افغان سفیر کی بیٹی اغواء ہوئی یا سازش کی گئی؟۔۔اقصیٰ اصغر

کچھ لوگ اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ ایک جھوٹ پر پوری عمارت تعمیر کر دیتے ہیں اور ہم پاکستانی معصوم عوام ذہانت کو استعمال کرنے کا تکّلف تک نہیں کرتے، کہیں غلطی سےاسکا زنگ اتر ہی نہ جائے۔ اور با آسانی اس ہائبرڈ وار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہر جھوٹ کو سچ مان کر اپنی ہی آبرو مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ دماغ کے پیچ ڈھیلے کیے بغیر ایک بار بھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ اب دنیا میدان جنگ میں جا کر نہیں لڑتی۔صرف ایک غلط انفارمیشن پھیلا کر ہائبرڈ وار کے ذریعے لوگوں کو آپس میں لڑواتی ہے۔اور خود ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھتی ہے۔ہم اپنے آپ پر خود ہی کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں اپنا امیج دنیا کے سامنے اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کر دیتے ہیں۔

17 جولائی 2021 بروز ہفتہ کو افغان وزارت خارجہ کی جانب سے خبر آتی ہےکہ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں افغان سفیر نجیب خیل کی بیٹی سلسلہ علی خیل کو اغوا کیا گیا اور مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی گھنٹوں کے بعد وہ گھر واپس لوٹی۔

اس خبر کے آنے کے بعد پاکستان میں تمام ادارے متحرک ہوگئے ،ان سنگین حالات میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا ہونا کوئی معمولی خبر نہ تھی۔
اس بات نے ہر سوچ بچار رکھنے والے شخص کو حیرت میں مبتلا کر دیا کہ سفیروں کے تو بہت زیادہ پروٹوکول ہوتے ہیں ہر سفارتخانے کے باہر بہت سی گاڑیاں ہوتی ہیں سلسلہ علی خیل کا اغوا ہونا کیسے ممکن ہے۔

اس سے زیادہ سوچ بچار کی بات یہ تھی کہ سلسلہ علی خیل کے مطابق اس کے ساتھ یہ واقعہ 16 جولائی بروز جمعہ کے دن پیش آیا۔اور یہ خبر ہمیں 17 جولائی بروز ہفتہ کو موصول ہوئی۔

اس خبر کے آتے ہی تمام خونی لبرلز اور بھارتیوں نے پاکستان پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا تھا تو پاکستانی اپوزیشن کیسے پیچھے رہتی انہوں نے بھی پاکستانی حکومت پر خوب کیچڑ اچھالا۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ کیچڑ میں پتھر پھینکیں گے تو چھینٹے خود پر ہی پڑیں گی۔ اور اس نیک کام میں طالبان نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

پھر اس واقعے کا نوٹس لیا گیا اور اس پر تحقیقات شروع کر دی گئی۔
سلسلہ علی خیل کے بیان کے مطابق
میں(ایف سیون) گھر سے پیدل نکلتی۔ ٹیکسی لے کر کھڈا مارکیٹ گی وہاں سے ایک اور ٹیکسی لیکر دامن کوہ گی۔ راستے میں ایک آدمی ٹیکسی میں سوار ہوا۔ اور اس نے مجھ پر تشدد کیا۔پھر میں بے ہوش ہوگئی۔ وہ مجھے دامن کوہ میں کچرے پر پھینک کر چلا گیا۔اور جب مجھے ہوش آیا تو میرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے میں گھر نہیں جا سکتی  تھی،تو میں نے  پھر ایک ٹیکسی لی، فون کرنے کے لئے ایف سکس گی ۔وہاں سے میں ایف نائن پارک چلی گئی۔اور اپنے والد کے کولیگ کو فون کر کے بلایا،اور اس کے ساتھ میں گھر آگئی۔

تو جب اس واقعے کی تفتیش کرنے کے لئے تمام سی سی ٹی وی فوٹیج کو چیک کیا گیا۔ان فوٹیج کے مطابق دیکھا جا سکتا ہے کہ۔۔
سلسلہ علی خیل گھر (ایف سیون) سے پیدل نکلتی ہے۔وہاں سے ایک ٹیکسی لیتی ہےاور کھڈا مارکیٹ پہنچتی ہے۔وہاں سے وہ دوسری ٹیکسی لیکر راولپنڈی گھکڑ پلازہ جاتی ہے۔پھر وہاں سے تیسری ٹیکسی لے کر وہ دامن کوہ جاتی ہے۔ ادھر سے چوتھی ٹیکسی لے کر وہ ایف سکس جاتی ہے اور پھر اسی ٹیکسی میں وہ ایف نائن پارک پہنچ جاتی ہے۔بالآخر وہاں وہ حکمت کو بلا کر جو اس کا کلاس فیلو ہے، وہ حال ہی میں افغانستان سے آیا ہوا تھا۔اس کے ساتھ وہ گھر جاتی ہے۔

پولیس کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ میں تو کبھی راولپنڈی گئی ہی نہیں، پھر پولیس نے اسے سی سی ٹی وی فوٹیج نکال کر دکھائی کہ یہ راولپنڈی کا گھکڑ پلازہ ہے اور یہ آپ ہی ہیں نا۔۔ اب آپ ہم سے یہ حقیقت چھپا رہی ہیں۔مگر اس نے پھر صاف انکار کردیا۔تو پولیس نے اسے کچھ عرصے کی کالز ریکارڈ نکال کر دکھا دیں، کہ آپ کی چار مرتبہ فون کی لوکیشن راولپنڈی گئی ہے اور اب یہ پانچویں مرتبہ ہے۔

پھر اس کے بعد پولیس نے کہا کہ ہمیں اپنا موبائل دیں ، ہم ڈیٹا وغیر چیک کریں گے ،جو ہمیں تفشیش میں آپ کے ملزم کو پکڑنے میں ہماری مدد کرے گا۔ تو سلسلہ علی خیل نے کہا کہ موبائل تو ان لوگوں نے مجھ سے چھین لیا۔اسی لیے تو میں نے فون کرنے کیلئے ٹیکسی والے سے فون مانگا  ، اور پھر ایف سکس جاکر ایک ریڑھی والے سے فون لے کر فون کیا۔

مگر اس جھوٹ کے بھی کوئی پاؤں نہ تھے۔کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ چھپ کر فون استعمال کرتی رہی ہے۔ ایف سکس کے اندر اس کا موبائل   انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا ہے۔اس نے ان سب لوگوں سے موبائل فون مانگا مگر اپنا موبائل پاس ہوتے ہوئے۔

تو جب تحقیقاتی اداروں نے اس کا پورا پول کھول کر رکھ دیا تو کہتی ہیں کہ او ہو شاید میں بھول گئی میرے پاس گھر میں ہوگا اور اندر گھر کے کمرے میں جاتی ہے، سارا موبائل فون کا ڈیٹا ڈیلیٹ کردیتی ہے اس کام کو وہ آسانی سے کر سکتی تھی۔ کیونکہ وہ سائبر سکیورٹی کے اندر یورپ سے آن لائن ماسٹر کر رہی ہے۔اور موبائل فون لاک کر کے پولیس والوں کو دے دیتی ہے۔ پولیس والے اس فون کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جو مزید تفتیش میں ان کی مدد کرے گا۔

ان تمام حقائق سے ہم لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سلسلہ علی خیل ایک منٹ کے لئے بھی اغواء نہیں ہوئی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف سازش ہو۔ پاکستان کوبدنام کرنا ہو اور پاکستان کے خلاف بہت بڑی ہیڈ لائن بنانی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیونکہ ہم سلسلہ علی خیل کا بیان سن کر اور تمام سی سی ٹی وی فوٹیج میں موجود حقائق دیکھ کر بآسانی سچ اور جھوٹ میں تمیز کرسکتے ہیں۔فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اپنے ملک پر کیچڑ اچھالنا ہے یا حقائق کو دیکھتے ہوئے سچ کو تسلیم کرنا ہے۔

Facebook Comments

Aqsa Asghar
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ ہوں۔اور ساتھ لکھاری بھی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply