جنسی تعلیم ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

کسی دور میں راقم الحروف انسان کے ہارمونز اور ایموشنز پر طالبعلمانہ تحقیق کا خواہاں تھا ، افسوس کہ یہ خواب بوجوہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا، لیکن اس وقت یہ ادراک قطعاً نہ تھا کہ یہ موضوع طبّی کی بجائے اپنے اندر انتہائی پیچیدہ نفسیاتی جہتیں لئے ہوئے ہے۔

انسانی جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز طبی اثرات کے علاوہ انسان کے رویوں اور اس کی نفسیات پہ بہت گہرا اثر رکھتے ہیں، طب کے کم ہی طلباء یہ بات جانتے ہیں کہ ہارمونز اور اعصاب کا علم پہلے ایک ہی شاخ گردانا جاتا تھا، ان کی وسعت کو دیکھتے ہوئے چار پانچ دہائیاں قبل ان دو کو الگ کر دیا گیا۔

عمومی طور پر ہارمونز کے جسم پر طبی اثرات کے علاوہ جو باتیں ایک پڑھا لکھا شخص جانتا ہے وہ یہ ہیں کہ ٹیسٹوسٹیرون فرد میں مقابلے کے جذبے اور جارحیت کو بڑھاتا ہے، اسی لئے بعض جانوروں یا پرندوں کی لڑائی سے کچھ دن قبل نر کو مادہ سے علیحدہ رکھا جاتا ہے کہ ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار بڑھنے سے جارحیت کا مظاہرہ ہو سکے، اسی طرح آکسیٹوسین افراد کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی سب سے زیادہ مقدار نومولود کو دودھ پلاتی عورت میں پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ ذاتی اور کاروباری تعلقات کی محافل و مذاکرات اگر مثبت سمت میں ہوں تو اس ہارمون کی افزائش فریقین کے درمیان اعتماد کو بڑھائے گی، ایڈرینالین کے فعل سے ہر شخص واقف ہے کہ یہ خطرے یا پریشانی کی صورت میں فرد کو مقابلہ کرنے یا بھاگنے کیلئے مدد دیتا ہے، سیروٹونین فرد کی خوشی کیلئے جوابدہ ہے اور ڈوفامین کا بنیادی کردار لطف و راحت پہنچانا ہے، ان تمام ہارمونز کی مقدار و افزائش جزوی طور پر جینیات طے کرتی ہے، اس کے بعد ماحول و خوراک کا بھی اپنا اثر ہے، آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کچھ افراد دوسروں کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ہارمونز کی مقدار میں فرق کا ہونا ہے۔

لیکن فرد کی نفسیات پر سب سے طویل اور گہرا اثر جنسی ہارمونز کا ہے، الہامی کتب میں موجود تصورِ جنّات کو اگر جنسی ہارمونز کی اصطلاح سے بدل دیا جائے تو قطعاً حیرت نہ ہونی چاہئے کہ ان ہارمونز کے اثرات اور بالخصوص ان سے ناواقفیت فرد کی شخصیت کو ناقابلِ پہچان حد تک بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

عورتوں اور مردوں میں بالترتیب ایسٹروجین اور اینڈروجین ہارمونز ان کی جنس اور بلوغت طے کرتے ہیں، خواتین میں چونکہ جنس یا بلوغت کے علاوہ ماہواری کا نظام بھی موجود ہے تو اس لیے مستورات کے ہارمونز کی تعداد مردوں کے مقابلے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مستورات اپنے رویوں میں مردوں کی نسبت کہیں پیچیدہ واقع ہوئی ہیں اور بالعموم “جنات کے حملے ” بھی خواتین پر نسبتا زیادہ سنائی یا دکھائی دیتے ہیں۔۔

مردانہ اور زنانہ ہارمونز ( اینڈروجنیز _ ایسٹروجینز) درحقیقت مرد اور عورت دونوں میں پائے جاتے ہیں، البتہ بنیادی فرق مقدار کا ہے، اس بات کو سامنے رکھا جائے تو اس ادبی جملے، کہ ہر عورت میں ایک مرد اور ہر مرد میں ایک عورت چھپی ہوتی ہے، کہ طبی توجیح عین ممکن ہے۔

ایسا نہیں کہ صرف بلوغت کی عمر میں یہ ہارمونز پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں اور بڑھاپے کی حدود کو چھوتے ہوئے ان کی افزائش بند ہو جاتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ تقریبا ہر آٹھ سے دس سال بعد عورتوں اور مردوں میں ان کی مقدار اور معیار بدلتے رہتے ہیں، عمومی طور پر انسانی زندگی کے یہ ادوار، بارہ سے چودہ سال کی عمر، اس کے بعد اٹھارہ سے بائیس سال، پھر اٹھائیس سے بتیس سال، پھر چالیس سے بیالیس سال، پچاس سے باون اور ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ زندگی کے ان ادوار میں ہارمونز کی مقدار اور معیار انسان کی زندگی میں طبی تبدیلیوں کے علاوہ اس کی نفسیات اور رویوں پر بہت گہرے اثرات رکھتے ہیں، انہی ادوار میں جسمانی ساخت کے علاوہ ،سوچ کا زاویہ بدلتا ہے، ذمہ داری کے پیمانے بدلتے ہیں اور اس کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ یہی بدلتے زاویے فرد میں مایوسی، ڈپریشن اور گاہے خوف و ہراس اور وحشت کا موجب بنتے ہیں، یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی زیادہ تر تعداد زندگی کے انہی ادوار سے تعلق رکھنے والوں کی ہے، خود کشی کرنے والے افراد بھی زندگی کی کسی ایسی ہی فیز سے گزر رہے ہوتے ہیں جب ہارمونز کا اتار چڑھاؤ اپنی سمت بدل رہا ہوتا ہے ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ خواتین میں ان ہارمونز کی نہ صرف تعداد زیادہ ہے ، بلکہ یہ ایک دوسرے کو منظم طریقے سے بدلتے بھی رہتے ہیں اس لیے خواتین کی نفسیات اور رویے پیچیدہ ہوتے ہیں، ہمارے ہاں زندگی کے انہی ادوار سے گزرتی خواتین کو ہسٹیریا کے دورے، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چونکہ دماغی طور پر مستورات کو پہلے سے تیار نہیں کیا جاتا، اس لیے اس کی شخصیت میں اٹھتی نئی امنگیں اور جذبات اسے اس سوچ کی طرف دھکیلتے ہیں جو ہمارے سماجی نظام میں رائج ہے، جسمانی تبیدلیوں کے علاوہ ہارمونز کے زیرِ اثر نفسیاتی طور پر جو رویے پنپتے ہیں، ان سے ناواقفیت کی بنیاد پر انہیں کسی مافوق الفطرت وجود سے جوڑتے ہوئے اور سماجی دباؤ میں آکر فرد اپنی بے بسی کا اظہار ہوش گنوانے یا دورہ پڑنے کی شکل میں کرتا ہے، عموما کچھ وقت کے بعد فرد اس کیفیت سے نکل آتا ہے، اگرچہ ان پیچیدگیوں سے گزرتے ہوئے اقارب کے ردعمل سے مریض جو تسکین محسوس کرتا ہے، اس کا نتیجہ کسی اگلی فیز میں دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ساس اگر بہو کو کسی شکاری کی نظر سے دیکھتی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ساس اس وقت پچاس سے باون، یا ساٹھ سے پینسٹھ والی عمر کے اس دور سے گزر رہی ہوتی ہے جب ہارمونز کی تبدیلی یا ان میں کمی اس عورت میں چڑچڑے پن کا باعث بنتے ہیں، اگرچہ اس کے علاوہ دوسری کچھ نفسیاتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، مثلا اگر ساس اپنی جوانی کی ساعتوں کو رنگین نہ بنا سکی اور ارمان و حسرتیں بغیر اظہار کے دم توڑ گئیں تو ایسی ساس اپنی بہو کو نشاطِ شباب سے ہمکنار نہ ہونے دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے سماج میں جنسی تعلیم کے حوالے سے اس کے حق میں اور مخالف، دونوں گروہ پائے جاتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ اس بات سے واقف ہی نہیں کہ جنسی تعلیم کس بلا کا نام ہے، جو گروہ طلباء و طالبات میں جنسی تعلیم کا فروغ چاہتے ہیں، ان کی اکثریت صرف مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق پر روشنی ڈالنے تک محدود ہے اور وہ بھی تڑکے کے ساتھ کہ مخالفین کے سینے جلائے جا سکیں ، اور مخالف گروہوں کی اکثریت درحقیقت اسی تڑکے والے نکتے کو لے کر مخالفت کر رہی ہے۔ ان دونوں گروہوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بنیادی مسئلہ نوجوان نسل کی نفسیاتی صحت کو لے کر ان کے مستقبل کا ہے اور جنسی تعلیم کی مد میں سکول اور کالج لیول پر ہارمونز اور ان کے نفسیاتی اثرات کو بنیاد بناتے ہوئے شروعات کی جائے تو بہتر نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply