• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اردو زبان کی دو اصطلاحات ہیں،جنس اور صِنف۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

اردو زبان کی دو اصطلاحات ہیں،جنس اور صِنف۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

جنس سے عمومی طور پر مراد مذکر اور موئنث ہیں، انسانی تشریح میں مرد اور عورت، یہ لفظ، جنس، خالصتاً حیاتیاتی یعنی بیالوجیکل اصطلاح ہے، اس سے واضح مراد جنسی عضو کی مخصوص شکل کے ساتھ کسی کو مرد یا عورت قرار دینا ہے اور مختلف جنسی عضو کے حامل فرد کو متضاد جنس کا نام دیا جائے گا۔
جبکہ صِنف درحقیقت سماجی اور تہذیبی اصطلاح ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے مخصوص رویوں، فرائض و ذمہ داریوں اور کردار کے ساتھ معاشرے میں کس مقام پر فائز ہے اور معاشرے کے ساتھ اس کے دوطرفہ تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔
یہ اصطلاح، صِنف، اپنی تعبیر میں انسانی سماج کیلئے ایک جدید اصطلاح ہے ، جوں جوں تہذیب نے ترقی کی، فرد پہ ذمہ داری، اس کے فرائض اور حقوق کے پیمانے بدلتے گئے اور مختلف اجناس ، یعنی حیاتیاتی نکتۂ نگاہ سے مرد و عورت، کیلئے اپنی قابلیت دکھانے کو نئے میدانوں کے راستے کھلنے لگے، وگرنہ اس سے پہلے ہر جنس کی ذمہ داریاں طے تھیں، اسی لئے صِنف کا تصور ناپید تھا۔
مرد حضرات میں موجود ٹیسٹوسٹیرون، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، مارو یا مرو کی سفاک پالیسی پر کسی اندھے شکاری کی طرح گامزن ہے، ارتقائی سفر میں اسی لئے مرد ہی شکار و خوراک کا بندوبست کیا کرتے تھے، یہی ہارمون جسمانی قوت اور پٹھوں کی طاقت میں بھی کارفرما ہے، جبکہ دوسری طرف خواتین کے جسم میں موجود آکسیٹوسین نزاکت، محبت، حساسیت ،اعتماد اور سب سے بڑھ کر دوسروں کی دیکھ بھال کے جذبے کو بیدار رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گھر گھرستی جیسی مشکل ذمہ داری ہمیشہ سے عورت کے سپرد رہی کہ بچوں کی پرورش کیلئے درج بالا تمام خوائص لازم رہے ہیں۔
تہذیب وتمدن کے ارتقاء کے ساتھ زندگی قدرے سہل ہو رہی، اب خوراک کی تلاش کیلئے جان داؤ پر لگانا ضروری نہیں اسی لئے جہاں ایک طرف خواتین نے بھی اس مقصد کیلئے خود کو وقف کرنا شروع کیا وہیں مرد حضرات کا وحشی پن بھی قدرے قابو میں آیا، یہاں سب سے بڑا کردار مخلوط نظامِ زندگی اور یکساں تعلیم کا ہے، جن کی مدد سے دونوں جنسوں نے نہ صرف ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی بلکہ ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔
تہذیب کے اس ارتقاء میں مردوں اور عورتوں نے سماجی طور پر مختص ذمہ داریوں کا بوجھ بانٹا اور حیاتیاتی نکتۂ نگاہ سے ہارمونز کی مقدار میں بھی ردوبدل دیکھنے میں آیا، اجتماعی طور پر مردوں کا ٹیسٹوسٹیرون ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ پاتا کہ اسے اب کسی جنگلی جانور یا وحشی قبائل سے جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں جس کیلئے اسے ٹیسٹوسٹیرون کی انتہائی بلند مقدار مطلوب ہو، مردوں میں اب آکسیٹوسین کی مقدار ماضی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مردِ جدید زیادہ حساس اور قدرے نزاکت کا حامل ہے، دوسری طرف خواتین میں ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار نسبتاً بڑھی کیونکہ وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں مقابلے کو سامنے آنے لگیں جس کیلئے انہیں مردانہ ہارمونز کسی نہ کسی حد تک درکار ہیں، اب نسوانی حسن کا معیار چوڑے کولہے یا بڑی چھاتیاں نہیں رہیں کہ عورتوں میں مردانہ ہارمونز، ٹیسٹوسٹیرون، کی مقدار ماضی کی نسبت زیادہ ہے۔ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ اقتدار، جنگ اور جسمانی کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین کی بڑی تعداد بانجھ ہو سکتی ہے یا پھر ان کی اگلی نسلوں میں ہارمونز کا بگاڑ دیکھنے میں آسکتا ہے۔(یہاں بے نظیر بھٹو اور انجیلا میرکل کی مثال دینے کی جسارت کی جا سکتی ہے )۔
فیمینسٹ کی حقیقی تحریک کا مطالبہ کسی طور جنسی برابری نہیں بلکہ ان دو اصناف کی سماجی برابری ہے، لیکن یہ نکتہ شاید ان کی نظروں سے اوجھل ہے کہ اصناف کی سماجی برابری بالآخر جنس کے حیاتیاتی اعتدال کو متآثر کر سکتی ہے، اسی لئے اس تحریک کی کامیابی کیلئے لازم ہے کہ صحیح معنوں میں دانشور افراد اسے لے کر آگے بڑھیں، نہیں تو انجام وہی ہوگا جو ہمارے ہاں دیکھنے میں آرہا ہے، بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں اس تحریک کے سرخیلوں کی اکثریت انسانی ارتقاء، اس کے حیاتیاتی اور سماجی پہلوؤں سے ناواقف ہیں، ایسے میں تحریک سطحی اذہان میں بھونچال تو لا سکتی ہے لیکن منطقی اور معتدل تبدیلی نہیں لا سکتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply