روسی تاریخ کا عظیم کردار۔۔سلمیٰ اعوان

یہ پیٹرز برگ تھا۔اور میں اس کے شہرہ آفاق محل پیٹر ہاف کے گریٹ پیلس کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہورہی تھی۔ کچھ یاد آیا تھا۔
Peter hof is the Russia’s answer to versailles.
ابھی میں نے فرانس کے لوئی پائنز دھم کاورسائی محل نہیں دیکھا تھا۔ اسلئے میرے لئے تقابل کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ہاں البتہ رُوسیوں کے ہاں جس اعتماد کا اظہار تھا وہ یقیناً حقیقت سے لگاّ کھاتا ہوگا۔
مرکزی زینے پر قدم رکھے۔بھونچکی سی ہو کر میں نے چاروں طرف دیکھا تھا۔ سچی بات ہے ونٹر پیلس کی خوبصورتیاں تو اسکے آگے پانی بھرتی تھیں۔
یہ سات فٹا پیٹراعظم کیا شے تھا۔ایک غیر معمولی طاقتور،فطین،ہٹیلا، سرکش، کھیڈن کو مانگے چاند جیسی خواہش سر میں سمائے تو آسمان سے تو ڑ کر اپنے سامنے ڈھیر کرلے۔پہلے شہر بسایا اُسے محلوں پارکوں سے سجایا۔اور پھر پیٹر ہاف بنا کر اس میں تارے ٹانک دیئے۔
سب سے پہلے میں پیٹر دی گریٹ کا ذاتی کمرہ دیکھنے کی خواشمند تھی۔
کمروں، ملحقہ راہداریوں پر ایک طائرانہ سی نگاہ ڈالتے ہوئے قدموں کی تیزی کے ساتھ ساتھ دماغ کی پوٹلی سے رات کا پڑھا ہوا مواد باہر آنے لگ گیا تھا۔
قد وقامت بھی غیر معمولی تھی اور صلاحتیں بھی۔پر زار بننے کے لئے اُس کا نام زیر غور نہیں تھا۔ شاید اسی لئے رائل فیملی نے اُس کی تربیت میں اُن طور طریقوں کا قطعی خیال نہ کیا جو جانشین زار کیلئے وضع تھے۔ماسکو میں اُسکا زیادہ وقت غیر مُلکیوں خاص طور پراطالویوں کے ساتھ گذرا۔
آغاز میں اُس نے جنگ لڑنے اور جیتنے کا آرٹ سیکھا اور زار بننے کے بعد اُسنے یورپ جاکر بے شمارعلوم میں مہارت حاصل کی۔ یہ کسی رُوسی زار کیلئے پہلا واقعہ تھا۔واپس آکر اُسکا پہلا کڑاوار آرتھوڈکس چرچوں پرپڑا۔چرچوں کی گھنٹیاں پگھلا کر توپیں بنوائیں۔انہیں قومی تحویل میں لینے کے ساتھ اُسنے داڑھیوں پر بھی پابندی لگائی۔
”اِن داڑھیوں کے ساتھ یقیناً کوئی مسئلہ ہے۔ شاید لوگ آپے میں نہیں رہتے۔“ رات پڑھتے ہوئے مجھے بے اختیار ہنسی آئی تھی۔
رُوسی قوم کوحروف ابجد،قانون، زبردست بحری اوربرّی قوت، زرعی شبعوں کو ماڈرن ازم اور بھاری صنعتوں کا تحفہ دیا۔
ٹیکسوں کانظام وضع کیا اور دنیا بھرسے ماہرین کو بُلا کر بالٹک کے کناروں پر نئے شہر کی بنیاد رکھی جو اُسنے سویڈن سے جنگ میں جیتی تھی۔وہ اسے جدید روس کا ایک ماڈرن شہر بنانے کا آرزو مند تھا۔ مشرقی رحجانات سے اُس نے اپنی فوج اور قوم کو مغربی ترقی پذیر سانچوں میں ڈھالنے کی سرتوڑ کوشش کی۔
لیکن اِن سب کے ساتھ ساتھ وہ کیسا انسان تھا۔ایک طرف محبت کی انتہا پر پہنچا ہوا۔وہیں بے رحم، ظالم،اپنے اکلوتے بیٹے الیکسی کاقاتل۔ یقیناً شہنشایت کے لئے پتھر کے کلیجے کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔تاہم وہ تاریخ رُوس کا طاقتور ترین اور زبردست زار تھا۔
میں اُس کے ذاتی کمرے میں کھڑی ہوں۔ میری نظریں اُس کے دلکش پورٹریٹ پر جمی ہوئی ہیں۔ ایک تو اس کی گھائل کرنے والی شخصیت، اُوپر سے رُوسی ملٹری یونیفارم کی دلکشی۔
کمرے کی زیبائش زیادہ تر شاہ بلوط کی لکڑی سے ہوئی ہے۔
میز پر پَر والا قلم، کتابیں، گھڑی، قلم، دوات سجے ہیں۔ یہ اُس کی مختلف النوع سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ مطالعہ، آرام، ملاقاتیں،ریاستی امور پر بحث مباحثے سب یہیں ہوتے تھے۔
ابھی کچھ ہی دیر پہلے Throneروم میں اس عورت کا مجسمہ اور اس کی تصویریں دیکھ کر آئی ہوں جو اس کے دل کی ملکہ تھی۔
کیتھرائن پیٹر کا پیار تھا۔ اُس کی محبت تھی۔ وہ اُس کی محبوبہ تھی۔ عام سے لیتھونیئن(Lithunian)کِسان کی بیٹی جو مقدّر کی ملکہ تھی۔ رُوس نے 1702ء میں میرئین برگ (Marien burg) پر قبضہ کیا۔ یہ جنگی قیدیوں کے طور پر فوج کے ہاتھ لگی۔ دراز قامت انتہائی حُسن وجمال کی مالک، خود اعتماد اور حاضر جواب لڑکی کا نام مارتھا تھا۔تیز طرّار اس لڑکی کو پیٹر دی گریٹ کے دستِ راست الیگزینڈر فیشکووکے حوالے کر دیا گیا۔
کہیں پیٹر نے اُسے دیکھا تو جی جان سے عاشق ہو گیا۔ محبت کا کچھ یہ حال ہوا کہ روز اُسے خط لکھتا،اور جواب لیتا۔ ملاقاتیں بھی کرنے لگا۔ بچہ ٹھہر گیا۔ بچے کی پیدائش کے بعد اُسے آرتھوڈکس چرچ لایا گیا۔ دوبارہ عیسائی کرنے کے بعد کیتھرائن الیکسوونا (Alekseyvna)کا نام تجویز ہوا۔
دلیر او ر بہادر عورت تھی۔ ذہین اور سمجھ دار تھی۔ جانتی تھی کہ اُس کے کمزور پہلو کون سے ہیں۔ اُس کے غصّے کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ ہر کڑے وقت اُس کے ساتھ رہتی حتٰی کہ تُرکوں کی جانب سے ایک یلغار کے دوران انتہائی عقلمندی سے اُس نے پیٹر اور رُوسی سلطنت کو بچایا۔ گیارہ بچوں کو جنم دیا جن میں سے صرف دو لڑکیاں بچیں۔
یہ فروری کے دن تھے اور سن 1718 ء کا جب پیٹر اعظم اپنے بیٹے الیکسی کو یہاں لایا۔اٹھائیس سالہ اکلوتا الیکسی جسکے ساتھ اسکے ڈھیر سارے ساتھی بھی تھے۔باپ کی اصلاحات کے خلاف سازشوں اور ریشہ دواینوں کے جرم میں۔
دفعتاً میں ایک تصویر کے سامنے رک گئی تھی۔ پُراسرار سا نیم تاریک کمرہ،جس کے وسط میں دھری میز پر ایک سُرخ بڑے بڑے پھُولوں والے قالین نما کور پر پیٹر دی گریٹ کی ٹوپی، پروں والا ایک قلمدان اور چند کاغذات پڑے ہیں۔میز کے سامنے کُرسی کا رُخ میز کی سمت سے موڑ لیاگیا ہے۔ اس کُرسی پر پیٹرتنگ مہری کی براؤن پینٹ پہنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا ہے۔ سامنے میز کے ساتھ بیٹاکھڑا ہے۔اُبھری ہوئی غیرمعمولی چوڑی پیشانی، ساڑھے چھ فٹی قامت پر دُبلا پتلا جسم۔ نگاہیں جھکی ہوئیں اور چہرے پر مسکینی کا پورا جام انڈیلا ہوا۔پر باپ کا اندازدید. اس نگاہ میں کیا کچھ نہ تھا۔مصور نے اُسکی پوری شخصیت اُن ترچھی نگاہوں میں سمو دی تھی۔
اور سچ تو تھا کہ بس اُسکا یہ انداز ہی اس پوری تصویر کی جان تھا۔
یہاں تحقیق ہو رہی تھی۔ سازش بے نقاب ہوگئی تھی۔وہ سازش جسمیں بیٹا باپ کی اصلاحات کا مخالف ہو کر اُسکے خلاف مورچہ بند ہورہا تھا۔بیٹا اور ساتھی پکڑے گئے تھے فوٹریس کے ٹارچرسیل میں درد ناک اذیتوں کے بعد باپ کی موجودگی میں بیٹے کو پھانسی کے گھاٹ پر چڑھا دیا گیا تھا۔
آہ یہ قصے تاج وتخت کے ماضی اور حال کے۔یہ زندہ حقیقتیں،یہ سچے افسانے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply