سنی سنائی بات۔۔۔ اویس احمد

پاکستان میں سماجی میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے اب ہر خاص و عام اس پر نہ صرف یہ کہ دسترس رکھتا ہے بلکہ اس کا مثبت اور منفی استعمال بھی خوب جانتا ہے۔ ایسے ہی استعمال میں سے ایک استعمال میسیج فارورڈ کرنا ہے۔ انٹرنیٹ اور مختلف موبائل نیٹ ورکس کی ارزاں نرخوں پر دستیابی نےہمارے سماجی ڈھانچے میں جو سب سے بڑی آسانی پیدا کی ہے وہ ہے ایک دوسرے سےرابطے میں رہنا۔چوں کہ انسان کو معاشرتی حیوان کہا جاتا ہے چنانچہ سماجی ربط رکھنا انسان کی مجبوری ہے جس کے بغیر انسانی شعور کی ارتقائی منازل کا تصور محال ہے۔ جوں جوں انسان شعور کی منازل طے کرتا جاتا ہے، باہمی رابطوں کو اتنی ہی اہمیت دیتا چلا جاتا ہے۔ شعور کی بلندی اور پختگی کی طلب انسان کو رابطوں میں وسعت پر اکساتی ہے اور انسان اپنی سماجی زندگی کا دائرہ وسیع کرتا چلا جاتا ہے۔حتیٰ کہ رابطوں کا سلسلہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے نکل کر بین الاقوامی سرحدوں کے پار جا پہنچتا ہے۔ ان رابطوں کےجہاں بے تحاشہ فوائد ہیں وہیں ان کی وجہ سے چندسنجیدہ نوعیت کے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔

آج جس اہم مسئلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ غیر تصدیق شدہ بات یا پیغام کو آگے بیان کر دینا ہے۔ وطن عزیز میں ایسے افراد کی کثرت ہے جو ہر موصول شدہ میسیج کو فوری طور پر اپنے دوست احباب کو فارورڈ کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، ایسا فرض جس پر کسی نے ان کو فائز ہی نہ کیا ہو۔ ایسے میں سبقت لےجانے کا جذبہ موصول شدہ پیغام کی تصدیق کرنے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔ کچھ لوگ ایسے پیغامات کے آخر میں ایک سہ حرفی بات (Forward as Received) لکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بتا دیا کہ پیغام ایسے ہی موصول ہوا تھا اور ہم بغیر تصدیق کے بھیج رہے ہیں تاکہ اگلا بندہ خود تصدیق کرتا پھرے، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرامین کی روشنی میں یہ بھی غیر مناسب بات ہے۔

“سورہ بنی اسرائیل کی آیت 37 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: اور وہ موقف اختیار نہ کر جس کا تجھے علم نہیں- یقینا ًکان اور آنکھ اور دل میں سے ہر ایک کے متعلق پوچھا جائے گا۔

اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر 16 میں ارشاد فرمایا

ترجمہ: جب تم اس (جھوٹ) کو اپنی زبانوں پر لیتے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ کہتے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں تھا اور تم اس کو معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی تھی۔

اور سورہ حجرات آیت نمبر 6 کا ترجمہ ہے

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے پاس اگر کوئی بد کردار کوئی خبر لائے تو (اس کی) چھان بین کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

ان آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تصدیق کے کسی بات کو آگے بیان کر دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔اس کی لازمی پکڑ ہو گی۔کیونکہ یہ عمل معاشرے میں انتشار اور فساد کی کیفیات بھی پیدا کر سکتا ہے۔لہٰذا جب بھی آپ کو کوئی پیغام یا کوئی بات کسی بھی طرف سے موصول ہو، اس کے مستند حوالے پر اصرار کریں اور اگر آپ کو حوالہ میسر نہ ہو تو کسی صورت اس پیغام کو آگے پھیلانے کا موجب نہ بنیں۔

Facebook Comments

اویس احمد
ایک نووارد نوآموز لکھاری جو لکھنا نہیں جانتا مگر زہن میں مچلتے خیالات کو الفاظ کا روپ دینے پر بضد ہے۔ تعلق اسلام آباد سے اور پیشہ ایک نجی مالیاتی ادارے میں کل وقتی ملازمت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply