عشق بادشاہ۔۔صغریٰ صدف

ہر طبقۂ فکر علم کے حصول کے لئے خاص اصول مرتب کرتا ہے۔ یہ اصول اس کے زاویہ نگاہ سے وضع ہوتے ہیں۔ عقل کی بڑائی کے قائل تجربے کو اہمیت دیتے ہیں۔ سائنس ظاہر، حواس اور تجربے کی محتاج ہے، اس کی لیبارٹری خارجی اشیاء سے مزین ہے۔
صوفی یقین کی راہ کا مسافر ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے پہلے اپنے مرشد کی بات پر یقین کرتا ہے، اس کی نظروں سے دیکھتا ہوا ذات کی تطہیر کرتا ہے پھر دل کی جانب راغب ہوتا ہے اور اسے آئینہ بنانے کا جتن کرتا ہے جسے صوفیانہ زبان میں ریاضت اور چلہ کہتے ہیں۔ صوفی علم کی تین سطحوں پر یقین رکھتا ہے۔ تین منزلیں یا سطحیں علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہیں۔ کہیں دور سے دُھواں اٹھتا دیکھ کر اندازہ لگانا بلکہ یقین کرنا کہ وہاں آگ جل رہی ہو گی علم الیقین ہے۔ اپنے سامنے جلتی آگ دیکھنا عین الیقین اور آگ کو چھو کر تپش محسوس کر کے یقین کرنا حق الیقین ہے۔ پہلی سطح حواس کی سطح ہے جسے علم الیقین کہا جاتا ہے۔ یہ عام سطح ہے اور لوگوں کی اکثریت اس سطح پر زندگی گزار دیتی ہے۔ اگلی سیڑھی کی جانب پیش قدمی کو ضروری نہیں سمجھتی۔ صوفی عین الیقین کی منزل پر ہوتا ہے اس کا واسطہ بیک وقت طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی دنیا سے استوار رہتا ہے۔ وہ ظاہری اشیاء سے بھری مادی دنیا کی طرح باطنی دنیا کی سیر بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے دل کو اس طرح چمکاتا ہے کہ وہ آئینے کی طرح شفاف ہو کر خدا کے جلوؤں کی جھلک دکھانے لگتا ہے۔ صوفی کے علم میں حواس اور عقل شامل ہوتے ہیں لیکن وہ ابتدائی حیثیت رکھتے ہیں۔ صوفی عقلی علم کو زمینی علم کہتا ہے جس میں مادی اشیاء شامل ہیں جبکہ وجدانی اور وحی آسمانی علوم ہیں جو مادی اشیاء یا علت و معلول کے محتاج نہیں۔ وحی نبیؐ کا درجہ اور خاصہ ہے۔

عقلی علوم محدود جبکہ وجدانی علوم لامحدود ہوتا ہے۔ صوفی کے ساتھ ساتھ ہر انسان وجدانی علم سے مستفید ہو سکتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی حد تک ہر فرد وجدانی عِلم تک رسائی رکھتا ہے اس لئے کہ ہر فرد میں روح ہے، روح کا خاصا وجدان ہے جس کا مصدر روحِ مطلق ہے۔ روح انسان کے دل و دماغ اور خواب میں اپنا اثر دکھاتی اور اپنی جانب راغب کرتی رہتی ہے۔ صوفی کو عطا ہونے والی ولایت خُداداد ہوتی ہے لیکن فرد کوشش کرے تو وہ بھی ایک خاص حد تک وجدانی راستے پر جا سکتا ہے جہاں اس پر مختلف راز و اِسرار منکشف ہوتے ہیں لیکن ان کو سنبھالنا، برداشت کرنا بلکہ جذب کرنا اصل مسئلہ ہے۔ یہ رستہ گہری مشقت اور ریاضت کا متمنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف میں مرشد کی رہنمائی بہت ضروری سمجھی جاتی ہے۔
نفسیات دانوں نے روح کی اہمیت اور رہنمائی کی بڑائی کے حوالے سے بات کی ہے۔ جیسے یونگ اپنی آپ بیتی میں یادوں، خوابوں اور تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے بہت جلد یہ احساس ہو گیا تھا کہ زندگی کی الجھنوں اور مسائل کا حل روح کے نہاں خانے میں پوشیدہ ہے اور یہ الجھنیں شاید ہوتی ہی اسی لئے ہیں کہ انسان سوچ کا زاویہ بدلے۔ یوں عقل اور وجدان دو طریقے ہیں جن سے حیات اور کائنات کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عقل کی تار کا سرا دماغ اور وجدان کا دِل سے جڑا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقل کا آقا دماغ اور وجدان کا بادشاہ دِل ہے۔ دل بادشاہ کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ دماغ کی طرح ضابطوں کا محتاج نہیں بلکہ ضابطے ترتیب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عقل دلیلوں کی الجھی تاروں کو سلجھانے کا جتن کرتی رہتی ہے۔ اس کی حدود محدود ہیں اس لئے وہ کائنات کی چار دیواری کے اندر سر کھپاتی بلکہ سر ٹکراتی رہتی ہے۔ عقلی علوم کَسبی علوم کہلاتے ہیں جنہیں سیکھا جا سکتا ہے۔ عقل کو ظاہری حروف اور دیگر اشیاء کی ضرورت ہے جبکہ وجدان کا علم وہبی ہے جو روح کے اندر ہے، دل کے اندر ہے، وجود کے اندر ہے بس اسے کھوجنا ہے۔ عقل کا ادراک حد کا محتاج ہے، دل کا وجدان کسی حد کا محتاج نہیں اس لئے صوفی وجدان کی راہ اختیار کرتا ہے، وجدان کو وسیلہ کرتا ہے۔ جسم کی دو آنکھوں سے روح کی ایک آنکھ وجدان زیادہ معتبر ہے۔ وہ اشیاء کے ظاہر کے ساتھ ان کے اندر موجود ربط بھی دیکھ لیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر وہ ظاہری قمقموں میں مدہم پڑتی حقیقت پر اندر کی ٹارچ کا استعمال کرے تو الجھے سِرے ازخود سلجھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ روح نُور ہے اور نُور طاقت ہے تاہم عقل اور وجدان ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ دونوں ایک وجود میں اپنا اظہار کرتے ہیں مگر دونوں کی حدود اور طریقۂ واردات مختلف ہے۔ انسان صاحبِ بصیرت اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ ظاہری بصارت کے ساتھ ساتھ باطنی دانش کو شامل کرے۔ مولانا روم عقل کو عشق کا ہمنوا کہتے ہیں لیکن آخری منزل پر صرف عشق براجمان ہے۔ مولانا روم عشق اور عقل کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقل انسان کی ہمنوا ہوتی ہے لیکن جب وہ تجھے عشق کے دَر پر لے آئے تو عقل کو الوداع کہہ اور خود کو عشق طبیب کے حوالے کر دو۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply