کپل کونسلنگ کیوں ضروری ہے؟۔۔تنویر سجیل

رشتہ ازدواج کا بندھن بھی کتنا مضبوط ہے کہ ایجاب کے تین بول دو اشخاص کو اک ایسی ڈوری سے باندھ دیتے ہیں کہ وہ تاعمر اپنی ساری توانائی اور کمائی اس تعلق کی خوبصورتی اور پائیداری کے لیے لگا دیتے ہیں تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو حیرت بھی دم سادھ لے کہ تین بول سے شروع ہوتا یہ مضبوط تعلق اتنا بودا ہے کہ صرف تین بول ہی اس کو  توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ پل بھر میں برسوں کی رفاقت دھری کی دھری رہ جاتی ہے، وہ جو تین بول سے اک قالب دو جان ہوئے تھے،صرف تین بول سے ہی اک دوسرے کے لیے انجان ہو جاتے ہیں ۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ کون سے ایسے محرکات ہیں ؟ ایسی کون سی خودغرضی کے بادل چھا جاتے ہیں؟ کیا یہ قسمت کے کھیل ہیں یا ہماری نظراندازی اور کوتاہی ہے؟ سوال تو اور بھی ہو سکتے ہیں مگر ضروری یہ ہے کہ آخر رشتوں کے بکھرنے کو کس طرح سے روکا جائے۔

ازدواجی زندگی ہماری زندگی کا وہ سفر ہے جو خواہشات اور ذمہ داریوں سے اٹا ہوا ہے جب بھی دو لوگ اس رشتے کی ڈوری سے بندھتے ہیں تو دراصل یہ دو لوگوں کا نہیں بلکہ دو خاندانوں، دو شخصیتوں ، دو مزاجوں اور دو مختلف قسم کے حالات و واقعات  میں زیرِ اثر پرورش پائی ہوئی  شخصیتوں کا ملن ہوتا ہے، جس کے پس منظر میں برسوں کی پروان چڑھی عادات اور رویوں کی کارسازی بھی ہوتی ہے ۔

عام طور پر ہمارے ہاں دو بالغ افراد کو خاندان کے لوگ رشتہ ازدواج کے لیے منتخب کر لیتے ہیں، شادی کے ابتدائی ایام چونکہ سحراتی تاثر کے ساتھ گزر جاتے ہیں تو تب تک نئی ذمہ داری کا احساس نہیں ہو پاتا ،جیسے ہی کچھ عرصہ گزرتا ہے تو دونوں پارٹنرز اپنے اپنے مصنوعی خول سے باہر نکل کر اپنی پہلے سے بنی ہوئی عادات اور رویوں کی پٹڑی پر چلنا شروع کر دیتے ہیں اوریہی وہ روش ہے جو دونوں کے درمیان اختلافات کو جنم دیتی ہے ۔

لڑکی اگر ہاؤس وائف ہے تو تمام دن گھر پر کڑھ رہی ہوتی ہے اورطرح طرح کے واہموں، خدشوں کے دھاگے سے خوف بن رہی ہوتی ہے اگر لڑکی پروفیشنل لیڈی ہو تو کولیگز طرح طرح کے مصالحوں سے اسکی ذہن سازی کر رہی ہوتی ہیں۔ دوسری طرف شوہر بھی خاندان اور دوستوں کے بے تکے ، جاہلانہ مشوروں کی بیساکھی کاسہارا لیکر زوجہ محترمہ کو قابو کرنے کے پھندے بُن رہا ہوتا ہے۔ آپ ذرا تھوڑا تصوراتی طور پر اس تمام صورت حال کا اندازہ کریں تو آپ کو لگے گا کہ اس سے بڑی دلچسپ ٹریجیک کامیڈی نہ ہو گی۔

شادی کے ابتدائی چند ماہ شاید کسی نہ کسی طور پر ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے اور ایڈجسٹ کرنے کے چکر میں گزر ہی جاتے ہیں ۔ اس دوران ہو سکتا ہے کہ ایک دو بچے بھی پیدا ہو جائیں مگر صورتحال تب بگڑنا شروع ہوتی ہے جب دونو ں پارٹنرز کے درمیا ن اختلافات اتنے سنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی میلو ں کے جذباتی فاصلے پر چلے جاتے ہیں یہ جذباتی خلیج آہستہ آہستہ اپنا وار جاری رکھتی ہے اور دونوں پارٹنرز کو لگنے لگتا ہےکہ دوسرا ہی غلط ہے اور اس کو وہ کبھی بھی سمجھا نہیں سکے گا ۔ بے بسی کی یہ کیفیت اکثر ان کو ایسے لایعنی مسائل کے بھنور میں الجھاتی ہے کہ وہ ہر معاملے کو ایک مخصوص جب کہ غلط نظریے کی عینک سے دیکھنا شروع کرتے ہیں اور لاشعوری طور پر ایک ڈیڈ لاک کی طرف قدم بڑھاتے ہیں جس کی منزل طلاق یا علیحدگی ہوتی ہے ایسے میں دونوں اطراف کے خاندان بھی سٹار پلس ڈرامے کے کرداروں کی طرح اپنا کردار نبھاتے ہیں ۔چہ جائیکہ وہ کسی طور معاملات کی سنگینی کا تخمینہ لگا کر اس کے موثر حل کے لیے کوئی سلجھاؤ والا عملی اقدام کریں ۔

ازدواجی معاملات کے بگاڑ میں مدد لینے کےرجحانات پر نظر دوڑائیں تو یہ بات ہمارا منہ چڑانے کے لیے کافی ہے کہ اچھے خاصےپڑھے لکھے مردو زن کسی کرامت یا معجزے کے چکر میں کسی پیر فقیر عامل بابا کے پائے اقدس یا تعویذو عملیات کے جھولے پر جھول رہے ہوتے ہیں ۔ مطلب اپنی عقل کا ماتم کرنے کے ان تمام مراحل سے گزر جاتے ہیں جو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کا سبب بنتے ہیں ایک بات جو عام طورپر بہت نظر انداز کی جاتی ہے کہ شادی دراصل دو اشخاص کے ملن کا نا م ہے ان دو اشخاص کے ذہین سے پھوٹتی سوچ اور جذبات کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے احساس کا کرنٹ ہوتاہے جو ان کی  عادات اور رویہ جات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جب دونوں پارٹنرز اختلافات کی زد میں آتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ ان کے رجحانات میں کوئی بنیادی فرق ہے جس کو وہ سمجھ نہیں پا رہے اور اپنی انا اور دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے چکر میں وہ جذباتی دوری کی طرف چلے جاتے ہیں ۔

الجھاؤ کے اس مقام پر اگر وہ کسی ماہر نفسیات یا کونسلر سے رجوع کریں تو مسائل کے حل میں ممکنہ کامیابی زیادہ ملے اور یہ جذباتی خلیج کبھی بھی ان کو کسی ڈیڈ لاک کی بند گلی تک نہ لے جائے۔ چونکہ ہمارے مزاجوں  میں یہ بات شامل ہو گئی ہے ہم صرف اپنی سوچ کو ہی درست سمجھیں اور ازدواجی معاملات کے سلجھاؤکے لیے ریلشن شپ سپیشلسٹ یا میرج کونسلر سے رابطہ نہ کریں۔

اس بات کو ہر خاص و عام کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب دل کے کسی عارضے میں مبتلا شخص کا بہتر علاج کوئی جگر سپیشلسٹ نہیں کر سکتا ویسے ہی ازدواجی معاملات کے بگاڑ بننے والے محرکات جیسے کہ سوچ کے جامد مخصوص انداز، جذبات کے اظہار کےغیر مناسب اطوار ، مزاج کی تندی و تلخی اور رشتے نبھانے کے ہنر سے نا واقفیت کا حل بھی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو انسانی نفسیات اور جذبات کا ماہر ہو۔

جدت کی خاک میں اڑتی زندگی نے انسانی نفسیات کو اتنا پیچیدہ اور سوچ کو اتنا غیر حقیقی کر دیا ہے کہ اس بات کا ادراک کرنا مشکل ہو جاتا ہے کپلز کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے رہنا چاہیے ایسےکون سے شخصی عنا صر جو کسی بھی جوڑے کی کامیاب ازدواجی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ان سب سوالوں کے جواب صرف وہی شخص دے سکتا ہے جو کپلز کی پرسنل امپروومنٹ اور کپیسٹی بلڈنگ میں مدد کر سکتا ہو اور ساتھ انٹرپرسنل اور انٹراپرسنل معاملات پر بہتر مشاورت دے سکتا ہو۔

چونکہ ماہر نفسیات ایک تربیت یافتہ شخص ہوتا ہے اور اس کی دسترس سوچ ، جذبات اور رویہ جات پر ہوتی ہے اس لیے کسی بھی معمولی رنجش، تعلقات کی خرابی یا سسرالی مداخلت میں اسکی مشاورت معاملات کے مزید بگاڑ سے بچالیتی ہے اور ازدواجی زندگی کو بہتر سہارا فراہم کرتی ہے ۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ازدواجی معاملات کے بگاڑ کے پس منظر میں ایسے محرکات ہوتے ہیں جن کا تعلق انسانی شخصیت کے عدم توازن ، کمیونیکیشن گیپ، جذباتی عدم دستیابی اور رشتوں میں موجود مناسب دائرہ بندی کے فقدان سے ہوتا ہے ایسے میں کپلز اگر ابتدائی طور پر فیملی اور فرینڈزکی مشاورت سے سنبھال لیں تو اس سے بہتر عمل اور کوئی نہ ہو گا۔

مگر جب محسوس ہو کہ بات ہاتھ سے نکل رہی ہے اور معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں اور اک ایسی صورتحال بن رہی  ہے جو کپلز کو علیحدگی یا طلاق کی طرف لے جا رہی ہے تو اس وقت عام لوگوں سے مشاورت لینے کی بجائے پروفیشنل ہیلپ کو ترجیح دینی چاہیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹی سی بات یا جھگڑے پر نان پروفیشنل لوگوں کی مشاورت ، انکی غلط ڈائریکشن اور غیر ضروری غلط سپورٹ سے اس حد تک بات بڑھ جاتی ہے کہ کپلز جذباتی ہو کر غلط فیصلہ لے لیتے ہیں پھر عمر بھر پچھتاوے میں گلتے رہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں چونکہ کپل کونسلنگ اور فیملی کونسلنگ اتنی مشہور نہیں ہوئی جس وجہ سے لوگ اس کی طرف اتنا متوجہ نہیں ہیں اور ایسے لوگوں سے مدد لیتے ہیں جن کا انسانی سوچ، جذبات اور تعلقات کی دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے جس کے سبب وہ مزید مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے دنیا جدید ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے ہمارے مسائل بھی جدید ہو گئے ہیں اس لیے اب زیادہ ضروری ہو گیا ہے مسائل کے حل کے لیے بھی دقیانوسی ٹونے  ٹوٹکو ں کی بجائے جدت کی آغوش میں پلنے والے نئے علوم سے استفادہ حاصل کریں ۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply