سوشل میڈیا پر ایک پوسٹر گھوم رہا ہے جس پر لکھا ہے کہ ہم اب صرف لڑکیوں کے نام تبدیل کر رہے ہیں باقی تحریر ایک ہی ہے اور وہ ہے جسٹس فار فلاں جسٹس فار فلاں کبھی اس فلاں میں زینب کا نام آ جاتا ہے تو کچھ دن بعد کسی اور کا، لیکن اس سب شور شرابے اس احتجاج، سوشل میڈیا ہیش ٹیگز، ڈی چوک اسلام آباد اور مال روڈ لاہور کے مظاہرے اس ظلم کی روایت کو روک تو کیا پائیں گے ان واقعات کےتواتر کی رفتار تک کم نہیں کر پا رہے.. یہ تو وہ کیسز ہیں کہ جو رپورٹ ہو رہے ہیں نہ جانے کون کون سی بیٹی اس وقت بھی نہ جانے کس کس طرح کے کرب سے گزر رہی ہوگی جس وقت میں یہ تحریر لکھ اور آپ پڑھ رہے ہیں…
خلیفہ سوئم حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے مشہور لقب ذوالنورین ہے جس کا مطلب دو نوروں کا حامل ہونا ہے، اس لقب کی علماء کرام وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دو صاحبزایوں نے آپ کی زوجہ کے طور پر آپ کے گھر قدم رکھا اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہا گیا یعنی ایک بات تو ثابت ہوئی کہ نور عورت کے دم سے ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسا جلیل القدر صحابی بھی اس نسبت سے پہچانا گیا…
عید قرباں سے ایک دن پہلے اسلام آباد میں ایک شخص ظاہر جعفر نے نور مقدم نامی ایک خاتون کو قتل کیا اس کے بعد اس کا سر تن سے جدا کر کے اسُ کے ساتھ فٹبال کھیلتا رہا میں اس واقعے پر بات نہیں کرنا چاہتا میں اس رویے پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ جو ایک عورت کی قیمت اتنی گھٹا دیتا ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک انسان بھی ہے گوشت پوست کی بنی ایک انسان بلکہ مرد کی نسبت کئی سو گنا زیادہ حساس اور نازُک ایسا کیوں ہے آئیں ہم اس سب کو ذرا تفصیل سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
جیسا کہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ مذہبِ اسلام عورت کو نُور سے تعبیر کرتا ہے جو رویہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنی بیٹی کی جانب تھا وہ تمام لوگ جانتے ہیں جس طرح سے آپ امہات المومنین کے ساتھ معاملات فرمایا کرتے وہ بھی ہم سب جانتے ہیں تو پھر کیوں اس مبینہ طور پر اسلامی معاشرے میں عورت اتنی بے توقیر ہے؟؟
میری نظر میں اس کا جواب ہماری ریاست کے اسُ ایجنڈے میں چھپا ہے کہ جو ریاست، ریاستی اداروں اور ریاست کے طاقتور شہریوں کو اس کے کمزرو طبقے کی اہانت کی ذمہ داری سونپتا ہے چاہے وہ عورت ہو، مفلس مرد ہو، خواجہ سرا ہو یا بھیڑ بکری یہ معاشرہ وہ معاشرہ ہے کہ جس میں جب تک کمزرو کی آبرو ریزی نہ کی جائے خود کو طاقتور سمجھنا اور ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے یہاں آپ معزز تب مانے جاتے ہیں جب آپ مظلوم پر ہی الزام تراشی کریں۔۔ جب تک آپ کسی متاثرہ کو اس کے ساتھ پیش آنے والے دہشت ناک واقعے کا موجب ثابت نہ کر دیں آپ طاقتور، ایماندار اور سچے ثابت نہیں ہو سکتے یہاں کے دانشور کہتے ہیں کہ اس ملک کے اصل ولن اس ملک کے عوام ہیں کیونکہ وہ ان حکمرانوں کو ووٹ دے کر کندھوں پر سوار کرکے اقتدار میں لاتے ہیں اور پھر انہی حکمرانوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتے ہیں یہاں کا وزیراعظم کہتا ہے کہ عورتوں کا ریپ اس لیے زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ وہ دعوت دینے والے کپڑے پہنتی ہیں، آپ کبھی پاکستانی عدالت میں جائیے کہ جہاں کوئی ریپ، طلاق یا خلع کا کیس زیرِ سماعت ہو وکلا ایسے ایسے سوال عورت سے پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی عورت بازارِ حسن میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہو تو وہ بھی شرم سے زمین میں دھنس جائے لیکن اگر شرم نہیں آتی تو اسُ وکیل کو نہیں آتی جو یہ سب گھٹیا ترین سوالات اپنے دوسرے وکیل ساتھیوں کو آنکھیں مار مار کر اس عورت سے پوچھتا ہے مثلاً ریپ کیسے ہوا؟ کتنے آدمی تھے؟؟ کہاں کہاں ہاتھ لگایا؟ کپڑے کیسے اتارے گئے؟ کیا آپ نے اس سب کو انجوائے کیا؟ وغیرہ وغیرہ نہ اس جج کو شرم آتی ہے کہ جس کو ذرا ذرا سی باتوں پر توہین عدالت یاد آ جاتی ہے لیکن اسے توہین عورت پر ذرا سی بے چینی بھی نہیں ہوتی شرم نہیں آتی تو اس ڈاکٹر کو نہیں آتی کہ جو ان درندوں کو ذہنی مریض ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے، شرم نہیں آتی تو اس معاشرے کے لوگوں کو نہیں آتی کہ جو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر کسی بھی قسم کی تفصیل سے بے بہرہ ہوکر اس عورت کہ جس کا گینگ ریپ ہوا ہوتا ہے کو گشتی، رنڈی اور کرپٹ کہہ دیتے ہیں، شرم نہیں آتی تو ان لوگوں کو نہیں آتی کہ جو ان بچیوں سے اپنے لڑکوں کے رشتے توڑ دیتے ہیں یا وہ کہ جو غیرت کے نام پر ان بچیوں کو مار ڈالتے ہیں میری نظر میں یہ پورا معاشرہ بے غیرتی کے نام پر قتل ہوجانا چاہیے….
سوال یہ ہے کہ ہمیں عورت مقدم کیوں نہیں ہے ؟؟ میری نظر میں اس کا سیدھا سیدھا سا جواب ہے کہ پدرسری دنیا عورت سے، اس کی استطاعت اور صلاحیت سے، اس کے صبر اور دکھ جھیل جانے کی نا قابلِ تقلید طاقت سے شدید خوفزدہ ہے… مرد کہ جو اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہے اس سے یہ مانا نہیں جاتا کہ دراصل افضل مرد نہیں عورت ہے… اگر استاذی خالد سعید کے ایک جملے میں بات سمیٹ دوں تو “مرد دراصل نامرد ہوتا ہے” مرد کا مسئلہ برتری ہے جس کے ثبوت وہ ہر وقت اکھٹا کرتا رہتا ہے حالانکہ مردانگی اگر ہو تو ہزاروں سالوں تک جگمگاتی رہتی ہے یہ نا مرد ہی ہیں کہ جو ہر وقت اپنے آپ کو مرد ثابت کرنے کے لیے کبھی عورت کو گشتی اور رنڈی کہتے ہیں تو کبھی اپنی ہی بہن کی جائیداد ضبط کر لیتے ہیں، کبھی اس کو قرآن سے بیاہ دیتے ہیں تو کبھی اپنی معشوقہ کے چہرے پر تیزاب پھینکتے ہیں تو کبھی اس کو مار ہی ڈالتے ہیں کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ “مرد” ہوں، عزت کرنا جانتے ہوں، تمیز دار باپ کی اولاد ہوں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی عورت آپ سے محبت نہ کرے لیکن یہاں مرد کی کُل مردانگی اس شے میں پنہاں کر دی گئی کہ جس میں وہ سب سے برا ہے جس کا اعلان پاکستانی دیواروں پر چھپے اشتہارات دن رات کرتے ہیں…
یہ ہمارے ملک کے بیانیے کا بنیادی حصہ ہے کہ اس معاشرے میں موجود مردوں کی جنسی خواہش اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے کی جانے والی درندگی کو بھی عورتوں کے قصور کے طور پر پیش کیا جائے اگر لڑکی کو طلاق ہو جائے تو اس میں اسی کا قصور گنوایا جائے، ایک پانچ یا چھ سال کی بچی اغوا ہوکر کوٹھے پر بیچتا تو مرد ہے لیکن رنڈی وہی بچی کہلاتی ہے، یہ بھی پدرسری معاشرے کا بیانیہ ہے کہ جو عورت کوٹھے پر بیٹھی ہو وہ ویشیا اور جو مرد وہاں جاکر اس کو سگریٹ سے جلائے، شراب میں نہلائے، اس کا برہنہ ناچ دیکھے وہ معزز ہی کہلاتا ہے….
ہمیں نور مقدم نہیں ہے تبھی یہ معاشرہ اندھیرے میں ڈوبتا جا رہا ہے، ہمیں انسانیت مقدم نہیں ہے اسی لیے یہاں درندگی بڑھتی جا رہی ہے، ہمیں ماں مقدم نہیں ہے اسی لیے یہاں ظلم بڑھتا جا رہا ہے….
ایک مرد اور عورت میں اگر کسی نے فرق دیکھنا ہو تو وہ پہلے بورس جانسن، پیوٹن، طیب اردگان، محمد بن سلمان، مودی اور عمران خان کو دیکھے اور اس کے بعد نیوزی لینڈ کی جسنڈا کو دیکھے تو شاید اس تقابُل کے بعد اسُ کو کسی تحریر پڑھنے اور کچھ اور سمجھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ اس دنیا کو جہنم بننے سے بچانے کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ جو پیروں کے نیچے جنت رکھتی ہو…
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں