ممتاز غزنی کاتہذیبی ماضی ۔۔محمد جاویدخان

وقت کی بے شمار تعریفیں کی گئی ہیں۔اسے سمجھنے کے لیے ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم کیاگیاہے۔کیا اس کے علاقہ بھی وقت کاکوئی درجہ ہوگا۔؟یا پھر بس وقت تین حصوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو جاتاہے۔مستقبل کے بعد کیارہ جاتاہے۔؟آس،اُمید  اور جب مستقبل بھی حال سے گزر کر ماضی ہوجائے تو پھر  لمحے کیاہوں گے۔؟کوئی مستقبل اپنی جگہ پرچاہے کتنا ہی نازاں ہو۔ آخر کو اس نے ماضی اور پھر ماضی بعید ہوجانا ہے۔

اسلامی الہیات کے مطابق سب انسانوں کاماضی ”عالم ِ ارواح“تھا۔جب رب نے فرمایا ”الست ُ بی رَبکم“ تب ارواحی زندگی کاپہلاجمود ٹوٹا اور ادراکی عمل شروع ہوا۔ذات حق کی شناخت کایہ پہلا لمحہ تھا۔پھر اکثر یاد ماضی کایہ لمحہ ستانے لگا۔مسلم صوفیا نے عبد و معبود کے اس یاد گار لمحے کو کئی طرح سے اشعار میں بیان کیاہے۔حضرت سلطان باہو،بلھے شاہ اور وارث شاہ۔کیاعالم ارواح تک کے اس عہد و پیماں کے لمحے تک واپسی کاسفر ممکن ہے۔۔۔۔؟کوئی سُچا اور سچا صوفی ہی جانے۔صرف اپنے عہد کی جانب باربار تصوراتی واپسی کو ادبی لوگوں نے ”نوسٹلجیا“کی اصطلاع سے یاد کیا ہے۔

بابافرائیڈ ؒ جدید نفسیات کے حضرت باباآدم ہیں۔انھوں نے اسے شعور،لاشعور اور تحت الشعور کے مشکل رستوں سے گزار کر ”کتھارسس“ کی منزل بخشی ہے۔سنا ہے اس منزل سے گزرنے کے بعد روح ”مکتی“ پاجاتی ہے۔ممتازغزنی کاماضی صوفیانہ نہیں نہ ہی فرائیڈانہ ہے۔وہ تہذیبی ماضی کاعلم بردار ہے۔پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری کے اس طرف دریاے جہلم کے اوپر ترائیوں میں کشمیر کاایک گاؤں ”پھاگوعہ“ ہے۔غزنی وہاں کارہنے والاہے۔لفظ غزنی”جینیاتی نوسٹلجیا“ کی نشان دہی ہے۔صدیوں قبل جب غزنی کے نواب جسی خان اپنی آل اولاد سمیت افغانستان سے ہجرت کرکے کشمیر کے سرحدی گاؤں پونچھ آکر بسے تھے۔نسلوں نے باباجسی خان کو پیر جسی خان کے پوتر نام سے یاد کیا اور آج بھی کر رہی ہے۔ممتاز غزنی کے آبائی گاؤں ”پھاگوعہ“کی پشت پر ایک کھڑا پہاڑ بلند ہو کر دُور پار ہمالیہ سے آنگن بسائے رہتاہے۔پیر جسی خان ؒ کامزار اقدس اسی پہاڑ کی آخری چوٹی پر ہے۔اسی مناسبت سے یہ پہاڑ اب ”جسہ پیر“ کہلاتاہے۔جسہ پیر کے سامنے ہمیشہ برفیلہ اُجلاپر بت پیر پنجال ہے۔

یوں ان پیر وں اور پربتوں کے درمیان اجلی پہاڑی زندگی ہزاروں صدیوں سے چل رہی ہے۔ہزار صدیوں کاماضی پیر پربتوں کے آنگن میں پڑا سویا ہوا ہے۔بس ایک صدی کاماضی ممتاز غزنی نے پیر پربتوں کے آنگن سے اٹھایا اور 192صفحوں کی مختصر کتاب میں بند کر دیا۔کوئی صدی اٹھا کر 192صفحا ت میں بند کر کے تو دیکھے۔۔۔؟ہر کوئی ممتاز غزنی تھوڑا ہی ہے۔؟کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔پہلے حصے میں پندرہ شخصی خاکے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مزید ایک صدی پہلے کی زندہ تاریخ تھے۔

دوسرا حصہ سبزیوں،پھلوں اور بچپن کے ذکر سے عبارت ہے۔ہم پہاڑیے جنگلی سبزیاں اور پھل شوق سے کھاتے تھے۔آج بازار کی کھاد آلود سبزیوں اور پھلوں میں وہ تاثیر کہاں۔۔؟ جو ان خود رو سبزیوں میں تھی۔ہماری یہ خود رو سبزیاں اور پھل ایک طرح کی ہربل طب تھی۔جو ہمیں بیماریوں سے کوسوں دور رکھتی تھی۔تب ہماری پرانی نسل کی اوسط عمر 90اور 100 ہواکرتی تھی۔داڑؤنا (انار دانہ)،پھاواڑا (جنگلی انجیر )،ٹنگی (جنگلی ناشپاتیاں) آخرے اور پہاگناڑو (سٹرابیری کی ہمالیائی اقسام)،انموئی بہتات میں موسمی پھل تھے۔اس کے علاوہ مشرومز ہم کشمیریوں کی پسندیدہ خوراک تھی۔یہ سارے پھل عالمی منڈیوں میں سجے سجائے آج مہنگے داموں ملتے ہیں۔جہاں عام غریب کی رسائی ممکن نہیں۔مگر قدرت نے ہم پہاڑیوں کے لیے بن بوٹے،جنگل اور سبزہ زار وں پر پھلوں کے دسترخواں ہر وقت لگارکھے تھے۔کوگوتھو(گچھی)دنیا میں مشروم کی مہنگی ترین قسم ہے۔اگرچہ آج کل یہ بڑے بڑے کھیتوں میں مصنوعی ماحول بنا کر اگائی جاتی ہے۔اس کاکیک پیسٹری کسی اِلیون سٹار ہوٹل کے فن کار باروچی کے ہاتھوں بنے  ہوں تو لذیذ مٹھائی اور ڈش ہے۔دلی اور بمبئی کے تمام بڑے ہوٹلوں پر مشروم سے بننے والی ڈشیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جنگلوں سے جاتی ہیں۔مگر ہم پہاڑیے (کشمیری)قدرت کی فیاضی کاجتنا بھی شکر اَداء کریں کم ہے۔ہمیں یہ نعمت ہماری اپنی ہی زمینوں پر بغیر کسی تکلیف کے مل جاتی تھی۔برساتوں میں بادل چھم چھم برس رہے ہوتے اَور ہم بھیگتے ہوے ٹولیوں میں گچھی تلاش کر رہے ہوتے۔ہمیں کسی الیون سٹار ہوٹل کے باورچی جیسی فن کاری تو نہ آتی تھی۔ہم بس مٹی کے چولھے میں لکڑیاں جلاتے،توے پر گھی ڈالتے اور گچھی بھون کر کھاجاتے۔

تیسرا حصہ جنگلی حیات یعنی چرند پرند کے متعلق ہے۔ہمیں قدرت نے فطر ی    سازوں  سے نوازا ہے۔ممتاز غزنی نے پپیہے کاخاص طور پرذکر کیا ہے۔ماضی قریب میں ہمارے ہاں اُبے ّ(چکور) عام ہوتے تھے۔مگر بے دریغ شکار نے انھیں معدوم کردیا۔ممتاز غزنی نے حشرات،لومٹریوں،گیدڑوں اور دیگر جنگلی حیات کاذکر کیاہے۔یہ سب چرند پرند آج دنیا کے بڑے بڑے چڑیا گھروں کی زینت ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چوتھے اور آخری حصہ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو“غزنی کاخود کاپچپن اور لڑکپن ہے۔اس حصے میں اس دور میں استعمال ہونے والے مٹی کے ذخیرہ دان (کولوٹیاں) جن میں اناج ذخیرہ کیا جاتاتھا۔تیل سے جلنے والی لالٹین،کھیتی باڑی کے آلات،ایک پہاڑی اور قدیم زرعی دور کامنظر آخری صفحات پر ملتاہے۔جہاں کھیتوں میں بیل جتے ہیں،ان کے گلے میں گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ہالی (بیلوں کو ہانکنے والے)کی پچکار اور للکار پر سدھائے ہوئے بیل گویا ساری زمین کاسینہ چیر ڈالنے کاعزم سر اٹھا کر کرتے اور آن کی آن سارا کھیت چیر دیتے۔پتھر کے ترشے ہوئے برتن جیسے اوکھلی،چکی،جندر،پتھر کاچبوترا اور کھیل کھیل کود کے سارے مشغلے بیان کیے گئے ہیں۔شادی بیاہ کی رسمیں،غربت،غربت میں اتحاد و تعاون کی طاقت۔پیار کے رشتے،مہمان نوازی جو ہم پہاڑیوں کاخاصا تھا۔یہ سب آخری حصے میں ملتاہے۔ممتاز غزنی کاپچپن ہم سب پہاڑیوں کاپچپن ہے۔جو اس عہد میں جوانی کی دہلیز پار کر چکے ہیں۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply