اتنی ارزاں تو نہیں۔۔آنسہ رانا

جولائی میں کئی خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات ہوئے ہیں۔کچھ محرم رشتوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچیں اور کچھ نا محرم رشتوں کے ہاتھوں۔

نا محرم رشتے کے ہاتھوں مرنے والی کا خوب شور مچا۔ ایک تو اس لیے کہ اسکا قتل انتہائی بے دردی سے ہوا ۔دوسرا اس لیے کہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ دیکھو بڑے لبرل بنے پھرتے ہیں ۔ عورتوں کو حقوق دینے کی بات کرتے ہیں ۔ پہلے اپنی عورتوں کو تو حقوق دے لیں۔

پھر کیوں کہ تعلق بھی ناجائز تھا تو زیب ِ داستاں کے لیے اس قصے میں کافی کچھ تھا ،ان لوگوں کے لیے جنہیں ہر بات میں چسکہ لینا ہوتا ہے۔

میری نظر میں اس قصے میں بات کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔یہ ایک انہونی ہے،انہونی کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔انہونیاں کسی بھی معاشرے  میں ہو جاتی ہیں ۔جنونی لوگوں کے بارے میں کیا بات کرنی۔۔۔ان کے جنون کا شکار ہونے والے ایک قصہ بن جاتے ہیں،لیکن اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہوتا۔

محرم رشتوں کے ہاتھوں مرنے والیوں کے بارے میں زیادہ شور نہیں مچا ۔شاید اس لیے کہ اپنا مارتا بھی ہے تو چھاؤں میں ڈالتا ہے پر یقین رکھنے والی قوم کے لیے یہی شکر کا مقام تھا کہ چلو مار بھی دیا تو ان کے سر تن سے جدا کر کے ان سے کھیلے تو نہیں ۔

یا شاید اس لیے کہ یہ قتل کم تعلیم یافتہ یا مڈل کلاس لوگوں یعنی بے مایہ اور ارزاں لوگوں میں ہوئے تھے۔ تو انکی بات کب تک کی جائے۔

فالتو لوگ۔۔۔ وہ بھی عورت۔۔۔وہ بھی شادی شدہ۔۔۔کیا دنیا میں موضوعات ختم ہو گئے جو اس بارے میں بات کی جاتی رہے۔

طبقاتی تفریق کو ایک طرف کر دیں یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس لیے ہر طبقہ اس کا شکار ہے۔واقعات کی ریشو کم زیادہ ہو سکتی ہے کہ شاید تعلیم نے کچھ لوگوں کو اندر سے سنوارا ہو یا شاید ان تک پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچ گیا ہو جس میں انہوں نے  فرمایا  تھا کہ

عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔

ایک رائے یہ ہے کہ محرم کے ہاتھوں مرنا اور نا محرم کے ہاتھوں مرنا دو الگ باتیں ہیں۔

میری نظر میں یہ دو الگ باتیں نہیں ہیں۔۔۔یہ ایک ہی بات ہے ۔یہ مرد کی انتہا ء پسندی کی بات ہے،یہ مرد کی اس غلط تربیت کی بات ہے جو اسے خود کو عورت کا خدا سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے ۔جسکے نتیجے میں وہ عورت کا انکار برداشت نہیں کر پاتا ۔

نا محرم رشتے میں کیے گئے انکار کے بارے میں یہ معاشرہ کہتا ہے کہ

عورت کی غلطی ہے کہ اس نے نا محرم رشتہ کیوں رکھا۔

محرم رشتے میں کیے گئے انکار کے بارے میں یہ معاشرہ کہتا ہے کہ

شادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ عورت کی کوئی مرضی نہیں ہے۔۔اسے اپنی پسند کی زندگی گزارنی تھی تو شادی نہ  کرتی۔

اس معاشرے میں مردکو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی تعلق میں آپکا کہا حرف آخر نہیں ہو سکتا۔آپکو انکار سننا پڑ سکتا ہے۔آپکو انکار سن کے اسے تسلیم کرنا سیکھنا چاہیے۔

دھونس،زبردستی،ظلم،تشدد یہ سب جنگل کے قوانین ہیں۔انسانوں کو اختلاف رائے کا احترام ہی انسان بناتا ہے۔

عورتوں کے خلاف ان مظالم کو روکنے کے لیے فوری طور پر حکومت کو سخت قوانین بنانے ہونگے اور سخت سزائیں دینے کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے مظلوم کی پشت پر ریاست کا ہاتھ ہونا بہت ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورتوں کو خود ذمہ داری لینا ہوگی کہ وہ اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ اختلاف رائے کا احترام کر سکیں اورہر رشتے میں عورت ان کے ساتھ محفوظ ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply