ توران شاہ بنصلاح الدین نے بھی رکن الدین بیبرس کی طرح اپنی فوج کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ منگولوں سے لڑکے عزت کی موت،ان کے سامنے سرجھکا کے ذلت کی موت سے بہتر ہے لیکن خوف کا شکارامراء لڑنے کو تیار نہ ہوئے۔ آدھا حلب تہہ تیغ ہوا لیکناہل دمشق نے اس سے بھی سبق نہ سیکھا اور اہل حلب کی طرح منگولوں سے صلح کو ترجیح دی۔

رکن الدین بیبرس اور قالون مایوس ہو کر اپنے ہمراہوں سمیت دمشق چھوڑ کے غزہ کی جانب روانہ ہو گئے۔

جیسے جیسے منگول دمشق کے قریب آئے، سلطان ناصر پہ خوف کے سائے گہرے ہونے لگے، اپنے قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوںکے جانے کے بعد وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرنے لگا تھا۔ تلوار نہ اٹھانے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا۔ جنہوں نے اس کے ساتھعیسائیوں کو شکست دی تھی، جو اس کے حکم پہ سلطان مصر پہ چڑھائی کرنے کو تیار بیٹھے تھے، وہ جنگجو بھلا تلوار منگولوں کےحوالے کرنے پر کیسے تیار ہو جاتے۔ بغیر لڑے وہ شکست کیسے تسلیم کرلیتے جن کی سرشت میں لڑنا تھا۔ اس کو احساس تھا کہ جواس کے ساتھ ہیں وہ بھی اس کے فیصلے سے خوش نہیں۔ اس کی بزدلی نے اس کی فوج کو منتشر کر دیا تھا۔ سلطان کو منگولوں پراعتماد نہیں تھا لیکن وہ ان سے ٹکرانا بھی بے وقوفی سمجھتا تھا۔ ذلت کے خوف نے اسے منگولوں کے سامنے پیش ہونے سےروک دیا اور وہ شہر میں ان کے داخل ہونے سے پہلے اپنے فوج اور امرا کے ساتھ دمشق چھوڑ گیا۔


منگولوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی فصیل شہرکا انہدام شروع کر دیا۔ گلیوں میں شراب کا چھڑکاو شروع ہو گیا۔ مسجدوں کی بےحرمتی ہونے لگی۔ شراب لے کے منگول فوجی مسجدوں میں گھس گئے۔ نصاری کی جماعتیں جو ہلاکو کی اشیرباد حاصل کر چکی تھیں،مسجدوں میں ناقوس بجانے لگیں۔ مسجدوں میں صلیب کی تنصیب کر دی گئی۔ جانوں کا ضیاع، اور عزتوں کی پامالی منگولسپاہیوں کی فتح کا انعام ہوتا تھا جس کو وہ اہل دمشق سے وصول کر رہے تھے۔

بوڑھا منگول سالار کتبغا نوین گھوڑے پہ سوار شہر میں داخل ہوا۔ اس کے ہمراہ شاہ آرمینیا ہیٹن اور انطاکیہ کا صلیبی بادشاہ بوہیمندتھے۔  شہر کے معززین اور وہ امرا جو سلطان ناصر کے ساتھ جانے کی بجائے شہر میں رک گئے تھے، ایک قطار میں کھڑے تھے۔کتبغا ایک بارعب شخصیت کا مالک تھا۔ اپنی عمرکے حساب سے وہ کافی صحت مند اور پھرتیلا تھا۔ اس کی لمبی سفید داڑھی ہوا میںاڑ رہی تھی جس کو وہ کبھی کبھی کانوں پر اڑستا تھا۔ مضبوط جسم اس کی جنگجوانہ زندگی کی  نشاندہی کر رہا تھا۔

وہ شامی امراء کو ساتھ لیے دمشق کے بازار میں وارد ہوا۔ دمشق کا بازار اجڑا پڑا تھا۔ جا بجا سامان بکھرا تھا۔ اکا دکا جگہوں پرڈھیریوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کتبغا کی آمد سے پہلے دوکانوں کو لوٹنے والے منگول سپاہی اب کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ کتبغابازار کے مرکز میں ٹھہر گیا۔ امراء ایک طرف قطار میں کھڑے ہو گئے۔

ناصر کدھر ہے؟

وہ شہر چھوڑ کر چلے گئےایک امیر نے جواب دیا۔

کہاں گیا؟کتبغا نے اس امیر کو گھورا۔

معلوم نہیں، سردار تیز نظروں سے گھبرا گیا تھا۔

تم اس کے امیر ہو اور تمہیں خبر نہیں؟ بے خبر لوگ میرے کسی کام کے نہیں، کتبغا کڑکا۔

ان کا رخ مصر کی طرف تھا، سردار گڑبڑایا۔

تو کیا وہ مصر کے سلطان کے پاس جا رہا ہے؟

نہیں، وہاں کا قصد نہیں، ایک اور سردار نے ہمت کی۔

اسے یہاں ہونا چاہیے تھا، کیا وہ فوج اکٹھی کرنے گیا ہے؟، کتبغا نے سب سے سوال کیا۔

سر جھکائے، سب امراء خاموش تھے۔

اسے سلطان مصر کے پاس بھی پناہ نہیں ملے گی۔ سلطان مصر کے دن بھی گنے جا چکے ہیں۔، کتبغا نے اپنے خادم کو اشارہ کیااور ایک کھلی دوکان میں گھس گیا۔ دوکان بالکل خالی تھی۔ شائد قیمتی سامان پر مشتمل تھی تبھی اچکوں نے اس کا مکمل صفایا کر دیاتھا۔ کتبغا نے اپنی عبا اٹھا کے ازار بند کھولتے ہوئے پوچھا۔

سلطان کے ساتھ کتنے سپاہی تھے؟

چند سو سوار ہی ہوں گےکتبغا کی حرکت پہ حیران پریشان ایک امیر بولا۔

اور پیادہ؟، وہ آزار بند کھول کے کپڑوں سے آزاد ہوتا وہیں بیٹھ گیا۔

امراء کراہت اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔

میں نے کچھ پوچھا تم سے؟۔۔ حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے کتبغا نے دوبارہ پوچھا۔

کوئی نہیں، چند خدام بس، ایک امیر نے سر جھکائے جواب دیا۔

باقی کی فوج کہاں ہے؟

امیر بیبرس کے ساتھ روانہ ہوئی

ان کی منزل؟

نامعلوم

سب چلے گئے تم کم علموں کو میرے لیے چھوڑ گئے، تم میرے کسی کام کے نہیں ہو۔

اس کا رخ بھی مصر کی طرف تھا مگر وہ بھی سلطان مصر کے پاس نہیں جائے گا

کیوں؟کتبغا اٹھا، خادم نے صفائی کے فرائض سرانجام دئیے۔

سلطان مصر، امیر بیبرس سے نفرت کرتا ہے اور امیر بھی اس کو پسند نہیں کرتا

ہممممممکتبغا گھوڑے پہ سوار ہوا۔

اب تم لوگ جا سکتے ہو۔ میرا نائب تم لوگوں کے بارے فیصلہ سنا دے گا

نائب امراء کو جانے کا اشارہ کرتا ہے اور کتبغا کے قریب اپنا گھوڑا لے جاتا ہے۔

ان کا کیا کرنا ہے؟نائب نے سوال کیا۔

ان میں سے چند کے سر فصیل پہ نصب کرا دو اور خان کو پیغام بھیجو۔ سلطان کی بکھری فوج مصر میں اکٹھی ہو گی۔ مصر پر حملہناگزیر ہے اور جلد سے جلد ہمیں یہ قدم اٹھانا ہو گا۔

کتبغا نے نائب کو حکم دیا۔

چند دستے ان امراء کے بتائے راستے پہ ناصر کے تعاقب میں روانہ کرو۔ اسے مصر نہیں پہنچنا چاہیے

مگر وہ تو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں پھر انہیں کون اکٹھا کرے گا؟

موت کا خوف۔۔ کتبغا ہنسا۔

اس رات دمشق کی فصیل پہ چند امراء کے سر لٹک رہے تھے جنہوں نے لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا تھا۔ باقیوںکے کب اور کہاں لٹکیں گے اس کا فیصلہ ہونا باقی تھا۔


سلطان ! منگول خان، ہلاکو خان کا ایلچی حاضری کی اجازت چاہتا ہے، خادم نے سلطان قطز کو اطلاع دی۔

بھیجو، سلطان نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

منگول دمشق تک نہیں رکیں گے۔ یہ ایلچی اتمام حجت ہے، امیر بدرالدین بکتوت نے رائے کا اظہار کیا۔

یہ تو طے ہے کہ یہ طوفان رکنے والا نہیں، اسے روکنا پڑے گا، سلطان نے مضبوط ارادے کا اظہار کیا۔

ابھی تک کوئی اس طوفان کے آگے بند نہیں باندھ پایا سلطان، امیر بہادر المعیزی بولا۔

منگول وفد دربار میں داخل ہوتا ہے، روایتی منگول فوجی لباس میں ملبوس منگول سفیر دربار میں موجود امراء پہ نظر دوڑاتے ہوئےاپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سلطان پہ مرکوز کرتا ہے۔

سلطان! میں تمہارے لیے خانوں کے خان، فاتح بغداد و دمشق ہلاکو خان کا پیغام لایا ہوں، سفیر گویا ہوا۔

سلطان اس پہ نظریں گاڑے دیکھ رہا ہے، سفارت کار کا کروفر سفارتی آداب سے میل نہیں کھاتا۔

پیغام یہ ہے، سفیر احکام جاری کرنے کے انداز میں کہتا ہے، سلطان سپاٹ چہرے سے اس کو بغور دیکھ رہا ہے۔

مشرق اور مغرب کے خانوں کے خان کی طرف سے۔۔

مملوک قطز کے نام، جو ہماری تلوار سے بچا ہوا ہے۔۔

تمہیں چاہیے کہ تم ان سے عبرت حاصل کرو جن ممالک کو ہم نے تباہ کردیا اور گھٹنے ٹیک دو۔ تمہیں پتہ ہو گا کہ ہم نے بہت بڑیزمین پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں اور اس کو پاک کر دیا ہے۔ ہم نے اپنے مقبوضہ علاقے میں اکثریت کو تہ تیغ کر دیا ہے۔ تمہمارے قہر سے نہیں بچ سکتے۔ بچ کر جاؤ گے بھی کہاں؟ کس راستے سے بھاگو گے؟ ہمارے گھوڑے سبک رفتار، تیر تیز دھار،تلواریں جیسے چمکتی ہوئی بجلی، ہمارے دل پتھروں کی طرح سخت، اور لشکر لا تعداد ہیں۔ قلعے تمہیں نہیں بچا سکتے، فوج تمہیں محفوظنہیں رکھ پائے گی۔  تمہاری دعائیں بھی تمہیں محفوظ نہیں رکھ سکتیں۔ اور نہ ہی ہم تمہاری چیخ و پکار کی پرواہ کریں گے۔ صرف انکی جان بچے گی، جو ہم سے پناہ مانگیں گے۔ جلد سے جلد ہمیں اپنے جواب سے آگاہ کرو۔ مزاحمت کرو گے تو تباہی تمہار مقدر ہو گی،ہم تمہاری مسجدیں گرا دیں گے تو تمہیں پتہ لگے گا کہ تمہارا خدا کتنا بے وقعت ہے۔ ہم تمہیں اس کا ثبوت تمہارے بچوں اوربزرگوں کی گردنیں اڑا کر دیں گے۔

تم اس وقت دنیا میں واحد آدمی ہو جس کی طرف ہماری فوج پیش قدمی کرے گی۔

ہلاکو خان

امراء ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔ منگول سفیر استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ سب کودیکھ رہا تھا۔ سلطان سپاٹ چہرے کے ساتھ سوچ میں گم تھا جیسے دماغ کے پیمانے پہ وزن کر رہا ہو۔

سلطان کا ہاتھ بلند ہوا، سب خاموش ہوگئے۔

قطز کیا کہتے ہو؟، سلطان کے بولنے سے پہلے سفیر نے بدتمیزی سے سوال داغ دیا۔

سلطان نے اس پہ نظر ڈالی اور بولا۔۔

تمہارے خان کے الفاظ خوفزدہ کر دینے والے اور سچے ہیں۔ تم نے آدھی دنیا کو اپنے گھوڑوں تلے روند دیا ہے، قلعے منہدم کردیئے، لوگوں کو تہ تیغ کردیا۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ناصرجیسے بہادر کو کیسے خوف دلایا تم نے۔ مگر ان کامیابیوں نے تمہاری زبانیںمزید دراز کر دی ہیں۔ تم ہمیں موت کا خوف دلاتے ہو، اپنی تلواروں سے ڈراتے ہو۔ جان لو کہ ہمارے نزدیک تمہاری حیثیتدوزخ کے کتوں سی ہے، جو امت مسلمہ کو جگانے کے لیے آسمان سے اتارے گئے ہیں۔ یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے جو ہم اپناخون دے کے بھگت رہے ہیں۔ مالک کی یہ مرضی ہے تو ہم اپناخون بہانے سے دریغ نہیں کریں گے۔

تمہارے خان جیسے بہت آئے اس دنیا میں جن کے نزدیک خدا ایک بے وقعت شے تھی لیکن ان کی حیثیت خدا کے نزدیک ہوامیں اڑنے والے ایک مچھر سے زیادہ نہیں۔ خدا خود زمین پر نہیں اترتا کسی کو اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لیے۔ لیکن خدا کااحساس ایک چیخ کی مانند تمہارے خان کے کانوں میں گونجے گا، یہ ہمارا وعدہ ہے۔ یہ قطز کا وعدہ ہے۔ یہ مصر کا وعدہ ہے۔

سلطان کی آواز میں گرج تھی، غصے سے کپکپاہٹ تھی۔ دربارمیں ایسی خاموشی تھی کہ سانسوں کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔

سفیر نے حیرانگی سے قطز کو دیکھا اور بولا۔

سوچ لو قطز، تمہاری اور مصر کی تباہی ۔۔۔

خاموش، سلطان قطز دھاڑا۔

تم ہمیں تباہی سے ڈراتے ہو؟ دولت کھو دینا، اقتدار کی قربانی دینا، زمین کا قبضہ کھو دینا، مر جانا ہمارے نزدیک تباہی نہیں ہے۔اپنے خدا کے حکم سے روگردانی کر کے کسی انسان کے آگے سر جھکا دینا ۔۔ یہ تباہی ہے۔

یہ جان اللہ کی دی ہوئی ہے وہ واپس لے لے گا۔ ،یہ جسم ہمیشہ نہیں رہنا خاک میں مل جائے گا۔ ہمارے لیے ذلت کی زندگی جیناتباہی ہے، خدا کے نام پہ مرنا تباہی نہیں۔ تم ہمیں موت سے ٖڈراتے ہو؟ قطز آج ہے کل نہیں ہو گا لیکن خدا نے ہمیشہ رہنا ہے۔وہ ایک غلام کو مصر کے تخت پہ بٹھا سکتا ہے تو وہ اس غلام کو یہ توفیق بھی دے گا کہ منگول مینڈھے کے سینگ پکڑ کے اس کیٹانگوں کے درمیان کر دے

ہم نے بہت مسلمانوں کو مسلا ہے۔ انہیں تمہارے خدا کے پاس بھیج دیا۔ تمہارا خدا مصروف ہے ان بچوں، عورتوں اوربوڑھوں کا استقبال کرنے میں جن کو ہم نے اپنی تلواروں اور نیزوں سے اس کے پاس بھجوا دیا ہے، سفیر نے تضحیک آمیز اندازمیں کہا۔

میرا خدا کیا ہے، یہ تم اس کے پاس جا کر دیکھو گے اور اس میں زیادہ دیر نہیں۔ افسوس کہ تم اپنے خان  کا انجام نہ دیکھ پاؤ گےسلطان نے اس پہ نظریں جماتے ہوئے کہا۔

تم مجھے مارو گے؟سفیر نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔

صرف تمہیں نہیں، تم سب کوسلطان بولا۔

لے جاؤ ان کو اور ان کے سر قاہرہ کے دروازے پہ نظر آنے چاہیے ہیں۔ ان کی زبانیں ان کے نیزوں سے زیادہ لمبی ہیں۔خوارزم شاہ نے ان کے ساتھ بالکل صحیح کیا تھا، لیکن اب کی دفعہ ان کو ہم بتائیں گے کہ خدا کیسے اپنا آپ ظاہر کرتا ہے۔ سلطاننے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلی صبح قاہرہ کے دروازے پر منگول سفیروں کے سروں سے خون ٹپک ٹپک کے ریت کو سرخ کر رہا تھا۔ منگول طوفان کا رخقاہرہ کی طرف ہونے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply