نور مقدم اور مسلم سماج۔۔آصف محمود

نور مقدم کے باپ نے ابھی اپنی بیٹی کے ٹکڑوں میں بٹے وجود کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ سوشل میڈیا کے’ اسلامسٹ ‘ نظریاتی کوڑا لہراتے ہوئے آ گئے ۔قاتل نے صرف سر کاٹا تھا ، ان داروغوں نے مقتولہ کے اخلاقی وجود کا قیمہ بنا دیا۔ صدمے کی کیفیت میں یہ سب دیکھا تو فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر راجر گراڈی یاد آ گئے،جو ایک طویل عرصہ اسرائیلی لابی کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں فکری جدوجہد کرتے رہے،ہولوکاسٹ کی نفی کرنے پر جیل کاٹی ، پابندیاں برداشت کیں اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ مغرب کے اخبارات و جرائد نے ان کی تحریریں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ایک وقت آیا انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ نو مسلم دانشور،راجر گراڈی لکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک مہلک بیماری آ گئی ہے اور میں لوگوں کی ناراضی کے خطرے کے باوجود اس بیماری کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوں ۔ راجر گراڈی کے نزدیک مسلمانوں کو لاحق یہ مہلک بیماری ’ اسلامسٹ‘ طبقہ ہے۔ان کے الفاظ ہیں : Islamism is a disease of Islam۔ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے لیکن اسلامسٹو ں کا رویہ ٹھیکیداری کا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے زیادہ یہ اپنی گروہ بندی کے تعصبات کے بارے میں حساس ہیں۔ عام زندگی میں دین پر یہ بھی اتنا ہی عمل کرتے ہیں جتنا دوسرے گناہ گار مسلمان لیکن جب بات کرتے ہیں تو لہجوں سے رعونت ٹپکتی ہے اور یوں لگتا ہے اسلام کی شرح و تعبیر کے جملہ حقوق ان کے نام محفوظ ہیں۔ شاید یہ ٹھیکیدارانہ رعونت ہی ہے جس کی وجہ سے اسلامسٹ کی اصطلاح میرے جیسے طالب علم کو کبھی متاثر نہ کر سکی۔ ہمیں اللہ نے مسلمان پیدا کیا ہے اور ہمارے لیے یہ شناخت کافی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ نور مقدم کے قتل نے سماج کو لرزا دیا لیکن ہمارے اسلامسٹ ہمدردی اور تعزیت کے دو رسمی بول نہ بول سکے اور الٹا طعنے دینے لگے ۔ مرحوم ولی خان قصہ سناتے تھے کہ دو لوگوں میں جرگے نے صلح کرا دی لیکن اس کے باوجود ایک بندے نے دوسرے کی ٹانگیں توڑ دیں۔ جرگے نے بلا کر پوچھا کہ جب صلح ہو چکی تھی تو تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ یہ خانہ کعبہ کی طرف ٹانگیں کر کے سویا ہوا تھا ، آپ ہی بتائیے اگر آج بھی میری غیرت ایمانی نہ جاگتی تو کب جاگتی؟ یہی کیفیت اسلامسٹوں کی تھی۔ لبرل طبقے میں ایک جرم ہوا تو اسلامسٹوں کے لیے یہ ایک ’ موقع‘ تھا اور وہ زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہے تھے اب بھی ہماری غیرت ایمانی نہ جاگی تو پھر کب جاگے گی۔ چنانچہ ایک محاذ کھول دیا گیا اور اگلے پچھلے حساب پورے کیے جانے لگے۔ دھڑے بندی اور عصبیت کی دنیا میں اس حرکت کا جواز ہو سکتا ہے ، مذہب کی دنیا میں اس رویے کا کوئی جوا نہیں۔ اسلام رد عمل کی کیفیت میں اخلاقی قدریں پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام مزاج کی تہذیب کرتا ہے اور خیر خواہی سکھاتا ہے۔اگر کسی کمزور لمحے میں کوئی شخص اس تہذیب اور خیر خواہی کی بجائے اپنے حساب پورے کرنا شروع کر دے تو اس رویے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ رد عمل کی بیمار کیفیت ہے جسے گروہی تعصب سے تو نسبت ہو سکتی ہے، اسلام سے نہیں۔ بات بڑی سادہ سی ہے۔ جرم ہوا ہے اور مجرم پر قانون نافذ ہونا چاہیے۔ جب کسی کی بیٹی کا سر کٹا پڑا ہو تو یہ وقت پرسہ دینے کا ہوتا ہے، اس کی بیٹی کے کردار پر حملہ آور ہونے کا نہیں۔ ویسے بھی اسلامسٹوں کو معلوم ہونا چاہیے کسی کے کردار پر انگلی اٹھانے کے لیے شریعت میں نصاب شہادت کیا ہے۔لیکن برا ہو اس گروہی عصبیت کا یہ کسی اصول ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتی۔یہ دوسری صف کو خیر خواہی سے مخاطب کرنے کی اہلیت سے محروم ہوتی ہے اور یہ ہر وقت تصادم اور مجادلے کی نفسیات کا شکار رہتی ہے۔یہ ایک اسلامسٹ کا رویہ تو ہو سکتا ہے،اچھے مسلمان کا نہیں۔ لبرل طرززندگی پر تنقید کے اور بہت مواقع آتے رہیں گے لیکن جب کسی کے صحن میں لاش رکھی ہو اس وقت یہ رویہ مناسب نہیں ہوتا۔ دعوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے اس پر بہت اچھا لکھا تھا کہ ایک داعی میں کیا اوصاف ہونے چاہییں۔ لیکن اسلامسٹ بنیادی طور پر داعی کا نہیں حریف کا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ صف بندی کی حالت میں رہتا ہے۔وہ نفرتوں کا بڑھاتا ہے اور خلیج کو پاٹنے نہیں دیتا۔ یقینا دوسری طرف بھی یہی حال ہے لیکن جنہیں اسلام کا دعوی ہے ان کا کردار میں اخلاقی برتری کا ہونا بہت ضروری ہے۔ انہیں سراپا خیر ہونا چاہیے۔ اگر مگر اور تاویلات کے ذریعے ہم قاتل کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہوتے ہیں۔ فرض کریں مقتولہ کا رویہ ہماری مسلمہ اخلاقیات کے مطابق نہیں تھا ( اگر چہ ہمیں یہ فرض کرنے کا بھی کوئی اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے) تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رویہ قتل کا جواز سمجھ لیا جائے؟اگلے ہی روز راولپنڈی میں ایک خاتون سے عصمت دری کی کوشش میں اس کے چند ماہ کے معصوم بچے کو قتل کر دیا گیا اور وہ بچے کے لاشے پر بیٹھی رو تی رہی ( بعد میں سنا ہے وہ خود بھی جاں بحق ہو گئی) تو کیا کوئی اسلامسٹ ، کوئی ثنا خوان تقدیس مشرق بتائے گا کہ اس عورت نے کون سا ’’ لبرلانہ ‘‘ طرززندگی اختیار کیا تھا کہ درندگی کا شکار بنی؟ اس کے تو کپڑے بھی پورے تھے اور وہ پارٹیوں میں بھی نہیں جاتی تھی؟ معاشرے میں خواتین کے خلاف جرم بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اور ہم جرم سے نفرت کرنے کی بجائے اپنی ساری توانائیاں مجرموں کے فکری پس منظر کی ہجو میں برباد کر دیتے ہیں۔ سیاسی اور فکری ہر دو طرح کی پولرائززیشن بڑھتی جا رہی ہے۔معقول بات کہنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں اور مقبول بات کہنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔کیا ہمیں احساس ہے ہم کتنی تیزی سے ایک خوفناک گڑھے کی سمت بڑھ رہے ہیں؟ ہمارے یہی رویے ہیں کہ راجر گراڈی جیسا شعوری مسلمان بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ : Islamism is a disease of Islam۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply