کپاس (18) ۔ کاٹن مِل/وہاراامباکر

کاٹن مِل بہت اقسام کی تھیں لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ یہ بہتے پانی کے ساتھ بنائی جاتی تھیں۔ اس سے توانائی حاصل کرنے کے لئے یا تو بند بنایا جاتا تھا یا دریا کے سلوپ کو کاٹ کر اس سے پانی کا پہیہ گھمایا جاتا تھا۔ اس کا شافٹ پورے کارخانے کی لمبائی میں جاتا تھا۔ اس پر چمڑے کی بیلٹ چڑھی ہوتی تھیں جن کے ذریعے مشینیں چلائی جاتی تھیں۔ اس کارخانے میں مشینیوں کا پیچیدہ اکٹھ ہوتا تھا اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ کارخانے بڑے سائز کے ہونے لگے تھے۔ دو سو فٹ لمبائی، تیس فٹ چوڑائی اور چار سے چھ منزلہ کارخانے دریاوں اور ندیوں کے ساتھ پھیلے تھے۔
دھاگے کی پیداوار تین مراحل میں ہوتی تھی۔ willow، card، spin۔
پہلے مرحلے میں عام طور پر خواتین کام کرتی تھیں۔ اس میں خام کپاس کو میز پر بکھیرا جاتا تھا اور اسے کوٹ کر اس میں سے پتے، شاخ یا مٹی نکالے ماتے تھے جو اس سے پہلے اوتنے کے وقت رہ گئے تھے۔ اس میں اتنی دھول اور ذرات اڑتے تھے کہ اس کو فیکٹری کے ساتھ کی عمارت میں کیا جاتا تھا۔
صاف ہو جانے کے بعد اس کی متوازی روشوں کو کھینچا جاتا تھا۔ پہلے اس کو کارڈنگ انجن میں ڈالا جاتا تھا۔ دھاتی دانتوں والا گھومتا سلینڈر تھا۔ اس سے الجھے ریشے سلجھ جاتے تھے۔
اس کے بعد اس کو ڈرا فریم میں ڈالا جاتا۔ یہ رولر تھے جن میں اس کے ریشوں کو گزارا جاتا۔ کھینچا اور گھمایا جاتا۔ اب یہ کاٹن سپن ہونے کے لئے تیار تھی۔
سپن کرنے والی مشینیں اوپر کی منزلوں پر ہوتی تھیں۔ یا تو یہ واٹر فریم تھا۔ یا پھر بعد میں کرومپٹن کا میول۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مشینری کو چلانے کے لئے اور کاٹن کو فیکٹری میں ایک مشین سے اگلی میں لے جانے کے لئے سینکڑوں لوگ کام کرتے تھے جس میں بچے اور خواتین بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ اجرت پر ہونے والا کام تھا۔ اور یہ ایک اور نئی جدت تھی۔ اس سے پہلے محنت کو بڑے پیمانے پر منظم اور سپروائز کرنے کا طریقہ غلامی کا رہا تھا یا جبر کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین میں یہ مشینیں اس سے صدیاں پہلے بن سکتی تھیں۔ تیرہویں اور چودہویں صدی میں چینی ہنرمندوں نے ایسے ڈیزائن بنائے تھے۔ لیکن نہ ہی چین، نہ ہی انڈیا اور نہ ہی پروشیا (جرمنی) کے پاس کپاس کی عالمی پروڈکشن کامپلکس کا کنٹرول آ سکا۔ اس پیچیدہ صنعت کے لئے مواقع یہاں پر کبھی اس طریقے سے نہیں بنے۔
ہندوستان اور چین میں کسان اپنی زمین پر خوش تھے۔ خواتین کا گھر سے باہر کام محدود تھا جس وجہ سے کاتنے کا کام گھر میں خواتین کرتی تھیں اور اس کو “مفت” یا کم قیمت سمجھا جاتا تھا، جس وجہ سے نئی ٹیکنالوجی کی ترجیح زیادہ نہیں تھی۔
برطانوی کسان کی غربت، دیہات میں کام کی کمی، خواتین کا معاشرتی کردار وہ عوامل تھے جو ہندوستان اور چین میں مختلف تھے۔
غلام بنائے بغیر مزدوری کو منظم کرنا اور اس پیداوار کو مانچسٹر کے دریاوٗں کے کناروں پر پھیلا دینا صنعتی انقلاب میں ہوا۔ 1833 میں گریگ کے پاس پانچ ملیں تھیں جن میں 2084 مزدور کام کرتے تھے۔ رابرٹ پیل 1795 میں تئیس مختلف کارخانے لگا چکے تھے۔ نئے صنعتکار میدان میں آ رہے تھے۔ ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے طریقوں کی جدتیں بھی شامل تھیں۔
ایسے صنعتکار جن کے پاس سرمایہ نہیں تھا، وہ بھی اس میں شامل ہوئے۔ آئرش تاجر ولیم ایمرسن نے جوائنٹ سٹاک سے مل لگائی۔
فیکٹریاں بڑھتی گئیں لیکن یہ بڑی نہیں تھیں۔ صنعتکار اتنے امیر نہیں تھے جتنے لیورپول کے تاجر یا سمرسٹ کے جاگیردار یا لندن کے بینکار۔ ستر فیصد کارخانوں کی ویلیو 2000 پاونڈ سے کم تھی۔
کارخانے لگانے والوں میں ہر قسم کے لوگ تھے۔ کچھ تجارت سے اس طرف آئے تھے، کچھ کاشتکاری چھوڑ کر۔ کچھ دوسری صنعتوں سے۔ کچھ ہنرمند تھے، کچھ مزدور بھی۔ الکانا آرمیٹیج جیسی مثالیں بھی تھیں جنہوں نے آٹھ سال کی عمر میں ہیلپر کے طور پر کام شروع کیا تھا اور انسٹھ سال بعد ان کے لگائے گئے کارخانے میں 1650 ملازم کام کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں کاٹن کی صنعت معیشت کا مرکزی حصہ بنتی گئی۔ یہ منافع بخش تھی اور تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اس کے عروج نے نئی صنعتوں کو جنم دیا۔ ریلوے نیٹ ورک۔ لوہے کی صنعت اور پھر انیسویں صدی میں نئی اقسام کی صنعتیں۔ انیسویں صدی کے وسط تک صنعتی انقلاب صرف کپاس کی ہی کہانی تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply