• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ہم جنس پرستی کا ہمارے مذہبی مدارس اور سیکولر تعلیمی اداروں میں وجود کا تحقیقی و علمیاتی تجزیہ: / حصہ دوم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی کا ہمارے مذہبی مدارس اور سیکولر تعلیمی اداروں میں وجود کا تحقیقی و علمیاتی تجزیہ: / حصہ دوم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

عوامی پاپولر ازم کیا ہے یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ عوام کا نام لیکر کیا کیا کام سرکاری سطح پر کئے جاتے ہیں،حالانکہ اس قسم کے رجحانات کے اسیر و عامل کل دنیا میں چاہے وہاں جنسی روابط ناجائز صورت میں کسی بھی سطح پر کیوں نا ہوں بہت قلیل تعداد میں ملتے ہیں۔

یہ الزام دینا کہ سب لبرل سیکولر  ہم جنس پرستی کے اسیر و مداح  ہوتے ہیں اور اسکی حمایت کرتے ہیں ،درست نہیں ہے،نا تمام لبرل اور سیکولر مذہب مخالف ہوتے ہیں اور نہ  کُلی طور پر مذہب لبرلازم و سیکولرازم  پر کاربند ہوتے ہیں ،بلکہ انکے برعکس  نہ  ہی تمام مسلمان ،تمام اساتذہ کرام  اور تمام مولوی ہم جنس پرستی کے اعمال میں درپردہ ملوث ہوتے ہیں، بلکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات  نوعیت کے اعتبار سے الزامی زیادہ حقیقی و منطقی کم  ہوتے ہیں۔نہ   ہی کوئی لبرل ہر چیز لبرلازم کی روشنی میں کرتا ہے اور نہ  ہر مسلمان جنسی جبر و انحرافات اسلام کی روشنی و حکم کو شمع بنا کر سر انجام دیتا ہے،یہ سب انکے ذاتی میلانات،رجحانات،خواہش نفسی،افتاد طبع  ہوتی ہیں، جو ان سے ایسے اعمال سرزد کرواتی ہے،کیونکہ مسٹر ہو یا پھر مولوی دونوں ہی  درون خانہ جنسی رجحانات و میلانات رکھتے ہیں،دونوں کے اپنے اپنے وجود اور ذاتی رجحانات ہوتے ہیں۔دونوں کو متنوع  فیکٹر موٹیویٹ یا  تحریک دیتے ہیں  چنانچہ  انکے درون خانہ ڈھکے چھپے،اپنے اپنے رجحانات ہوتے ہیں ،انکے اپنے اپنے جنسی جھکاؤ   ہوتے  ہیں،جسکا اندازہ وہ کسی کو ہونے نہیں دیتے ہیں ،یہ تو جب روشنی میں اعمال نمودار ہوتے ہیں تو عقدہ کھلتا ہے کہ بہکنے میں  مولوی بھی خارج از بحث نہیں ہے اور مسٹر لوگ تو  بہکنے میں بزبان خود پیش پیش ہوتے ہیں ۔

سچ یہ ہے کہ  ہمارے مولوی بھی  کوئی نبی اور معصوم  الفطرت وجود کے حامل نہیں ہوتے ہیں کیونکہ  وہ بھی  آخر کار   انسان ہی  ہوتے  ہیں ،بعد میں شیطان و رحمان ہوتے ہیں اور ہمارا مشہور  و غالب مسٹر بھی عین یہی معاملہ خود سے وابستہ رکھتا ہے۔سچ یہ ہے کہ مولویوں میں یہ جنسی رجحانات بہت  کم ہوتے  ہیں،مگر سرے سے موجود نہیں ہوتے  ہیں، یہ ایک  ثابت شدہ جھوٹ ہے،مولوی جب مولوی سے زیادہ متقی،پرہیز گار،صوفی،سادھو و سنت یا پادری بنتا ہے تو وہ دوسروں پر نقد کے لئے وعظ و تبلیغ کو ہتھیار بناتا ہے ،مگر خود اپنے اعمال لوگوں سے چھپاتا  پھرتا ہے، چونکہ وہ اپنے تحفظ  کا یقین رکھتا ہے  اور عموماً  یہ اسکا ڈھکا چھپا  دعویٰ  ہوتا ہے جو اسکو رسوا کروادیتا ہے،کیونکہ  اسکا ظاہر شدہ شیطانی فعل  تو اس کو مسٹر تنقید شدہ کا شیطانی جامعہ میں کلاس فیلو بنواچکا ہوتا ہے۔

جب تک مسٹر اور مولوی اپنی اپنی ذاتوں اور اداروں میں غلط کو غلط ، اور صحیح کو صحیح نہیں کہیں گے،احتساب کا دائرہ  خود پر اور اپنی جماعت تک وسیع نہیں کرینگے تب تک انکے تضادات ان کو جدید معاشرے کی نگاہ میں رسوا کرتے رہیں گے۔

یہ بھی سچ ہے کہ اگر چالیس لاکھ مدارس کے طلبا و طالبات اور انکے مدرسین کو جمع تفریق کرکے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ غلط اعمال و روابط والے   کیلکولیڑ کی مدد کے بغیر ا نگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ،مگر لبرل تنقید کار ان انگلیوں کے پوروں اور نشانوں کو ذرہ سے آفتاب بنانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ہیں۔کیونکہ عالمی حکومتوں،انجمنوں ،غیر حکومتی انجمنوں اور میڈیا پر انہی کا غلبہ قائم ہے۔

جبکہ مسٹر اور مسز    جو سوسائٹی میں ہم دیکھتے ہیں کہ معاملہ ذرا پیچیدہ نوعیت کا حامل ہوتا  ہے وہاں جنسی جبر ،تشدد،انحرافات بہت کثرت سے ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ  جتنے سامنے نظر آرہے ہوتے  ہیں وہ جو سامنے نظر نہیں آرہے ہیں، انکے مقابل ذرا برابر بھی کمیت و عدد نہیں رکھتے ہیں۔

مگر معاملہ یہاں ذرا اس لحاظ سے الٹ  ہوتا ہے کیونکہ لبرل تعلیمی اداروں سے سماج تک روابط کی کثیر اور حقیقی تعداد انفرادی رضا کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے،اور تشدد انکے منفی اثرات اور تضادات سے ابھرتا ہے۔یہاں کا ماحول انتظامی و نصابی اقدار کی بنیاد پر مدارس سے بھلے الگ ہوتا ہے مگر ادارہ جاتی تناظر میں بہر حال دونوں ہی اپنے اپنے ادارے رکھتے ہیں۔

مدارس جہاں زیادہ تر یہ ہم جنس پرستی،اغلام بازی،لونڈے بازی کے جرائم اور رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں اوّل وہ ایسے چھوٹے مدارس ہوتے ہیں جہاں اقامت و رہائش کا انتظام ہوتا ہے،اور وہاں کے طالب علم بحیثیتِ مجموعی غریب گھرانوں اور پس ماندہ علاقوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔پھر ان نچلے درجات کے یا اوسط درجات کے مدارس میں بھی میرا مشاہدہ  و تحقیق ہے کہ زیادہ تر واقعات قرآن پڑھنے اور حفظ کرنے والی سطح پر نمودار ہوتے ہیں جہاں قاری کا کام بس بچوں کو حفظ و ناظرہ کی تعلیم و تربیت دینا ہوتا ہے،وہ کوئی مفتی ،مفسر یا شیخ الحدیث کے درجہ کا عالم فاضل اور فرد نہیں ہوتا ہے بلکہ اکثر تو وہ درس نظامی کی تکمیل تک نہیں کرپایا ہوتا ہے مگر معاشرے کی علم فہمی  پر قربان جائیں کسی بھی فیشن میں داڑھی رکھنے والے کو بھی مولوی صاحب کہتے پھرتے ہیں،پھر اسکے فعل اور عیب کو کل جمعیت مولوی کا فعل باور کرایا جانے لگتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف پڑھانے  کی گھریلو ٹیوشنز کے لئے  ہمارے یہاں کوئی معیار و سند نہیں مانگی جاتی ہے،کوئی بھی قرآن کی تلاوت کرنے اور پڑھنے کی اہلیت رکھنے والا  فرد جاکر پڑھاکر روزی روٹی کمانے لگتا ہے،گھر کی بڑی بوڑھیاں ،باجیاں اور استانیاں بھی یہی کام ثواب اور رزق حلال دونوں کے لئے سرانجام دیتی ملتی ہیں۔حالانکہ انہوں نے سرے سے کسی معروف مدرسہ سے نہ  تو پڑھا ہوتا ہے اور نہ  کسی دینی سند اور تخصیص کی سند کی حامل ہوتی  ہیں۔

لہذا جتنی بھی بچوں پر  جسمانی اور جنسی تشدد کی مثالیں اور ویڈیوز دیکھنے  کو ملی ہیں، وہاں چند ایک استثنائی مثالوں سے ہٹ کر کوئی مفتی،محدث ،مفسر اور معروف مدرسہ کا استاد اور طالب علم ڈھونڈنے کو نہیں ملے گا اور مولوی عزیر  سمیت  لوگوں  کی ذہنی حالت و کیفیت کسی ماہر نفسیات کے ذریعے جانچنے کی اشد ضرورت ہے جن کی بنیاد پر ان محرکات اور وجوہات تک ہم رسائی حاصل کرسکیں جو انکی سب کانشیس سے ابھر کر ایک منفی منظر نامہ کی صورت میں خارج میں ابھر آئی ہے آیا و ہ کونسے ڈرائیونگ موٹیویٹنگ فیکٹر تھے جنہوں نے انکو شادی شدہ ہونے کے باوجود اس حرام کام کے لئے تیار کیا ؟کیوں دبی دبی جنسی انفرادیت کی اشتہا نے ان سے اس امر میں عملِ  حرام کا فعل کیسے خود ان سے  انکے علمیاتی ڈھانچہ کے خلاف جاکر صادر کروایاـ؟۔

یہ قاری ،مولوی آپ مانیں نہ  مانیں ،آخر کار اپنے خلق ،فطرت اور مزاج کی رو سےبہرحال ایک انسان  ہوتے ہیں ،انکے ساتھ بھی کمائی اور خواہش کا معدہ لگا ہوا ہوتا  ہے،اس لئے جیسے دوسروں کی تقصیریں معاف کرنا لبرلز کے یہاں عام  بات سمجھی جاتی ہے دوسروں کے  ساتھ بھی انکو یہ ہی وسیع المشربی تھاٹ ڈائیورژن کا  رویہ اختیار کرنا چاہیے مگر انصاف کے لئے آواز بلند کرنا اور احتساب کے لئے آواز بلند کرنا سب کا  بنیادی حق اور فریضہ ہے چاہے غلطی اسکول ،کالج اور جامعہ میں نمودار ہو یا کسی تنظیم میں یا پھر مدرسہ میں  پائی جائے، انصاف و احتساب کا ڈنڈہ سب پر یکساں برسنا چاہیے۔

ساتھ ساتھ دیکھیں کہ ایسے اعمال کرنے والے نفسیاتی ،ذہنی بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں انکی بیماریاں بھی کسی پس منظر ،تکلیف،ظلم ،ماحول اور خواہش کا نتیجہ ہوتی ہیں ،انکو سزا دینے سے قبل یا ساتھ انکا نفسیاتی علاج،اور جرح پھٹک کرنا ضروری ہے ،یہ جانچنا ناگزیر ہے کہ وہ کونسے محرکات اور عوامل ہیں جنہوں نے ان سے یہ اعمال سرزد کروائے۔

لبرل سیکولر تعلیمی  اداروں میں چونکہ دولہا دلہن راضی کیا کرے گا  قاضی کا مقولہ ہر جگہ مد نظر رکھا جاتا ہے لہذا وہاں رضا کی کثرت کے سبب خواہش نفسی کا استعمال جائز اور محبوب ہوجاتا ہے،وہاں معاملہ کب برا سمجھا جاتا ہے جب جبر و استحصال کے ثبوت ملتے ہیں اور یقین جانیں اللہ کو حاضر و ناظر  جان کر سچ کہہ رہا ہوں ہماری جامعات کی جنسی تعلقات و انحرافات  کی کئی سطحیں  ملتی ہیں۔

وہاں اگر رضا ہوتو استاد شاگردوں کے تعلقات،جنسی روابط،عام باتیں ہیں،استادوں کا اپنی شاگردوں سے شادی کرنا ،شاگردہ   کا استادوں کو دام تزویر میں پھنسانا،تعلق کی قیمت طلب کرنا عام  سی بات ہے،یہ الگ بات ہے لوگ کھل کر نہ  ان پر بات کرتے ہیں اور نہ  کھل کر ان معاملات کو قبول کرتے ہیں ،مگر حقیقیت ہمیشہ رائے شماری کی خدائیت سے ماورا  اپنا کام کرتی نظر آتی ہے ،ویسے بھی ہماری شرع کی رو سے ہمارے سگے خونی رشتوں کے ماسوا کوئی منہ  بولا رشتہ شرعی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔کسی استاد کا اپنی شاگردہ سے یا شاگرد کا استانی سے نکاح شرعا جائز عمل ہے۔یہ سماج میں موجود سوچ ہے جو اسے کسی اخلاقی قدر میں باندھنے کی کوشش کرتی ہے اور نا پسند کرتی ہے،مگر اسکا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر استاد و شاگرد صرف انھی اعمال اور حرکات و سکنات میں پھنسے رہ جائیں لہذا ننانوے فیصد اساتذہ سے ان امور کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔

بتانا یہاں یہ مقصود تھا،کہ پسند نا پسند سے قطع نظر جامعات میں استحصال کی شرح بہت زیادہ ہے،مگر لبرل حضرات جن کی میڈیا میں زیادہ تعداد ہے ان امور پر یا تو سِرے  سے روشنی ہی نہیں ڈالتے ہیں اور اگر ڈالتے ہیں تو ایسی کہ معاملہ اصطلاحوں ،قانونی و سیاسی زبان کے بندھنوں میں پھنسا رہ جاتا ہے کیونکہ یہ میڈیا  والےحضرات انھی جامعات کے نا صرف طالب علم ہوتے ہیں یا انکے خود ان اساتذہ سے ایسے روابط ہوتے ہیں کہ یہ معاملہ کی نوعیت دھندلا  دیتے ہیں،یہ ایک ایسا سچ اور مشاہدہ ہے جسکی تحقیق اساتذہ کی باہمی عدالتوں میں مقابلے بازی اور تنظیموں تک انکی معلوماتی رسائی سے کی جاسکتی ہے،کون کون سی استاد کس بنیاد پر ترقی پاتی ہے اور دوسری خواتین سے آگے نکل جاتی ہیں اس بابت بہت کچھ جامعاتی دیواروں میں سنائی دیتا ہے،کبھی یہ سرگوشیاں مدھم ہوتی ہیں اور کبھی اتنی طاقتور بن جاتی ہیں کہ میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں ۔

میں نے یہاں رضا کا ذکر کیا جب لبرل اداروں میں رضا سب کچھ دودھ کی طرح دھو سکتی ہے تو لبرل مدارس کے استاد پر کیسے الزامی دعویٰ  دائر کرسکتے ہیں؟کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر عمل میں جبر و استحصال استاد ،یا قاری صاحب ہی کریں وہاں متاثرہ فرد کی کیا پیش قدمیاں تھیں،کیا جزئیات و کلیات تھیں اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

جبھی جنسی انحرافات کسی مخصوص گروہ کا اثاثہ ،مزاج اور اعمال نہیں ہوتے  ہیں  بلکہ کُل بنی نوع انسان  میں کمی ،زیادتی کے ساتھ کچھ نا کچھ ایسے قلیل التعداد  ہم جنسیت کے مرتکب افراد کو دیکھتے رہتے ہیں۔پورن موویز ہم جانچتے ہیں کہ سب سے زیادہ کہنے کو یورپ اور امریکہ میں  بنتی ہیں تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ  مسلم ممالک اور جنوبی ایشیا، اور مشرق وسطی میں سرے سے نہیں بنتی ہیں؟،اور پورن انڈسٹریز کے اگر سرمایہ کار اہل مغرب ہیں تو انکے زیادہ تر کنزیومر اور ویوور  سچ یہ ہے کہ اہلِ  مشرق ہیں۔

بھارت دنیا بھر میں ایشیا کی سب سے بڑی پورن انڈسٹری کا مالک سمجھا جاتا ہے،ترکی و مصر کی پورن فلمیں بھی کہیں کسی سے  پیچھے نہیں رہی ہیں۔مگر یورپ و امریکہ والے کیا سب ہی افراد کیا سب ہی پورن ایکٹرز اور بزنس میں شریک ہوتے  ہیں ،ظاہر ہے ایسا نہیں ہے،جب ہی حمام میں سب ننگے ہیں کوئی زیادہ ننگا ہے اور کوئی کم ننگا ہے۔

لہذا جس خدا نے یہ جنسی تفریق قائم   کی تھی اس کو انکی تخلیقی  ودیعت شدہ  ساختی،جنسی ،کرداری ،جبلتی،اخلاقی اور شعوری استعداد کار اور وظائف کا نا صرف پتا تھا بلکہ یہ وظائف و کشش اس نے کسی سبب ان میں پنہاں کی تھی ،اور ان   کے نتیجے میں ہی  جزا و سزا ،نیکی و بدی،اچھے اور برے کی اقداریت قائم ہو پائی ہے ۔اس نے وحی کے ذریعہ جو قوانین انبیا کے وسیلہ سے ہم تک پہنچائے ہیں انکا مقصد یہ بھی تھا کہ جو جبلتی کج رویاں،انحرافات اور شَر ان سے سرزد ہوسکتے ہیں اس منفیت کو شرعی قوانین و ظابطوں سے قابل تحدید بنا کر انھیں منضبط طریقے سے سنبھالا جاسکے،یہ دنیا سب سے بڑٰی جامعہ ہے اور خالق کائنات سب سے بڑا عالم و خالق ہے،انبیا کرام اس جامعہ کے اساتذہ کرام ہیں اگر انہونے جنسی تحدید اورانضباط کے لئے ایک نظم خانہ قائم کیا ہے تو مطلب یہ نہیں تھا کہ شر سرے سے ختم ہوجائیگا یا سرے  سے کبھی پیدا ہی نہیں ہوگا کیونکہ جزا و سزا کا نظام گناہ کے صدور کو ناصرف  مانتا ہے بلکہ اسکے تدارک کے لئے  ہدایت ،تذکیر و تحدید سے انکی حدود اور محدود کرتا ہے  اور بتدریج ختم کرتا ہے۔

تاکہ نسل انسانی کا نظم،کردار،شعور اجتماعی اور اخلاقی نظام قائم رہے۔اور ان ضابطوں اور اصولوں کے انکار کا نام ہی نہی المنکر ہے جسکا نتیجہ گناہ کی صورت میں نکلتا ہے۔جب ہی نیکی و بدی ،جزا و سزا فطری اعمال و نتائج ہیں ان کو لیگل تھیوریٹکل گراؤنڈ پر دیکھنا پرکھنا عمدہ ہوگا۔ یہاں بہت حد تک سسٹم اپروچ تقابل  کرکے ہی صحیح تجزیہ کرسکتی ہے کنٹرولڈ سیمپلنگ پر استوار انٹرویوز ہوں یا سروے ہوں وہاں حق کبھی سامنے آ نہیں سکتاہے کیونکہ وہاں طاقت،حربوں اور داؤ  پیچ سے ایسا پروپیگنڈہ ابھرتا ہے جسکا نتیجہ حق کی تلاش کی جگہ حق کی تعمیر کی صورت میں نکلتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply