تعارف:زیرِ مطالعہ کہانی دیوان صاحب کی پہلی کتاب ”جسے رات لے اڑی ہوا“(چوتھا ایڈیشن زیر گردش) میں شامل ہے۔اسے پڑھ کر رات گئے ایک افسر عالی مقام کا فون یہ معلوم کرنے کے لیے آیا کہ مصنف کو یہ حقائق جو ہر چند ایک قصے کی صورت میں بیان ہوئے ہیں، کہاں سے دستیاب ہوئے۔ ؟کیا یہ ان کے ادارے کے کسی افسر نے بتائے۔ہمارے دیوان صاحب کا جواب تھا کہ دنیا بھر کی مرغیاں کتنی کوشش بھی کرلیں ایک ماہر شیف سے اچھا آملیٹ نہیں بناسکتیں۔ہمیں آپ شیف کا درجہ دیں اور اپنے افسروں کو مرغیاں مان لیں۔ان کی پیشکش تھی کہ دیوان صاحب سے ملاقات ہوگی ، اور آئندہ کے کچھ پروگرام بنیں گے۔ افسر عالی مقام حالات کی گردش کی وجہ سے اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ پائے اور
ع ،ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
الا حساب رہا


ادارہ ”مکالمہ“ چودہ اقساط کی اس طویل کہانی کو شائع کررہا ہے اور ممکن ہوا تو اسے ویب سیریز کی صورت میں ڈھالے گا۔کوشش جاری ہے۔
چیف ایڈیٹر :انعام رانا
نویں قسط کا آخری حصہ
خفیہ ادارے اپنے انسانی ایجنٹوں کو بڑا سنبھال کر رکھتے ہیں انہیں وہ انگیریزی کی اصطلاح میں Humint(Human Intelligence) کے نام سے پکارتے ہیں۔ جاسوسی کا یہ انداز قدیم ترین ہونے کے باوجود موثر ترین مانا جاتا ہے۔ خصوصاً ان کے سلیپر ایجنٹ تو ان کے لئے بہت کارآمد ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت اور ان کی کاروائیوں پر ان اداروں کو بہت محنت اور وسائل صرف کرنے پڑتے ہیں۔ اس سلسلے میں مشہور ترین نام برطانیہ کے کم فلبی Kim Philbyکا تھا جسے اس کی طالب علمی کے زمانے میں ہی بھرتی کرلیا گیا تھا مگر جس کا استعمال اس وقت کیا گیا جب وہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم۔آئی۔سکس کی ملازمت میں آگیا۔ ایسے ایجنٹ برطانوی اصطلاح میں moleکہلاتے ہیں جو چوہے کی نسل کا ایک جانور ہوتا ہے اور زمین کے اندر سرنگیں کھودنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔اسکی زیر زمیں کاروائی کی کوئی علامت زمین کے باہر دکھائی نہیں دیتی۔
دسویں قسط کا آغاز
ابراراحمد کے اکاؤنٹنٹ کی طرح فلبی بھی ایک مول تھا جو برسوں برطانوی اسٹبلشمنٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا اورانکے قیمتی راز روس کے حوالے کرتا رہا۔اس کے روس فرار کی داستان بھی اکاؤنٹنٹ صاحب کی طرح عجیب ہے،ایک امریکی صحافی خاتون ایلینر برور سے اس نے شادی کرلی اور بیروت میں برطانوی سفارت خانے میں اہم عہدے پر فائز رہا۔ ایک شام
کسی سفارت خانے میں پارٹی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بھی اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں پوری کرنے وہاں پہنچ جائے ،وہ دفتر سے سیدھا پارٹی میں پہنچے گا اور شام وہ کہیں باہر کھانا کھائیں گے۔ وہ بے چاری پوری شام اس کا وہاں سفارت خانے میں انتظار کرتی رہی اور صاحب موصوف اس وقت تک ایک فلائیٹ کے ذریعے ماسکو پہنچ چکے تھے۔ جہاں انہیں سیاسی پناہ دے دی گئی اس کا انتقال ماسکو میں سن1988میں ہوا۔
یہ ایجنٹ بڑی مشکل سے تیار ہوتے ہیں۔ انہیں ایک اسٹیشن پر کبھی بھی زیادہ عرْصے کے لئے نہیں رکھا جاتا۔جیسا کہ ابرار احمد کے اکاونٹنٹ کے معاملے میں ہوا۔سکھبیر پانڈے کی ابرار احمد کے ہاں ملازمت، اسے خاندان کا فرد بنانے سے لے کرادھر ادھر پھیلے تخریب کاروں کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا کام اسی اکاؤنٹنٹ سے لیا گیا اور جب ایجنسی کو شک ہواء کہ اب ان کے بارے میں تفتیش کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے اور ان کی گرفتاری بس دنوں کی بات ہے تواکاؤنٹنٹ جس کا نام ورون گپتا تھا۔ اسے منظر سے غائب کردیا گیا۔
سکھبیر پانڈے کی بات دوسری تھی، اسے ایک دشمن ملک میں محض تخریب کاری کے لئے بھیجا گیا تھا اوراپنے دیش بھارت میں اس کا کریمنل ریکارڈ بھی تھا۔وہ ان کا آپریٹیو ضرور تھا مگر خفیہ اداروں کی اصطلاح میں وہ Agent Asset نہ تھا۔ اس کے پاس ان کے کوئی راز بھی نہ تھے۔ گرفتاری کی صورت میں اسے ڈمپ کرنا را کے لیے مشکل نہ ہوتا۔اس کا بھارت واپس آنا اس ادارے کی نیک نامی کے لئے بھی خطرناک تھا اور اگر وہ وہاں کانتا کے خاندان کے دباؤ پر پکڑا جاتا تو ممکن تھا کہ عدالت اس ادارے کے افراد کو ایک قاتل کو فرار ہونے میں مدد دینے کے الزام میں اسکے سرکردہ افراد پر بھی مقدمہ چلاتی۔

سکھبیر پانڈے کو اکاؤنٹنٹ ورون گپتا کے چلے جانے کا کوئی زیادہ دکھ اس لئے نہ ہوا کہ پاکستان میں اسے روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی اور اس کی زندگی بھی بے خطر گزر رہی تھی۔ اسی دوران ایک شادی اس نے ملتان میں شکیلہ نام کی کسی لڑکی سے بھی کرلی، جس سے اسکی بیٹی بھی ہوئی۔ سمعیہ کو اس شادی کے بارے میں مل میں موجود کسی ملازم کے ذریعے پتہ چلا۔ شکیلہ کا چچا فیکٹری کا ایک اہم ملازم تھا وہ ملتان سے اکثر اپنے اس چچا کے گھر آتی تھی اسی آنے جانے میں کسی طرح وہ جمیل احمد کے رابطے میں آگئی۔۔سمعیہ نے اس شادی پر بہت شور بھی مچایا اور اپنا اکاؤنٹ وہ خود رکھنے لگی۔ مگر جمیل احمد پر اسکے احتجاج کا کوئی خاص اثر نہ ہوا۔وہ اب گھر پر ویسے بھی بہت کم آتا تھا۔ ملتان میں اس نے زرعی ادویات کی ایک ایجنسی لے لی تھی اور اسکا وہ بزنس بھی شکیلہ کے بھائیوں کی مدد سے اچھا چل رہا تھا۔ابرار احمد کا کاروبار اب زیادہ تر سمعیہ کا ایک ماموں اور ایک رشتہ دار مل کر سنبھالتے تھے۔
یہ کاروائیاں ہوسکتا ہے بہت عرصے تک جاری رہتیں مگر رجنی اگروال کے اسلام قبول کرنے سے ایک انکشاف ہوا۔ کانتا اگروال جسے بمبئی میں ہلاک کرنے کے شبے میں سکھبیر پانڈے پر الزام آیا تھا، اپنے والد کی طرف سے رجنی اگروال کی رشتہ دار تھی۔ اس کی امی جب دارالسلام۔ تنرانیہ سے بمبئی گئیں تو تعزیت کے لئے ان کے ہاں بھی گئیں، عورتوں کے سوال جواب کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔
اب چونکہ کانتا کے والد بھی وزیراعظم کے کیمپ میں نہ تھے اور حکومت بھی وہاں تبدیل ہوچکی تھی لہذاوہاں سے یہ راز باہر آیا کہ سکھبیر پانڈے کو خفیہ اداروں نے تحفظ فراہم کرکے پاکستان بھجوادیا تھا۔ اس طرح وہ ان کی دسترس سے باہر ہوگیا تھا۔کانتا کے بارے میں رجنی اگروال کے ذریعے یہ بات برطانیہ میں نبیل کی بیوی طوبی ٰ کو پتہ چلی اور اس نے نبیل ہارون کو بتائی۔اس گروپ میں ایک بنگالی مجاہد مسیح الرحمان بھی شامل تھا جن کا ایک قریبی رشتہ داربہت عرصے سے ابرار احمد کا ملازم تھا اور جسے بہت قوی شک تھا کہ ابرار احمد کے قتل میں جمیل اوراس اکاؤنٹنٹ کا بڑا ہاتھ تھا کیوں کہ گھرانے میں یہ بات عام ہوچکی تھی کہ اکاؤنٹنٹ نے نوکری چھوڑنے سے پہلے ایک بھاری رقم خردبرد کی تھی۔ابراراحمد کا اپنا کک بھی بنگالی تھا اور سمعیہ کا ملازم بھی نواکھالی بنگلہ دیش کا تھا۔یوں ملازمین کا ایک نیٹ ورک تھا، جس راز ادھر سے ادھر ہوتے رہتے تھے۔
اکاؤنٹنٹ نے نوکری چھوڑنے سے پہلے ایک بھاری رقم خردبرد کی تھی جس پر جمیل نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔ابرار احمد نے اس سے بازپرس میں کچھ سختی دکھائی ان کا ارادہ اسے پولیس کو بھی دینے کا تھا اور یہ بات ان کی اہلیہ یعنی سمعیہ کی والدہ کو بھی انہوں نے مرنے سے چند دن پہلے بتائی تھی۔ ان کے ان ارادوں میں جمیل احمد نے بہت پس و پیش دکھائی وہ یعنی جمیل، اس اکاؤنٹنٹ کے خلاف کسی کاروائی کا حامی نہیں تھا۔
چند ماہ پہلے سمعیہ کی سب سے چھوٹی بہن ثوبیہ کراچی کسی عزیز کی شادی میں اپنی امی کے ہمراہ کراچی آئی تھی۔شادی بیاہ پر یہ جو لڑکیوں کا بننا سنورنا اور جلوہ نمائی ہوتی ہے اس سے نیم بسمل کئی لڑکے ہوتے ہیں تو نیم جاں کئی۔ پھر ثوبیہ کا حسن تو بڑا ہی جاں لیوا تھا۔ وہ جو اردو کے ایک پرانے شاعر انشا اللہ خان انشاؔ نے ہیر رانجھا کا قصہ سن کر دہلی میں بیٹھ کر کہا تھا کہ ع
سنایا رات کو قّصِہ،جو ہیر رانجھے کا
تو اہلِ دردکو، پنجابیوں نے لُوٹ لیا
وہی حال اسکے یعنی ثوبیہ کے حسن کو دیکھ کر نبیل کے چھوٹے بھائی، فواد ہارون کا ہوا،
کراچی کا یہ اہلِ درد، دہلی والوں کی طرح ہیز رانجھے کے قصے کے ایک کردار ہیر کی گرائیں ثوبیہ کے جلوؤں کے ہاتھوں بری طرح لٹ پٹ گیا۔ نبیل جس طرح طوبیٰ بیگم کو مہندی کی تقریب میں ناچتا دیکھ کر لٹو ہوا تھا وہ لگتا تھا خاندانی کمزوری تھی۔فواد میاں بھی ضد لے بیٹھے کہ شادی وہ صرف اور صرف ثوبیہ سے کریں گے۔
ماں نے کہا کہ وہ ویسے بھی پنجاب جارہا ہے ذرا خاموشی سے فوجی اصطلاح میں ریکی Rake (صورت حال کا خاموشی سے جائزہ لینا)لے کر آئے کہ لڑکی کیسی ہے، سمعیہ کی فیملی لاکھ رشتہ دار سہی مگر وہاں رہ کر وہ کچھ خاندان سے کٹ گئے تھے، صرف شادی،غمی کی تقریبات کاملنا تھا۔اس میں تو رہن سہن کی حقیقت اور مزاج کے بھید بھاؤ نہیں کھلتے۔
نبیل جب اپنی اس رشتے کی خالہ سے ملا اور اس نے ثوبیہ کو دیکھا تو وہ اسے اپنے عادات اطوار اور سیرت و حسن کے حساب سے اپنے گھرانے کی بہو بننے کے لئے بہت مناسب لگی۔سمعیہ سے اس نے ہلکے سے اس بات کا تذکرہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئی ، سمعیہ نے جمیل کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح اس نے کاروبار پر قبضہ کرلیا تھا اور کس طرح وہ اب انہیں تنگ کرنے لگا تھا۔کچھ کچھ معلومات نبیل کو اپنے بنگالی ساتھی مسیح الرحمان کے ذریعے ملی تھیں۔ سوئے اتفاق سے سمعیہ کا ملازم اور وہ دونوں نواکھالی، بنگلہ دیش میں پرانے دوست تھے۔ جب یہ ملازم چھٹیوں پر بنگلہ دیش گیا۔اسکے پاس جمیل کی تصویر بھی تھی، یہ تصویر مسیح الرحمان نے ہاتھ کر لی اور رجنی اگروال یعنی زینب نے یہ تصویر جب کانتا کی والدہ کو دکھائی تو وہ جوگیندر کی مدد سے یہ تصدیق کرنے میں کامیاب ہوگئیں کہ یہ شخص دراصل سکھبیرپانڈے ہی ہے،سمعیہ نے تو اسے جمیل کے بارے میں بتایا۔ ایک دن اس کی غیرموجودگی میں جب انہوں نے کسی ترکیب سے اس کمرے کا جائزہ لیا،جس کی چابیاں کسی وجہ سے جمیل اپنے دورہ ملتان میں اپنے ساتھ لے جانا بھول گیا تھا تو انہیں بارود اور اسلحہ نظر آیا۔نبیل نے جب اپنے جہادی نیٹ ورک سے اس کے بارے میں معلومات لیں، تو علم ہوا کہ وہ ان میں سے کسی گروپ کا ممبر نہیں البتہ اس کی کاروائیوں کے بارے میں انہیں خاصا شک بھی ہے اس لئے کہ ان کے اندازے کے مطابق اس کے تعلقات دشمنوں کے گروپس سے ہیں، پاکستان کے اندر ان کے اپنے نیٹ ورک نے جب کھوج لگایا تو کچھ خطرناک تفصیلات سامنے آئیں، جس پر نبیل نے بہت مشکل سے سمجھایا کہ اس کا شوہر دشمنوں کا ایک مستند ایجنٹ ہے۔


نبیل کا یہ گروپ بلا آخر اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بڑی مشکل سے اسکا کھوج لگایا گیا۔کچھ بھنک اسے بھی پڑ چکی تھی کہ جہادیوں کے ایک گروپ کو اس کی کاروائیوں کے بارے میں علم ہو چکا ہے اس لئے اب وہ اپنا زیادہ وقت ملتان میں گزارتا تھا۔اس کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح بھاولپور کے صحرا سے ہندوستان میں داخل ہوجائے،مگر مسئلہ یہ تھا کہ بارڈر پر ان دنوں فوج کی نگرانی بہت کڑی تھی اور وہ لوگ جو اس طرح کے کاموں میں مدد کر سکتے تھے وہ ان دنوں اپنی کاروائیاں تقریباً روک کر بیٹھے ہوئے تھے۔
اسے پہلے تو انہوں نے ملتان سے اغوا کیا اور پھر اپنے جہادی ساتھیوں کی مدد سے اس کی تفتیش کی اور جب اس کی کاروائیوں کا اچھی طرح ثبوت اسی کی زبانی بہم ہوگیا تو اسے ہلاک کردیا گیا۔ اسکی ہلاکت کے بارے میں سمعیہ کو نبیل نے صرف اتنا بتایا کہ اسکے بارے میں مقامی ایجنسیوں کو شک ہوگیا تھا اور اسے انہوں نے ایک مقابلے کے بعداس وقت مار دیا جب وہ ہندوستان کی سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسکی لاش کی تصویر بھی سمعیہ کو دکھا دی گئی کہ اسے یقین آجائے کہ جمیل احمد اب اس دنیا میں نہیں رہا۔سمعیہ رودھو کر چپ ہوگئی۔
اس سلسلے میں حاصل ہونے والی معلومات، تصاویر اور نیٹ ورک کے دیگر ممبران کا ایک پورا پورٹ فولیو متعلقہ اداروں کے سپرد ان کے اپنے کسی افسر کے ذریعے مہیا کردیا گیا۔ زینب یعنی سابقہ رجنی اگروال کو صرف نبیل نے وہ تصویر دی جس میں اس کی گولیوں سے چھلنی لاش ایک جھاڑی کے نزدیک کسی سڑک کے کنارے پڑی تھی،جو اس نے ڈاک کے ذریعے اپنی والدہ کو بھیج دی کہ وہ چاہیں تو کانتا کی ماں کو بھجوادیں،تاکہ ان کی آتما کو چین آجائے۔
٭تیری نظر سے کیا رشتہء نظر پیوند
بہت دنوں بعدعدنان نے ایک شادی کی دعوت میں عجب نظارہ دیکھا جہاں چند خواتین اور دو تین مرد حضرات ایک چادر بچھا کر بیٹھے تھے اور ہاتھ سے کھانا کھا رہے تھے۔ دعوت کے دیگر شرکا چھری کانٹوں سے کھڑے کھڑے کھانا کھاتے تھے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو نبیل ہارون کا خانوادہ ہے اس میں البتہ ایک گورا اورگوری بھی شامل ہے۔ دو عدد خواتین ایسی تھیں جنہیں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔پتہ چلا کہ ایک تو اس میں طوبیٰ ہے یعنی نبیل ہارون کی سالی اور گورا اس کا میاں حماد کیون ہے، گوری کا نام پہلے کبھی وکٹوریہ تھا یہ ایک یہودی لڑکی تھی اب وہ مسلمان ہوکرصالحہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ بڑی مالدار اور پڑھی لکھی تھی۔ دولت تو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے چھوڑنی پڑی۔ خاندان کا اپنا ہوائی جہاز بھی ہوتا تھا۔ دوسری تنزانیہ کی ایک ہندو لڑکی رجنی اگروال تھی اور اسکا نام مسلمان ہونے کے بعدزینب رکھا گیا تھا۔
کھانے کے بعد یہ گروپ ایک بڑی سی میز پر جمع ہوگیا۔ ان سے سوال جواب کا سلسلہ وہاں موجود لڑکے لڑکیوں نے شروع کردیا۔ایک لڑکی کو اس بات پر اعتراض تھا کہ وہ سب کے ساتھ کھانے
پینے سے کیوں باز رہے تو طوبی کہنے لگی کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے کی دین میں ممانعت ہے، ایک لڑکے کا خیال تھا کہ چمچوں کانٹوں سے کھانا کھانے سے دین کہاں روکتا ہے۔جس پر زینب کہنے لگی کہ کوئی بھی چمچہ کتنا ہی صاف کیوں نہ ہو بہرحال آپ سے پہلے کسی نہ کسی کے منہ میں ضرور گیا ہوتا ہے۔انگلیوں پر آپ ذکر بھی کرتے ہیں اور پھر ان میں لمس کی لذت بھی ہوتی ہے۔دھات کے چمچوں میں یہ خوبیاں کہاں جب کہ آپ کا ہاتھ صرف اور صرف آپ ہی کے منہ میں جاتا ہے۔ایک لڑکی کو اس بات میں دلچسپی تھی کہ یہ گروپ بالخصوص طوبیٰ،زینب،صالحہ اورحماد کو پاکستانی شادی کی تقریبات اور گہماگہمی کیسی لگی۔
صالحہ نے تو صرف انگریزی کے ایک لفظ میں معاملہ ٹال دیا کہ Razzle-Dazzle (یعنی ٖفضول شو ر شرابہ اور دکھاوا بہت ہے)، حماد کہنے لگا کہ اس نے شادی کے بارے میں جو کچھ اسلامی کتب میں پڑھا اور تعلیمات کی روشنی میں سمجھا ہے اس سے یہ بہت ہٹ کر ہے شاید کلچر کا اثر ہو۔ جس پرزینب جس کے والدین کا تعلق ہندوستان سے تھا کہنے لگی کہ وہاں اتنی تقریبات اور تام جھام نہیں ہوتا۔ مگر نبیل ہارون کہنے لگا وہاں بھی بہت خرابیاں ہیں مگر طوبی ذرا کھل کر بولی کہ آپ کی طرف شادی بیاہ کی رسومات میں چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ اسلامی حساب سے بالکل جدا ہیں اور اس میں بالخصوص لڑکی کے والدین پر بہت دباؤ آجاتا ہے اور وہ یہ ہیں:
۱۔اسلام میں شادی ہمیشہ مسجد میں ہوتی ہے۔کسی گھر پر یا شادی ہال میں نہیں۔
۲۔اسلام میں بارات کا کوئی تصور نہیں۔
۳۔اسلام میں لڑکی والوں پرکھانا کھلانے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
۴۔اسلام میں جہیز دینے کا کوئی تصور نہیں۔
اسے یعنی طوبیٰ کو حیرت ہوئی کہ اس کی ان تعلیمات پر سب سے زیادہ اعتراض وہاں موجود لڑکیوں کو ہوا۔وہ کہنے لگی۔اگر آپ مغرب کو دیکھیں تو وہاں ان کے شاہی خاندان کے افراد بھی شادی
کے لئے چرچ کا رخ اختیار کرتے ہیں۔جب شادی مسجد میں ہوگی تو بارات اور کھانا کھلانا خود ہی ختم ہوجائے گا۔آپ کے ذہن میں یہ جو رسول اکرمﷺ کی جانب سے حضرت فاطمہ کو جہیز دئیے جانے کا تصور ہے یہ کم علمی پر مبنی ہے۔آپؐ نے حضرت علیؓ کو جو اپنی زرہ بکتر بیچنے کا حکم دیا تھا وہ اسی لئے تھا کہ وہ گھر کی ضرورت کا سامان خرید کر گھر چلانے کا بندوبست کر سکیں۔بات چیت جاری تھی کی دلہن کی رخصتی کا وقت آگیا اور یہ سب اس میں مصروف ہوگئے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں