زیادتی کا شکار مجسمہ۔۔۔ معاذ بن محمود

کوئی ایک دہائی ہونے کو ہے ریاست پاکستان سے کوچ کیے ہوئے۔ اس عرصے میں ہم بیرونی دنیا کو یقین کرواتے رہے کہ بھیا ہمدراصل ایک سلجھی ہوئی ذہین قوم ہیں بسوقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیاکے مصداق گردش ایام کے مارے ہیں۔ جبجب ہم دوسروں کو یہ یقین دلانے کے قریب ہوتے، پیچھے گھر میں بیٹھی عوام سے کوئی ایسی حرکتسرزردہوجاتی کہ ہمیں خود بھیاپنے دعوے پر پہلے ہنسی اور پھر غصہ آنے لگتا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی بہاولپور میں ممتاز اولمپین سمیع اللہ خان کے مجسمےکے ساتھ ہونے والیزیادتیہے۔

سمیع اللہ خان اپنے دور کے مایہ ناز ہاکی کے کھلاڑی تھے جو لیفٹ ونگر ہو کر بھی اس قدر تیزی سے اٹیک کیا کرتے کہ انہیں اڑنےوالا گھوڑا کہا جاتا تھا۔ اپنے بین الاقوامی ہاکی کیرئیر میں انہوں نے ۵۵ عدد گول داغے تاہم وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وطن عزیز میںان کے گول سے زیادہ اہمیت ان کے مجسمے کے ہول کو دی جائے گی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ جس شخص سے ساری زندگیکوئی ہاکی نہ چھین سکا اس کے اعزاز میں بنائے گئے پتلے سے ہاکی اور گیند دونوں ہی چھین لی جائیں گی۔

بھٹی صاحب میرے یارِ نار ہیں۔ مطلب اگر جہنم جانا ہوا تو قیاس ہے کہ بھٹی صاحب ہمارے باجو والے شیطان کے ہاتھوںڈنڈے کا مزا لے رہے ہوں گے۔ خیر، بھٹی صاحب اور ہمارے یہاں یہ روش رائج ہے کہ جب جب ہم نے کسی کی مٹی پلید کرنیہوتی ہے ہم میں سے ایک بس اتنا کہہ دیتا ہےنہیں یار فلاں تو اچھا آدمی ہے۔ دوسرے کے لیے یہ شہہ کا مقام ہوتا ہے کہ میںایک بندے پر تپا بیٹھا ہوں اور یہ اسے اچھا آدمی ہے کہہ رہا ہے۔ نتیجتاً مقابل عموماًاچھا۔۔۔؟ شہباز گل میراوغیرہ جیسےالقابات سے نوازتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ کسی نے اولمپین سمیع اللہ خان کے ساتھ بھی اسی قسم کی شرارت فرمائی ہے۔ مثلاًہمیں چند روز پہلے تک فقط اتنا معلوم تھا کہ سمیع اللہ خان اپنے دور کے ایک عظیم اولمپین تھے تاہم اب کے بعد ان کی وجہ تسمیہان کے مجسمے کا مال، متاع و عزت لٹ جانا لکھا جائے گا۔ عین ممکن ہے مجسمہ نصب کرنے کے پیچھے نیک نیتی ہو، بہرحال ایکمبہم سا امکان تخریب کاری کا ہونا بھی بعد از قیاس نہیں۔

اولمپین سمیع اللہ خان کے نصب شدہ مجسمے میں انہیں جھکا ہوا ہاکی تھامے بال لے جاتے دکھایا گیا تھا۔ آپ ہماری عوام کےلیول کا اندازہ کیجیے، سب سے پہلے کوئی مجاہد مجسمے کے زیر استعمال گیند اٹھا کر لے گیا۔ دو گھڑی سوچیے، چوری چکاری وہی بندہ کرتاہے جس کے پاس مسروقہ مال کی کمی ہو۔ باوجود شدید کوشش کے میں گیند چور کے پاس متعلقہ مال کی کمی کے علاوہ کوئی وجہ سوچنےسے قاصر ہوں۔ یعنی بظاہر یہ معاملہ خصیتین میں قدرتی خرابی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے تاہم اگر ایسا ہے تو ہاکی کی چوری کس شے کیکمی کی نشاندہی کرتی ہے؟

بقول معین اختر مرحوم و مغفور، معاف کیجیے گا میں سچ بولتے ادھر ادھر نکل جاتا ہوں۔ چلیے ہم فرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہایسا نہیں۔ اب دوسرا خیال جو آتا ہے اس کی تمہید کے طور پر مجھے ایک روایت ذہن میں آتی ہے جو کچھ یوں ہے۔

علامہ عمر شریف کامیڈین سے مروی ہے مفہوم جس کا کچھ یوں کہ پاکستانی قوم ستاروں کی پے در پے گردش کے باعث ایک قسمکے ذہنی دباؤ المعروف ٹینشن کا شکار ہے۔ ایک بندہ گھر سے نکل کر سگریٹ لینے جا رہا ہوگا، راستے میں ٹیکسی کے نیچے کتا آرام سےسکون سے سویا پڑا نظر آئے گا، ہمارا پاکستانی بھائی بلاوجہ کتے کو لات مارتا نکل جائے گا۔

عمر شریف نے یہ بات قریب بیس سال پہلے کہی تھی۔ تب خشک قسم کی ٹینشن ہوا کرتی تھی۔ اب میمز عام ہیں، تمسخر عام ہے،لطیفے عام ہیں، جگتیں عام ہیں۔ جتنا میں دور حاضر کے معاشرے سے واقف ہوں، مجھے یقین ہے کہ گیند اور ہاکی چرائے جانے کاعمل کل ملا کرشغل مذاقمیں کیا گیا ہوگا۔ اگر ایسا ہے، اور شاید ایسا ہی ہے، تو آپ ایک لمحے بے حسی کی اس نہج کا اندازہکیجیے جہاں ہمارا معاشرہ پہنچ چکا ہے۔ ہمارے لیے ایک قومی ہیرو کے مجسمے کی توہین کرنا بس ایک لمحاتی ہنسی یا مذاق کشید کرنے کےمترادف ہے۔

لیکن معاملہ صرف گیند اور ہاکی کی چوری تک محدود کہاں رہا؟

اولمپین سمیع اللہ خان کے مجسمے کی چوری کے بعد پہلے پہل بغیر گیند و ہاکی مجسمے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں۔ایک آدھ روز بعد ایک اور تصویر سامنے آئی جس میں ایک بدبخت جھکے ہوئے مجسمے کے ساتھ (علامتی) بدفعلی میں ملوث دکھائی دیتاہے۔

عمر شریف نے بیس برس قبل کتے کو مارنے کی بات کی تھی۔ آج حالات یہ ہیں کہ پاکستانی برادران عشق کے امتحان میں زندہحیات کتے سے کافی آگے پہنچ چکے ہیں۔ کہنے والے ڈولفنز کو بھی غیر محفوظ کہتے ہیں۔ دوسری جانب ہیجان کے بہانے ڈھونڈنےوالے سفید کفن کے لٹھے میں بھی جنسی ہیجان ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن چلیے، ہم ان دونوں معاملات کو ذہنی خلل میں شمار کر لیتےہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک مرد کے بے جان مجسمے کو دیکھ کر بھلا کس شخص کو شہوت چڑھ سکتی ہے؟ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہجس بندے کو مجسمے سے شہوت چڑھ سکتی ہے اسے کس چیز سے شہوت نہیں چڑھ سکتی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسیاوریائی ذہنیت رکھنے والا شخص جب کسی عورت تک دسترس پائے گا تو اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟

مانا کہ آدمی روبوٹ نہیں ہوتا لیکن للّٰہ۔۔۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!

اچھا چلتے چلتے آخری بات کرتا چلوں۔ اطلاعات کے مطابق تین الگ الگ جرائم یعنی مجسمے کی گیند چوری، ہاکی چوری اور مجسمے کےساتھ بدفعلی کے مجرموں میں سے ایک، غالباً مؤخر الذکر جرم کا مرتکب پولیس گرفتار کر چکی ہے۔ معلوم نہیں باقی مجرمین کو پکڑنےکے لیے تگ و دو کی جائے گی یا نہیں تاہم مجرم پکڑنے کے بعد ناصرف سمیع اللہ خان کے مجسمے کو دوبارہ سے گیند اور ہاکی تھما دیگئی ہے بلکہ مجسمے کے ارد گرد باڑ بھی لگائی جا چکی ہے تاکہ معصوم مجسمہ آئیندہ کسی خبیث کی شہوت کا شکار نہ ہو سکے۔ اس خبر کےساتھ ایک تصویر بھی شائع ہوئی جس میں گرفتار مجرم اور پولیس کے جوانوں کے ساتھ ساتھ اولمپین سمیع اللہ خان کا مجبور و محبوسمجسمہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

تصویر ھذا پر بغور نظر ڈالی جائے تو مجسمہ خوف زدہ دکھائی دیتا ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہ؟ مجسمے کے مال و متاع اور عزت پر حملہ کیاجائے تو اس کا خوفزدہ ہونا کوئی اتنی بھی عجیب بات نہیں۔

تاہم ہمیں سنجیدگی سے زیراعظم کے اس بیان پر غور کرنا چاہئے جس کے تحت ریپ وکٹم کے متاثرین کے ملبوسات آدمی میںہیجان پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ آدمی آدمی ہوتا ہے روبوٹ نہیں لہذا اس مضمون کے توسط سے میری حکومت سے گزارش ہے کہاولمپین سمیع اللہ خان کے بہاولپور میں نصب مجسمے کو کم از کم مختصر نکر کی بجائے شلوار پہنا دی جائے تاکہ معصوم مجسمہ آئیندہ کم ازکم بدفعلی کا وکٹم نہ بن سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عین نوازش ہوگی!

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply