فوت ہونے کی خواہش۔۔عطا الحق قاسمی

میں آج کی تاریخ میں 78سال چھ ماہ یعنی ساڑھے اٹھتر سال کا ہوگیا ہوں اور صرف ڈیڑھ سال بعد اَسی برس کی عمر میں فوت ہونا چاہتا ہوں مگر یہ ڈیڑھ سال بھی سابقہ ساڑھے اٹھتر سال کی طرح چلتے پھرتے گزارنے کا خواہشمند ہوں۔ میری خواہش تو یہ ہے کہ اَسی سال کی عمر میں جب میں وفات پاؤں تو میں چارپائی پر ہی ہوں اور روحانی طور پر قبرستان تک بھی خود چل کر جاؤں اور میرے عزیز و اقارب اور دوست احباب مجھے میری آخری منزل تک چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ ساتھ چلیں اگر اس وقت ڈھول وغیرہ کابندوبست ہو جائے تو لحد میں اترنے سے قبل ڈھول کی تھاپ پر ہلکا ہلکا بھنگڑا بھی ڈال لوں اور پھر ہنستے مسکراتے شرکائے جلوس کا ہاتھ ہلاکر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں الوداع کہوں، بلکہ سچ پوچھیں تو میری ایک خواہش یہ بھی ہے کہ وفات کی صورت میں غسل کے لئے کسی غسال کو زحمت نہ دی جائے بلکہ زندگی میں دوسری دفعہ نہانے کا کام بھی میں خود ہی انجام دوں!

صرف یہی نہیں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ لحد میں منکر نکیر تشریف لائیں تو میں جتنا اٹھ سکوں اتنا اٹھ کر مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کروں۔ میری ایک اور خواہش اگر ﷲ تعالیٰ قبول فرمائیں تو یہ ہے کہ منکر نکیر ان تمام سوالات کے علاوہ جو ہر مسلمان سےپوچھے جاتے ہیں کچھ اور سوال بھی مجھ سے پوچھیں، مثلاً یہ کہ تم نے زندگی میں کسی کو دکھ تو نہیں دیا، کسی غریب کا کبھی سہارا بنے کہ نہیں، کسی کو حقارت کی نظروں سے تو نہیں دیکھا، اپنے ضمیر کے خلاف کوئی کام تو نہیں کیا، دولت کے حصول کے لئے ماردھاڑ تو نہیں کی، کبھی لقمہ حرام تو حلق سے نہیں اترا، کدورت اور منافقت سے سینہ داغدار تو نہیں کیا، کبھی غرور میں مبتلا تو نہیں ہوئے، کبھی کسی کی مجبوری سے فائدہ تو نہیں اٹھایا اور اسی نوعیت کے دیگر سوالات! اگر میں اس امتحان میں پاس ہو جاؤں تو جنت اور پل صراط وغیرہ سے گزرنے کا موقع تو کہیں بعد میں بلکہ کروڑوں برس بعد قیامت کے روز آئے گا یا جو قیامتیں بنی نوع انسان پر صدیوں سے گزر رہی ہیں اگر انہی کو قیامت سمجھ کر جزا اور سزا کا دن فی الفور آ جائے تو دوسر ی بات ہے ور نہ باری تعالیٰ سے میری درخواست ہوگی کہ اگر منکر نکیر نے میرے جوابات سے مطمئن ہو کر مجھے امتحان میں پاس کردیا تو جنت کے دروازے اسی لمحے میرے لئے کھول دیے جائیں تاکہ میں ان دروازوں سے تانکا جھانکی شروع کر دوں کہ میں نصف صدی سے زیادہ روزن دیوار سے جھانکنے کا عادی ہوں، میں دروازے سے حوروں کو پیلیں ڈالتا دیکھوں گا۔انہوں نے مولانا طارق جمیل کے مطابق اپنے ریشمی جسموں پرستر لباس پہنے ہوں گے مگر نظریں ایک سے سترویں تک کا سفر چشم زدن میں طے کرلیں گی۔ غلمان جنتیوں کو شرابِ طہور پلا رہے ہوں گے، جنت کی ٹھنڈی ہوائیں مجھے مست کر رہی ہوں گی، دودھ اور شہد کی نہریں دیکھ سکوں گا، ان عالیشان محلات پر بھی میری نظر ہوگی جو جنت میں داخلے کے بعد میری رہائش کے کام آئیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے نظارے بھی دیکھنے کو ملیں گے جو میں دیکھنا نہیں چاہوں گا کہ لحد میں ایسے نظاروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جسمانی حرارت چنداں مفید نہیں ہوگی۔

لو مجھے تو ابھی یاد آیا کہ ﷲ تعالیٰ اگر عبادت کے حوالےسے کوئی کمی بیشی معاف کرکے اور معاملات کے حوالے سے میری کچھ نیکیاں قبول کرلیتے ہیں تو قیامت کی آمد تک لحد کی تنگ دامانی ختم ہو جاتی ہے اور یہ لحد جنت کا ایک باغ بن جاتی ہے جو تاحد نظر پھیلا ہوتا ہے جس میں طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں، خوبصورت پرندے ہوتے ہیں، سو مجھے تانکا جھانکی کی ضرورت نہیں پڑےگی بلکہ میں رنگ برنگے پرندوں اور پھلوں، پھولوں سے لدے ہوئے اسی باغ میں دندناتا پھروں گا اور آخری خواہش یہ کہ کروڑوں سال بعد یا لاکھوں سال بعد یا چند برسوں بعد اگر قیامت آتی ہے اور مجھے جنت کی بشارت ملتی ہے تو ﷲ تعالیٰ کی خدمت میں، میں گزارش کروں گا کہ مولا مجھے حوروں سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ تو روبوٹ کی طرح ہیں جبکہ میں تو سجری اور اصلی محبت کا قائل ہوں، باری تعالیٰ جس سے میں دنیا میں محبت کرتا رہا ہوں اس کی ساری خطائیں معاف کرکے اسے جنت میں بھیج دے، بس ﷲ کرے وہ یہاں بھی کسی غلمان کو فلرٹ کرنے کی کوشش نہ کرے۔
آخر میں چند مزید گزارشات، بہت سے لوگ باآواز بلند ’’کلمۂ شہادت‘‘ کہہ کر جنازے کو کندھا دیتے ہیں اور پھر واپس آ کر مرحوم کی چغلیاں شروع کردیتے ہیں، وہ شاید ایسا نہ کرسکیں کیونکہ میں تو ان کے ساتھ چل رہا ہوں گا،جس پر مجھے شک ہوگا میں اس کے بازو پر ’’چک’’ ماروں گا نیز میں رات کو خواب میں آ کر انہیں ڈرائوں گا بھی!۔ایک بات یہ کہ یوسفی صاحب کے بقول بڑا آدمی جب قبرستان میں داخل ہوتا ہے تو اہل القبور کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’بیٹھے رہیے ، بیٹھے رہیے‘‘ میں اس میں صرف تین لفظوں کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں ’’بیٹھے رہیے، بیٹھے رہیے، تکلف کی ضرورت نہیں‘‘ کہ میں تکلفات کا قائل نہیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

پس نوشت مانچسٹر میں ایک شیطان صفت پاکستانی رہتا ہے، خود کو مذہبی پیشواکہتا ہے،کہتا پھرے مگر اس کا اندازِ گفتگو نازیبا ہے،اس کی کئی وڈیوز میں نے دیکھی ہیں، جن میں وہ ماں بہن کی گالیاں بکتا ہے مگر حالیہ وڈیو میں اس نے حضور رسالت مآبؐ کے بارے میں جن گندے خیالات کا اظہار کیا ہے کوئی بے دین شخص بھی سنے تو مشتعل ہو جائے۔ میں اس کا نام نہیں لکھ رہا کہ اس کی کوئی فالونگ نہیں ہے اور وہ یہ سب کچھ ’’بدنام‘‘ ہونے ہی کیلئے کر رہا ہے۔ یہ مانچسٹر والوں کا کیس ہے، وہ جس طرح چاہیں اس سے نمٹیں!
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply