نور مقدم- کاش اے کاش۔۔محمد وقاص رشید

جو نور مقدم تھی۔۔۔وہ آج بے نور اور غیر مقدم ہوئی  ۔اس قوم کی ایک اور بیٹی کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس دھرتی کے طول و عرض میں پھیلے قبرستانِ ناحق میں ایک تازہ قبر کا اضافہ۔  دولت اور طاقت کے نشے میں ایک اور جان سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔۔ہائے ہائے ایک اور زندگی پل بھر میں “ہے” سے” تھی” ہوئی۔۔۔

سلامتی کے مذہب اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے اسلام ہی کے نام سے آباد ہونے والے دارالحکومت اسلام آباد میں سلامتی کو کس قدر خطرہ لاحق ہے ،یہاں عثمان مرزا سے ظاہر جعفر کے وحشیانہ سانحات سے عیاں ہے۔  اولاً ذکر میں ملت کی ایک بیٹی کی ناموس و حرمت داؤ پر لگی تو موخر الذکر میں زندگی کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔

اس روئے زمین پر زندگی کی ارزنی کا اندازہ آپ اس لرزہ خیز قتل کی واردات سے لگا سکتے ہیں ۔یہ اندوہناک سانحہ اپنے اندر ہر موڑ پر ایک اور کربناک ترین حادثہ سموئے ہوئے ہے۔ اب تک کی حاصل شدہ تفصیلات کا ایک ایک پہلو ہمیں اپنے حال پر ماتم کناں ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ہمارا معاشرتی منہ چڑاتے یہ واقعات ایک نوشتہ دیوار بن کر ہمارے سامنے عیاں ہے کہ اس ریاست کو اپنے مستقبل کے بارے اب ہنگامی بنیادوں پر سوچنا ہو گا ورنہ ماضی کے شاخسانے کے طور پر حال میں موجود اس مجرمانہ طرزِ عمل سے یہ سماج ایک جنگل تو بن سکتا ہے انسانی معاشرہ نہیں۔ ویسے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ “سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔ ”

یہ کربناک داستان اپنے اندر بے شمار کاش لیے ہوئے ہے۔۔۔ ہر موڑ پر اک نیا کاش دل پر حسرت کے کچوکے لگاتا ہے۔ کاش سابق سفیر کی بیٹی بے چاری مرحومہ و مقتولہ نور مقدم عید کے لیے اپنے والدین کے ساتھ کراچی چلی گئی ہوتی۔۔

کاش عید اپنے والدین سے اسکا ٹیلی فونک رابطہ منقطع نہ ہوا ہوتا۔۔

کاش اسکے والدین نے جن دوستوں کو وحشی قاتل کے گھر بھیجا وہ ظاہر جعفر کے ساتھ گھر کی اوپری منزل تک کسی طریقے سے پہنچ جاتے۔ ۔

کاش والدین سے دوبارہ رابطہ بحال ہونے پر نور مقدم دوستوں کے ساتھ لاہور میں ہونے کا کہنے کی بجائے سچ سچ بتا دیتی۔۔

کاش اس مقتل کے دونوں ملازمین نور مقدم کے روشن دان سے چھلانگ لگانے اور مدد مانگنے پر گیٹ کھول دیتے یا اپنی نوکری سے ایک انسانی جان کو قیمتی سمجھتے اور اسے بچا لیتے۔۔

کاش ملازمین کی طرف سے رابطہ کیے جانے پر درندہ صفت ملزم کے والدین اسی طرح پاکستان کی پولیس کو بلا لیتے جس طرح اپنے اس بد بخت بیٹے سے اپنی جان بچانے کے لیے اسکی ماں نے لندن پولیس کو بلایا تھا اور اسے سزا دلوائی تھی لیکن لعنت ہو ایسی منافقت پر کہ لندن پولیس کو بلانے پر تو ایسے لوگوں کے سماجی وقار کوکوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پاکستان میں یہ ایک انسان کے خون سے اپنی نام نہاد سماجی حیثیت پر لگنے والے داغ   دھوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تھراپی ورکس والوں کو پولیس کی بجائے اس لیے بھیجا کہ بدنامی کا خطرہ تھا۔۔لیجیے کما لی آپ نے نیک نامی۔

تھراپی ورکس والوں کی بھی سن لیجیے۔۔ اور ذرا اس ذہنی مرض کے آخری درجے کو چھوتے ہوئے نظام کو دیکھ لیجیے ایک ادارہ جو کہ ذہنی و نفسیاتی امراض میں مدد فراہم کرتا ہے۔۔۔ اس نے اپنی ماں تک پر تشدد کرنے والے منشیات کے عادی شرابی ذہنی مریض کو بطورِ ڈاکٹر/تھراپسٹ کے تعینات کر رکھا ہے۔  جوکہ سکول کے بچوں تک کو جا کر نفسیاتی کاؤنسلنگ مہیا کر رہا ہے۔ الامان الحفیظ۔۔۔۔ یا خدایا۔۔۔۔ایک مجرمانہ اور متشدد ذہنیت رکھنے والا نفسیاتی مریض انہی امراض کا معالج ہے۔ اب اسکے قدموں کے نشانات اور کھرے مٹائے جا رہے ہیں،تاکہ اس خونِ ناحق میں موجود اپنے اپنے حصے کا بار اٹھانے کی زحمت سے بچا جا سکے۔۔۔ یہی ہوتا ہے۔۔۔ یہی ہوتا رہے گا۔۔۔ جب تک ہم زندگی کے نور کو مقدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کر لیتے۔۔۔جب تک ہم انسانی جان سے کھیلنے اور پھر اس کھیل کے کھرے مٹانا نا ممکن نہیں بنا چھوڑتے۔۔

یہ اس کہانی کا اگلا کاش ہے۔۔  کاش تھراپی ورکس والے بے حس لوگ اس وحشی کو معالج کے طور پر رکھنے کی بجائے مریض کے طور پر پاس رکھتے۔ اس قوم کے ساتھ ایسا ہوتا ہی آیا۔۔۔وہ جن مریضوں کو اپنا علاج کروانا تھا وہ اس ملت کے مسیحا اور معالج بننے کا دعوی کرتے رہے اور نتیجہ یہاں کوئی نور مقدم نہ رہا ۔

سب سے بڑا کاش اس دردناک سانحہ میں اس ریاست کے زمرے میں آتا ہے کہ کاش اے کاش اسلام کو صرف پاکستان کی تعمیر سے لے کر دارالحکومت کا نام رکھنے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اسلام کے عدل و انصاف کو اس ملک کے آئین و قانون کی بنیاد بنایا جاتا تو عثمان مرزا اور ظاہر جعفر نامی وحشیوں کے ہاتھ ہتھکڑیاں لگنے سے پہلے ہی جزاو سزا کے خوف سے لرزے ہوتے قصاص کی ہتھکڑی میں جکڑے ہوتے وہ قصاص جو خدا کی کتاب کے بقول زندگی ہے۔ اسی قصاص میں بے چاری نور مقدم کی زندگی تھی۔

کاش کہ  ریاست  نے کم ازکم ذہنی صحت کا نظام تو ایسا بنایا ہوتا کہ جس میں کچھ بھی ہوتا مگر مریض معالج نہ ہوتے۔۔ انسانی زندگی اتنی ارزاں نہ ہوتی۔۔کہ ملزم کا باپ خود کو قانون سے اتنا بالاتر سمجھے کہ ملازمین کی طرف سے اطلاع مل جانے کے باوجود پولیس کی بجائے تھراپی ورکس والوں کو بڑے آرام سے فون کر کے کہے جاؤ ذرا دیکھو تمہارا تھراپسٹ کسی لڑکی کے ساتھ solicit کر رہا ہے۔۔۔خدا کی پناہ۔۔۔ جب گھر کے روبوٹ ٹائپ ملازموں نے بتایا کہ ارضِ پاکستان کا تھراپسٹ اور اپنی ماں پر تشدد کر کے برطانیہ سے ڈیپورٹ کیا گیا حیوان جان بچانے کے لیے روشن دان سے کودنے والی لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر اس کا سر سیڑھیوں پر مارتے ہوئے واپس اوپر لے کر جا رہا ہے تو ان بے حس بے ضمیر پیسے کے پجاریوں نے دونوں ملازموں کو نہیں کہا کہ تم نے گیٹ کیوں نہیں کھولا۔۔۔ان کے ذہن میں ایک لمحے کو بھی نہیں آیا کہ اگر وہ مر گئی تو اگر ایک انسانی جان چلی گئی تو۔۔۔۔کاش کہ انہیں اپنی دولت سے یہ ریاستی قانون خرید لینے کا زعم نہ ہوتا۔۔۔ ان مردہ ضمیروں کے بے حس رویے بتاتے ہیں کہ نہ ملازموں کے لئے یہ کسی لڑکی کا اس گھر میں تشدد کیا جانا کوئی نئی بات ہو گی اور نہ ہی” نیک نام” والدین کے لیے اپنے ہونہار تربیت یافتہ سپوت کی soliciting۔۔۔۔جو کہ اس سماج کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔ کاش یہ ریاست اس تمام داستان میں اپنے منہ پر ملی جانے والی لا قانونیت اور بے خوفی کی ہر کالک کو نور مقدم کے قاتل کے خون سے دھونے کا فیصلہ کر لے۔۔۔

اس کہانی کا ایک اور حسرت زدہ کاش اس سماج کے ان لوگوں پر ہے کہ ہم اس فلسفے کے قائل ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ اس فلسفے کے ساتھ یہ رویہ متضاد ہے کہ ہر سانحے میں مظلوم کی زندگی کو اس مقصد کے لیے کریدا جائے کہ قتل کا کوئی جواز کوئی توجیہہ پیش کی جا سکے ۔یہ انتہائی قابلِ مذمت رویہ ہے اور اس سماج میں پھیلے ہوئے قاتلوں ،جابروں ، ظالموں اور استبدادی کرداروں کی کھلی کھلی اعانت بھی۔ خصوصا ً کسی عورت کی جان ، مال ،عزت و آبرو کو نقصان پہنچنے پر اپنی اس مخصوص فکر کے ساتھ میدان میں کود پڑنا اور محض خود کو پارسا اور دیندار ثابت کرنے کے لیے اسکے کردار پر کیچڑ اچھالنا اور victim blaming کرنا یہ بیمار ذہنیت ہے۔۔۔

اگر آپکا کوئی وزن ہے تو اسے جنس، مذہب ،فرقہ ، قومیت ، لباس ،رہن سہن اور طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہو کر مظلوم کے پلڑے میں ڈالیے۔۔۔کسی بھی شخص کو مکمل غیر مشروط طور پر کسی کی بھی جان مال اور عزت پر حملہ کرنے کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔۔لوگوں کے یہ جملے انتہائی تکلیف دہ ہیں کہ آپ کے سامنے اس ملت کی ایک بیٹی کی سر کٹی لاش پڑی ہے جسے انتہائی اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا اسکا بوڑھا باپ آپ سے محض اپنی رائے مظلوم و مقتول کے حق میں مانگ رہا ہے اور آپ لٹھ لے کر میدان میں اتریں اور اسطرح کے جملے پبلک فورمز پر بولنے لگیں کہ ” بڑی مظلوم تھی اتنی مظلوم کہ آشنا نے مار دیا ” افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔۔یہ پرلے درجے کا سنگدلانہ اور منافقانہ رویہ ہے۔۔خدا کسی عورت کے کردار سے متعلق منفی گواہی دینے کی کیا “شرط” عائد کرتا ہے۔۔۔آپ جانتے ہی ہوں گے۔۔۔۔اور قرآن کہتا ہے کسی کی دشمنی بھی تمہیں نا انصافی پر مائل نہ کرے۔۔۔۔وحشی قاتل نے نور مقدم کا سر تن سے جدا کیا اور آپ نے اس بارے اسلامی طرزِ فکر کا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اک عمر ہو گئی یہ سوچتے یہ خیال کرتے کہ اب ریاست جاگے گی اب سوچے گی مگر جانے کب سوچے گی۔۔رعایا کی سسکیاں ،آہیں اور کراہیں اب ایک ایسے مایوسی بھرے جملے میں تبدیل ہو چکیں کہ دیکھ لینا کچھ بھی نہیں ہو گا بھائی یہ پاکستان ہے ۔۔اگر ریاست سوچے تو اس کے لیے یہ ایک گالی ہے کیونکہ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے اور ماں تو سر سے لے کران پیروں تک اولاد کے لیے دکھوں کا مداوا ہوتی ہے جن پیروں کے نیچے اولاد کی جنت لیے پھرتی ہے۔۔ کیا اولاد اپنے غم و الم میں ماتم کناں ہوتے ہوئے کبھی یہ کہہ سکتی ہے کہ ہماری ماں ہمارے قاتلوں مجرموں ظالموں اور جابروں کا ساتھ دے گی۔۔۔اس کربناک ترین داستان کا آخری کاش کہ یہ ہے کہ کاش اے کاش یہ ریاست یہ ماں اس گالی کو محسوس کر سکے اور اسکا مداوا کر سکے۔۔ اور اس مداوے کا آغاز نور مقدم کے خون سے انصاف ہی سے کیا جائے۔۔  ورنہ۔۔  خدانخواستہ
ہر نور مقدم یہاں بے نور و غیر مقدم ہوتی رہے گی اور یہ ملت یہاں زندگی کی سر کٹی لاش پر روتی رہے گی۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply