• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مذہبی جنونیت خود کو کامل سمجھنے کی علت کا شکار بنادیتی ہے؟۔۔عبدالستار

کیا مذہبی جنونیت خود کو کامل سمجھنے کی علت کا شکار بنادیتی ہے؟۔۔عبدالستار

مذہبی ہونے میں میں کوئی قباحت نہیں البتہ ما حصل پر اترانا اور اپنے خیالات کو حتمی سچائی سمجھنا اور تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حقارت کا نشانہ بناکر تذلیل کرنے کا عمل   انتہائی پست ذہنی کی عکاسی کرتا ہے ۔مذہب کے نام پر یورپ میں صدیوں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی، پوپ کے ایک اشارے پر لاکھوں لوگوں کو   موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا، صدیوں کےاس خونی کھیل نے یورپ کو ایک بات اچھے سے سمجھا دی کہ اگر ہم نے دنیا کی امامت کرنی ہے تو پھر ہمیں مذہب کو ریاستی معاملات سے سے الگ کرنا پڑے گا۔اس طرح سے انہوں نے مذہب کو لوگوں کی ذاتی زندگیوں کا حصہ بنا دیا اور ریاستی معاملات کو سیکولرائز کر دیا ۔

اس تاریخی فیصلے کے نتیجے میں یورپ پوری طاقت کے ساتھ ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا مگر ہم آج بھی اسی دوراہے پر کھڑے ہیں ،اپنی نصابی کتابوں کے ذریعے سے  ایک کنفیوزڈ  جنریشن کو جنم دے رہے ہیں، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات جیسے مضامین کے ذریعے سے ہم اپنی جنریشن میں نرگسیت کو فروغ دے رہے ہیں ۔ہمارے مذہبی پنڈت ہوں یا سرکاری پنڈت ، دونوں عقلیت پسندی کو فروغ دینے کی بجائے جذباتی گدھے پیدا کر رہے ہیں، مدارس کا نصاب ہو یا سکول و کالجز کا دونوں میں ہی عاشقانہ آوارگی کے علاوہ کچھ نہیں سکھایا جاتا ، جب بار بار یہی سکھایا اور پڑھایا جائے گا کہ ہم دنیا کی انوکھی قوم ہیں ،ہماری تہذیب و ثقافت مذہب اور افراد دنیا کے سب سے اعلیٰ  منصب پر براجمان ہیں ،تو پھر عبدالسلام ابوداؤد جیسے لوگ ہی پیدا ہوں گے۔ جو اپنی نرگسیت میں اتنا اندھا ہو گیا کہ اس نے ایک ہندو لڑکے مکیش کو ہی زدوکوب کر ڈالا ،ویڈیو کے اندر صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ عبدالسلام نامی بندہ اس کو کہہ رہا ہے  کہ وہ اپنے بھگوان کو ماں اور بہن کی گالی دے اور اس کو مارتے ہوئے اللہ اکبر کہنے پر مجبور کر رہا ہے ۔

اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی سندھ پولیس نے عبدالسلام نامی شخص کو گرفتار کرلیا جس کے لئے سندھ پولیس مبارک باد کی مستحق ہے ،گرفتاری کے بعد اس ذہنی مریض نے ہاتھ جوڑ کر میڈیا کے سامنے معافی مانگی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور غالب امکان یہی ہے کہ اس کی معافی کو تسلیم کرکے چھوڑ دیا جائے گا اگر ہم اسی تصویر کو ریورس آرڈر میں دیکھیں ،فرض کریں اگر یہی ہندو بچہ ہمارے مذہب اور نبی کو گالی دیتا تو کیا اب تک یہ زندہ بچتا؟ کیا اگر یہی بچہ یہ جسارت کرنے کے بعد معافی کا طلبگار ہوتا ،کیا اسے بھی معافی مل سکتی تھی ؟

اگر یہ سوالات ہم اپنی جذباتی تاریخ سے پوچھیں تو ایسا بالکل بھی ممکن نہیں تھا اور اس بچے کو اب تک مار دیا گیا ہوتا، کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ سب سے پہلے ایک انسان ہے اور انسانیت کی تذلیل رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کا مائنڈ سیٹ جو خود کو برتر سمجھنے کی علت کا شکار ہوتا ہے اس کا جنم کیسے ہوتا ہے؟ اس مائنڈ سیٹ کے پیچھے ہمارے مذہبی راہنما ہیں جو دین کے نام پر مختلف فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور المیہ کی بات یہ ہے ،کہ  یہ  ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے کے علاوہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے،سوچیے جو خود مذہب کے نام پر اتنے تقسیم ہوں وہ پھر ہمارے معاشرے کو کیا دے سکتے ہیں؟ طلباء کوبھی دوسرےفرقوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باقاعدہ مناظرہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اورغور کیجیے جن بچوں کو نفر ت کرنا اپنے گھر سے سکھایا جائے گا تو پھر وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کیسے برداشت کر پائیں گے۔ دوسرا سکول و کالجز کا نصاب ہے جو “ہیرو ورشپ”اور “نرگسیت ” کے علاوہ کچھ نہیں سکھاتا۔ ثبوت کے طور پر سیکنڈ ایئر انگریزی کی وِیکٹر گرائمر اٹھا لیجئے اور “مائی ہیرواِن ہسٹری” مضمون پڑھ لیجئے آپ کو خود اندازہ ہو جائے گاکہ ہم اپنی جنریشن کو کس قسم کا مواد دے رہے ہیں۔ نرگسیت اور مذہبی جنونیت عقل و خرد کی دشمن ہوتی ہےاور ریشنیلٹی کو سرے سے ہی ختم کر دیتی ہے ۔جب تخلیقیت کی جگہ بچوں کے ذہنوں میں اندھی جنونیت انڈیلی جائے گی تو پھر تخلیقی چشمے کیسے پھوٹیں گے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا کے ساتھ قدم ملانے کے لیے ہمیں اپنے نوجوانوں کو ذہنی آزادی جیسی نعمت سے نوازنا ہوگا اور ایسی  سوچ کا قلع قمع کرنا ہوگاجو الگ انداز سے سوچنے والوں پر کافر،زندیق، احمدی اور ملحد ہونے کا ٹیگ لگا دیتی ہے۔ ہمارے اندر الگ انداز سے سوچنے والوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے کیونکہ آج ہم غار کے دور میں نہیں بلکہ اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں ،کتنے المیہ کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم بھی ان ڈوکٹری نیشن کے ذریعے سے دی جاتی ہے ۔ذہین لوگ سوسائٹی کے خلاف جا کر ہیرو بنتے ہیں جبکہ ہمارے جیسے معاشروں میں پہلے سے یہ طے کیا ہوتا ہے کہ ہمارے ہیروز کون ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply