کپاس (23) ۔ امریکہ میں کاشت/وہاراامباکر

امریکہ میں مقامی آبادی نووارد آبادکاروں کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ ہندوستان یا مشرقِ وسطٰی کے برعکس یہاں پر بڑے سوشل سٹرکچر اور طاقتور حکمران نہیں تھے۔ صدیوں جاری رہنے والی جنگ میں بحرِ اوقیانوس کے پار سے آنے والے آہستہ آہستہ زمین پر قابض ہوتے گئے۔
امریکہ کا قیام 1776 میں ہوا اور اس نے برطانیہ سے طویل جنگِ آزادی میں آزادی چھین لی۔ برطانیہ نے ہتھیار ڈال دئے۔ 1783 کو پیرس میں امن معاہدہ ہو گیا۔ (مقامی امریکی آبادی نے اس جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دیا تھا)۔ آبادکاروں نے آبادی بڑھانا شروع کر دی۔ فیڈرل حکومت نے دوسری یورپی طاقتوں سے علاقے حاصل کرنا شروع کر دیے۔ 1803 میں فرانس سے لوزیانا کی خریداری نے یونائٹڈ سٹیٹس کا رقبہ دگنا کر دیا۔ 1819 میں امریکہ نے سپین سے فلوریڈا کو خرید لیا۔ اور 1845 میں میکسیکو کو ضم کر لیا۔
مقامی آبادی سے الابامہ اور جارجیا کا بڑا علاقہ حاصل 1800 کی دہائی میں حاصل کیا گیا اور اسے کپاس کی کھیتوں میں تبدیل کیا گیا۔ کریکس کو مزید شکستیں ہوئیں اور انہیں فورٹ جیکسن کا معاہدہ کرنا پڑا جس میں ڈھائی کروڑ ایکڑ علاقہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے پاس آ گیا۔ یہ موجودہ جارجیا اور الابامہ کی ریاستیں ہیں۔ چکاسا سے مغربی ٹینیسی کا علاقہ اینڈریو جیکسن معاہدے کے تحت 1818 میں۔ چوکٹا کے ساتھ پچاس لاکھ ایکڑ کا علاقہ مسیسیپی ڈیلٹا میں جس کے عوض اوکلوہاما اور آرکنساس کا علاقہ انہیں دیا گیا۔ فلوریڈا میں سیمینول اور جارجیا میں چروکی سے۔ یہ ملٹری کاٹن کامپلکس تھی۔ گجرات یا اناطولیہ میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ کے پاس بڑے دریاوں کا نیٹورک بھی آ گیا۔ امریکہ میں اس کی وجہ سے مال کی ٹرانسپورٹ بہت سستی ہے۔ دریائے مسسپی خاص اہمیت کا حال تھا جہاں پر نیو ارلینز کپاس کی تجارت کا گڑھ بن گیا۔1817 میں دخانی جہاز اور 1830 کی دہائی میں ریلوے نیٹ ورک آ گیا۔
کپاس کی کاشتکاروں کی مانگ نئی قوم کی سیاست کا اہم پہلو رہا۔ کھیت میں اس کو اتارنے کی مزدوری اس پراسس کا سب سے محنت طلب کام رہا ہے۔
غلاموں کی درآمد پر 1808 میں پابندی لگ گئی۔ اس وقت تک دس لاکھ غلام یونائیٹڈ سٹیٹس کے جنوب میں بھیجے جا چکے تھے۔ سب سے زیادہ کپاس کے کھیتوں کے لئے۔
ایسا نہیں تھا کہ تمام کپاس غلام اگاتے تھے۔ چھوٹے کاشتکار ایسا خود کرتے تھے۔ یہ منافع بخش فصل تھی لیکن 85 فیصد پیداوار بڑے جاگیرداروں سے تھی۔ اور امریکہ میں 91 فیصد غلام انہیں پر کام کرتے تھے۔ بڑے جاگیرداروں کو سکیل کا فائدہ تھا۔ کپاس کی پیداوار کے لئے انسانی قوت کی ضرورت تھی۔ بیج الگ کرنے، گانٹھوں کو پیک کرنے، زمین صاف کرنے جیسے کاموں کے لئے اور ان کا مطلب غلاموں کی تجارت، نیلامی اور ان جب جسمانی اور ذہنی جبر تھا۔
لیورپول کرانیکل میں ولیم راتھبورن نے 1849 میں لکھا تھا کہ “اگر غلامی ختم ہو گئی تو کپڑے کی قیمت دگنی یا تگنی ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کو ایک اور فائدہ حاصل تھا۔ اور وہ حکومت تھی۔ حکومت انفراسٹرکچر کی تعمیر کسی بھی طریقے سے کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ دور دراز تک ریلوے لائن۔ آبی ٹرانسپورٹ۔ گھوڑوں اور خچروں سے زیادہ تیز طریقے ہر جگہ آ جانے سے امریکی کپاس سستی تھی۔ سالواڈور میں ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے کپاس کی لاگت دگنی پڑ جاتی تھی۔ ہندوستان میں ٹرانسپورٹ کا انفراسٹرکچر ناقص تھا۔ ہندوستان میں ٹرانسپورٹ کی لاگت اس کو اگانے کی لاگت کا پچاس فیصد تھی جبکہ امریکہ میں صرف تین فیصد۔ تاجروں اور جاگیرداروں کا حکومت پر اثر، وہ اہم چیز تھی جس کے سبب امریکہ میں یہ انفراسٹرکچر اس قدر جلد بن گیا جو دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ نے 1834 میں اپنی سلطنت میں غلامی کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ امریکہ آزادی حاصل کر چکا تھا۔ یہاں پر غلامی جاری رہی۔
والٹر برلنگ 1806 میں کپاس کا بیج لائے جو میکسیکو کے پہاڑی علاقے میں کاشت ہوتا تھا۔ اس کا ریشہ لمبا تھا اور اس کو بیماری کم ہوتی تھی۔ یہ بیج کی کامیاب جدت تھی جو پہلے امریکہ اور بعد میں دنیا بھر میں پھیلی۔
امریکہ میں اس پیداوار کے ساتھ مالیاتی نظام کی جدتیں بھی آنے لگیں۔ قرض کا نظام، جس میں کئی بار غلاموں کو گروی رکھوایا جاتا تھا، لندن منی مارکیٹ سے آیا۔ یہ منطقی اور اداراتی بنیادوں پر استوار ہوا۔ اس نے جاگیردار کی طاقت کو کم کر دیا کیونکہ اس نے فیصلوں میں تاجر کا حصہ بڑھا دیا۔
کپاس کا منافع بخش کاوبار تھا۔ اس میں سرمائے پر منافع کا ریٹ بائیس فیصد تک تھا۔ اس کا ایک اور اثر ہوا۔ منڈی میں غلام کی قیمت چڑھ گئی۔ نیو اورلینز میں 1800 میں غلام 500 ڈالر کا مل جاتا تھا۔ اس کی قیمت سول وار سے پہلے 1800 ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
اس پیداوار نے امریکہ کا نقشہ تبدیل کیا اور دنیا پر بھی بڑا اثر کیا۔ 1845 میں امریکن کاٹن پلانٹر میں مضمون میں لکھا، “ہماری محنت دنیا کے لئے نعمت ہے۔ یہ کام کسی اور طریقے سے نہیں کیا جا سکتا۔ اب کپڑا اتنا سستا ہو چکا ہے کہ یورپ کی آدھی آبادی کاٹن کی قمیض پہننے کا آرام محسوس کر سکتی ہے”۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر جارجیا کے کھیت کی جہاں پر غلام کپاس چن رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply