• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عید الاضحیٰ اور قربانی – احکام وآداب ۔۔۔عبیداللہ طاہر فلاحی مدنی

عید الاضحیٰ اور قربانی – احکام وآداب ۔۔۔عبیداللہ طاہر فلاحی مدنی

ماہِ ذی الحجہ کے دسویں دن دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحی کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ دن دراصل اس عظیم قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے اطاعت وفرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن کر اپنے رب کے حضور پیش کی تھی۔ [دیکھیں : الصافات:100-111] اس بے مثال قربانی کے ذریعے اعلان کیا جاتا ہے کہ اہلِ ایمان کے پاس جان و مال کی جو بھی متاع وسرمایہ ہے وہ اِسی لیے ہے کہ خدا کے اشارے پر اسے قربان کردیا جائے۔ جانوروں کی گردن پر چھری پھیرنا اور ان کا خون بہانا دراصل اِس بات کاعہد ہے کہ اے پروردگار!جس طرح تیری رضا کے لیے ہمارے نزدیک جانوروں کا خون اَرزاں ہے، اسی طرح ہماری جانیں بھی اَرزاں ہیں۔

عہد ِ جاہلیت میں لوگ قربانی کرکے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کررکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ خدا کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں، اس کے یہاں تو وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں :

{لَن یَنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ} [الحج:37]

’’نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ‘‘

یعنی قربانی گوشت اور خون کا نام نہیں، بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ اللہ کے لیے ہے اور اسی کی راہ میں قربان کیا جائے گا۔

{ قُلْ إِنَّ صَلا َتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} [الأنعام:162]

’’کہو! میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرناسب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ ‘‘

عید کا دن یقینا شکر گزاری اور اظہارِ فرحت ومسرت کا دن ہے، لیکن عید صرف نئے کپڑے پہننے اور اپنی شان وشوکت کے اظہار کا نام نہیں ہے۔ عید کی بھی کچھ سنتیں اور آداب ہیں۔ اِس وقت جبکہ ذوالحجہ کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عیدالاضحی اور قربانیکے احکام وآداب پر کچھ گفتگو کی جائے، تاکہ ہم میں سے ہر ایک عید الاضحی کے فوائد و برکات کو حاصل کر سکے۔

عیدالاضحی کے احکام وآداب
(1) ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں کی فضیلت:

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ما من أیام العمل الصالح فیھن أحب إلی اللّٰہ من ھذہ الأیام العشر، قالوا: یا رسول اللّٰہﷺ ولا الجھاد في سبیل اللّٰہ؟ فقال رسول اللّٰہﷺ: ولا الجھاد في سبیل اللّٰہ، إلا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذلک بشیء‘‘۔ [صحیح بخاری 969، سنن ترمذی 757، علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، الفاظ سنن کے ہیں۔ ]

’’ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلے میں کوئی اور ایام ایسے نہیں ہیں جن میں نیک اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہوں، صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ محبوب ہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا محبوب نہیں ہے، البتہ وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکلے، اور سب کچھ لٹا دے (تو اس کا معاملہ دوسرا ہے)۔ ‘‘

(2) ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں تکبیر کہنا:

امام بخاری نے اپنی کتاب میں تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بازار جاتے تو تکبیر کہتے، اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تکبیر کہتے۔ ‘‘ [صحیح بخاری، باب فضل العمل فی ایام التشریق]

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :

’’جمہور سلف، فقہائے صحابہؓ اور ائمہ مجتہدین کا مسلک یہ ہے کہ یوم عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے۔ نیز نمازِ عید کے لیے نکلتے وقت ہر شخص بلند آواز سے تکبیر کہے۔ ‘‘ [مجموع فتاویٰ: 24؍220]

یعنی 9؍ ذی الحجہ کی فجر سے 13؍ ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے۔

تکبیر کے الفاظ:

شریک فرماتے ہیں کہ میں نے ابو اسحاق سے پوچھا کہ حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تکبیر کیسے کہتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ دونوں کہا کرتے تھے:

’’اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، لا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، وللّٰہ الحمد‘‘۔ [مصنف ابن ابی شیبہ 5653، صحیح]

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ان الفاظ میں تکبیر کہا کرتے تھے:

’’اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، وللّٰہ الحمد، اللّٰہ أکبر وأجلّ، واللّٰہ أکبر علی ما ھدانا‘‘۔ [السنن الکبری للبیہقی 6280، صحیح]

نوٹ: تکبیر کے ان الفاظ اور دیگر ثابت شدہ الفاظ میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔

(3) یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت:

9؍ذی الحجہ کو یومِ عرفہ کہا جاتا ہے۔ اس دن حجاجِ کرام میدانِ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ اس دن وہاں حاجیوں کے لیے روزہ رکھنا ممنوع ہے، البتہ غیر حاجیوں کے لیے اس دن کا روزہ انتہائی فضیلت کا حامل ہے۔ حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا:

’’أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ، والسنۃ التی بعدہ۔ ‘‘ [صحیح مسلم1162:196]

’’مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ پچھلے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ ‘‘

(4) عید کے لیے غسل کرنا اور عمدہ کپڑا پہننا:

حضرت نافعؒ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ عید الفطر کے دن عیدگاہ جانے سے قبل غسل کرتے تھے‘‘۔ [موطا امام مالک:1؍177]

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت نافعؒ سے دریافت کیا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا عید کے دن کیا معمول تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’وہ امام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتے، پھر گھر واپس آتے اور غسل فرماتے، اور عمدہ ترین لباس زیب تن فرماتے، اور سب سے اچھی خوشبو لگاتے، پھر عید گاہ کے لیے نکلتے۔ ‘‘ [مسند الحارث207، حسن]

علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں :

’’مستحب یہ ہے کہ عید کے دن غسل کرے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ عید الفطر کے دن غسل کرتے تھے۔ یہ عمل حضرت علیؓ سے بھی منقول ہے۔ ‘‘ [المغنی:3؍256]

(5) بغیر کچھ کھائے عید گاہ جانا:

حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں :

’’کان النبيﷺ لا یخرج یوم الفطر حتی یطعم، ولا یطعم یوم الأضحی حتی یصلي‘‘، [سنن ترمذی 542، صحیح]

’’اللہ کے رسولﷺ عیدالفطر کے دن عیدگاہ کے لیے نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھالیں، اور عیدالاضحی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے یہاں تک کہ نمازِ عید ادا کرلیں۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے:

’’کان رسول اللّٰہﷺ لا یغدو یوم الفطر حتی یأکل، ولا یأکل یوم الأضحی حتی یرجع، فیأکل من أضحیتہ‘‘، [مسند امام احمد22984، حسن]

’’اللہ کے رسولﷺ عیدالفطر کے دن عیدگاہ کے لیے نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھالیں، اور عیدالاضحی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے یہاں تک کہ واپس آجائیں، پھر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے۔ ‘‘

البتہ اگر عید گاہ جانے سے قبل کچھ کھا لیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ ابوبردہؓ بن نِیَار نے نماز سے قبل قربانی کردی، اور نماز کے لیے نکلنے سے قبل اس کا گوشت تناول فرما لیا، تو نبی کریمﷺ نے ان کے کھالینے پر نکیر نہیں فرمائی، البتہ انہیں دوسرا جانور قربان کرنے کا حکم دیا۔ [صحیح بخاری955]

(6) عیدین کی نماز کے لیے عیدگاہ جانا:

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں :

’’کان رسول اللہ ﷺ یخرج یوم الفطر والأضحی إلی المصلی‘‘۔ [صحیح بخاری956، صحیح مسلم889]

’’اللہ کے رسولﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ جاتے تھے‘‘۔

نوٹ: مسنون اور افضل یہی ہے کہ عید کی نماز شہر سے باہر عیدگاہ میں جاکر ادا کی جائے، البتہ اگر بارش ہو رہی ہو یا کوئی دوسرا عذر ہو تو عید کی نماز مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے۔

(7) عید گاہ پیدل جانا:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :

’’کان رسول اللہ ﷺ یخرج إلی العید ماشیا، ویرجع ماشیا‘‘۔ [سنن ابن ماجہ1295، حسن]

’’اللہ کے رسولﷺ عیدگاہ پیدل جاتے اور پیدل واپس آتے‘‘۔

نوٹ: عیدگاہ پیدل جانا مسنون اور افضل ہے، البتہ اگر عیدگاہ دور ہو، یا کوئی عمر دراز آدمی ہو جسے پیدل جانے میں مشقت ہو، یا بیمار ہو، یا کوئی اور عذر ہو تو سواری پر عیدگاہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [دیکھیں : المغنی3؍262]

(8) عیدگاہ آنے اور جانے کا راستہ تبدیل کرنا:

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں :

’’کان النبيﷺ إذا کان یوم عید خالف الطریق‘‘۔ [صحیح بخاری 986]

’’نبی کریمﷺ عید کے دن عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل فرماتے تھے۔ ‘‘

(9) عیدین کی نماز کا تاکیدی حکم:

حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں :

’’أمرنا رسول اللّٰہ ﷺ أن نخرجھن في الفطر والأضحی، العواتق والحیض وذوات الخدور، فأما الحیض فیعتزلن الصلاۃ، ویشھدن الخیر ودعوۃ المسلمین، قلت: یا رسول اللّٰہﷺ إحدانا لا یکون لھا جلباب، قال: لتلبسھا أختھا من جلبابھا‘‘۔ [صحیح مسلم890:12]

’’اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں نوجوان، ماہواری میں مبتلا اور پردہ نشین خواتین کو لائیں، البتہ ماہواری میں مبتلا خواتین نماز نہ پڑھیں، بلکہ مسلمانوں کے ساتھ دعائے خیر میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس جلباب نہ ہوتو؟ آپؐ نے فرمایا: اس کی سہیلی اسے اپنے جلباب میں لے لے۔ ‘‘

(10) عید الاضحی کی نماز کا وقت:

جب سورج ایک نیزے کے بقدر بلند ہوجائے تب اس کا وقت شروع ہوتا ہے اور زوال تک رہتا ہے، البتہ عیدالاضحی کی نماز جلدی پڑھنی چاہیے۔ علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں :

’’اللہ کے رسولﷺ عیدالفطر کی نماز تاخیر سے پڑھتے تھے، اور عیدالاضحی کی نماز جلدی۔ ‘‘ [زادالمعاد: 1؍425]

اس لیے امام کو چاہیے کہ وہ عیدالاضحی کی نماز جلدی پڑھائے، تاکہ لوگ جلدازجلد قربانی کرسکیں۔

(11) عیدین کی نماز کے لیے اذان واقامت کا حکم:

حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں :

’’صلیت مع رسول اللّٰہ ﷺ العیدین، غیر مرۃ ولا مرتین، بغیر أذان ولا إقامۃ‘‘۔ [صحیح مسلم887]

’’میں نے اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ بارہا عیدین کی نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی۔ ‘‘

(12) عیدین کی نماز کے ساتھ نفل نماز کا حکم:

نمازِ عید سے قبل اور اس کے بعد کوئی نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

’’أن رسول اللّٰہ ﷺ خرج یوم أضحی، أو فطر، فصلی رکعتین، لم یصل قبلھا ولا بعدھا‘‘۔ [صحیح مسلم884، صحیح بخاری964، 989، 1431]

نبی کریمﷺ عیدالاضحی یا عیدالفطر کے دن عید گاہ آئے، اور دو رکعت (عید کی) نماز پڑھی، آپﷺ نے نہ اس سے قبل کوئی (نفل) نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ ‘‘

(13) عیدین کی رکعات کی تعداد:

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :

’’صلاۃ السفر رکعتان، وصلاۃ الجمعۃ رکعتان، والفطر والأضحی رکعتان، تمام غیر قصر، علی لسان محمدﷺ‘‘۔ [سنن ابن ماجہ1064، صحیح]

’’سفر کی نماز دو رکعتیں ہیں، جمعہ کی نماز دو رکعتیں ہیں، فطر اور اضحی کی نماز دو رکعتیں ہیں، (اِن نمازوں کی یہ دو رکعتیں ) مکمل ہیں، قصر نہیں۔ اور اللہ کے رسولؐ کی زبان سے ہیں ‘‘۔

(14) عیدین کی نماز میں تکبیراتِ زوائد کی تعداد:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

’’أن رسول اللہ ﷺ کان یکبر فی الفطر والأضحی، فی الأولی سبع تکبیرات، وفی الثانیۃ خمسا‘‘۔ [سنن ابوداود1149، سنن ابن ماجہ1280، حسن]

’’اللہ کے رسولﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں پہلی رکعت میں ساتھ تکبیریں کہتے، اور دوسری رکعت میں پانچ‘‘۔

علقمہ اور اسود فرماتے ہیں :

’’أن ابن مسعودؓ کان یکبر فی العیدین تسعا تسعا، أربعا قبل القراء ۃ، ثم کبر فرکع، وفی الثانیۃ یقرأ، فإذا فرغ کبر أربعا، ثم رکع‘‘۔ [مصنف عبدالرزاق5686، صحیح]

’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ عیدین میں نو نو تکبیریں کہتے، (پہلی رکعت میں ) قراء ت سے پہلے چار تکبیریں کہتے، پھر (قراء ت کے بعد) تکبیر کہہ کر رکوع کرتے، اور دوسری رکعت میں قراء ت کرتے، اور جب اس سے فارغ ہوتے تو چار تکبیریں کہتے، پھر رکوع کرتے‘‘۔

نوٹ: پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے کی چار تکبیروں میں تکبیرِ تحریمہ شامل ہے، اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد کی چار تکبیروں میں تکبیرِ رکوع شامل ہے، اس طرح ہر رکعت میں تکبیراتِ زوائد تین تین ہوئیں۔

علامہ البانیؒ فرماتے ہیں ’’صحیح بات یہ ہے کہ تکبیراتِ عیدین کے معاملے میں بڑی گنجائش ہے، جو چاہے چار چار کہے، اور جو چاہے پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ کہے۔ یہ سب جائز ہے، اور ان میں سے جس پر بھی عمل کرلے تو سنت کے مطابق عمل کیا۔ تعصب اور فرقہ بندی کی کوئی ضرورت نہیں۔ گرچہ سات اور پانچ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ اس کی روایتیں زیادہ ہیں ‘‘۔ [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ6؍1263، 1264]

تکبیراتِ زوائد میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔ [المغنی3؍272]

تکبیراتِ زوائد سنت ہیں، انہیں جان بوجھ کر یا بھول کر ترک کر دینے سے نماز باطل نہیں ہوگی۔ [المغنی3؍275]

(15) نماز کے بعد خطبہ:

سنت یہ ہے کہ عیدین کا خطبہ نماز کے بعد ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

’’شھدت العید مع رسول اللّٰہﷺ، وأبي بکر وعمر وعثمان رضي اللّٰہ عنھم، فکلھم کانوا یصلون قبل الخطبۃ‘‘۔ [صحیح بخاری 962، صحیح مسلم884:1]

’’میں نے اللہ کے رسولﷺ اور حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ عید کی نماز پڑھی، یہ تمام حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔ ‘‘

(16) عید کی مبارک باد دینا:

محمد بن زیادؒ فرماتے ہیں : ’’میں حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ رہا ہوں، یہ حضرات جب نمازِ عید سے لوٹتے تو ایک دوسرے سے کہتے: ’’تقبل اللّٰہ منّا ومنک‘‘ (اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے)۔ ‘‘ [الجوہر النقی3؍320، امام احمدؒ نے اس کی سند کو عمدہ قرار دیا ہے۔ ]

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ سے عید کی مبارک باد دینے کے بارے میں استفسار کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: ’’نمازِ عید کے بعد ’’تقبل اللّٰہ منّا ومنکم‘‘ (اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے) اور ’’أحال اللّٰہ علیک‘‘ (اللہ یہ مبارک دن بار بار آپ کی زندگی میں لائے)جیسی دعاؤں کے ذریعے مبارک باد دینا بعض صحابہ کرامؓ سے نقل ہوا ہے، اور امام احمدؒ وغیرہ ائمۂ کرامؒ نے اس کی اجازت دی ہے۔ ‘‘ [مجموع فتاویٰ24؍253] چنانچہ ِان کلمات اور اِن کے علاوہ دیگر کلمات اور دعاؤں سے ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ خلافِ شرع نہ ہوں۔

قربانی کے مسائل
(1) ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد بال اور ناخن کاٹنے کا حکم:

جو شخص قربانی کا ارادہ کرلے اس کے لیے مسنون ہے کہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربا نی کا جانور ذبح کرنے تک نہ اپنے بال کاٹے اور نہ ناخن کتروائے۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’من کان لہ ذبح یذبحہ، فإذا أھل ھلال ذي الحجۃ، فلا یأخذن من شعرہ ولا من أظفارہ شیئا، حتی یضحي‘‘۔ [صحیح مسلم1977]

’’جس کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو وہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے، یہاں تک کہ قربانی کرلے۔ ‘‘

اور جو افراد قربانی نہ کررہے ہوں ان کے لیے بھی یہ اہتمام کرنا مستحب ہے۔

(2) قربانی کا حکم:

ہر خوش حال مسلمان جو قربانی کرسکتا ہو، اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘۔ [سنن ابن ماجہ 3132، حسن]

’’جو شخص گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ ‘‘

(3) قربانی کا وقت:

قربانی کا وقت نمازِ عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگر کسی نے نماز سے قبل قربانی کا جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور اسے دوسرا جانور ذبح کرنا ہوگا۔ حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’من ذبح قبل الصلاۃ فإنما ذبح لنفسہ، ومن ذبح بعد الصلاۃ فقد تم نسکہ وأصاب سنۃ المسلمین‘‘۔ [صحیح بخاری 5556، صحیح مسلم1961]

’’جس نے نماز سے قبل ذبح کیا تو اس نے اپنے لیے ذبح کیا، اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اس نے اپنی قربانی پوری کرلی اور مسلمانوں کا طریقہ پالیا۔ ‘‘

(4) قربانی کے ایام:

قربانی کے ایام کے بارے میں سلف کی دو رائیں ہیں۔ ایک کے مطابق 12؍ ذی الحجہ تک اور دوسری رائے کے مطابق 13؍ ذی الحجہ تک قربانی کرسکتے ہیں۔ دوسری رائے قوی ہے، اس لیے کہ اس کی تائید حدیث نبویﷺ سے ہوتی ہے:

’’وکل أیام التشریق ذبح‘‘۔ [مسند امام احمد 16751، صحیح]

’’ایام تشریق کے تمام دن ذبح کے لیے ہیں۔ ‘‘

البتہ پہلے دن یعنی 10؍ ذی الحجہ کی قربانی افضل ہے۔

(5) قربانی کے جانوار:

ڈاکٹر وہبہ زحیلی فرماتے ہیں : ’’مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو جانور قربانی میں ذبح کیے جا سکتے ہیں وہ آٹھ ہیں : بکرا بکری، بھیڑ (نر ومادہ)، اونٹ اونٹنی، گائے بیل۔ ‘‘ [التفسیر المنیر23؍127]

(6) بھینس کی قربانی کا حکم:

چونکہ عرب اور بالخصوص حجاز میں بھینس کا وجود نہیں ہے، اس لیے قرآن وحدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ غیر عرب علاقوں میں بھینس پائی جاتی ہے، اور علمائے لغت نے اسے گائے ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے۔ اسی طرح زکوۃ کے سلسلے میں فقہاء نے بھینس کو گائے ہی کے حکم میں رکھا ہے۔

اس کی قربانی کے سلسلے میں اختلاف ہے، جواز اور عدمِ جواز دونوں کی رائیں پائی جاتی ہیں، احناف کے نزدیک اس کی قربانی جائز ہے، یہی رائے مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اہلِ لغت نے اسے گائے ہی کی جنس سے قرار دیا ہے۔

(7) قربانی کے جانور کی شرائط :

قربانی کا جانور دو دانت والا ہونا چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

’’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً، اِلَّا أَنْ یَعْسُرَ عَلَیْکُمْ، فَتَذْبَحُوْا جَذْعَۃً مِنَ الضَّأْنِ‘‘۔ [صحیح مسلم1963]

’’قربانی صرف مسنۃ (دو دانت) والے ہی کی کرو، البتہ اگر مسنۃ نہ ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ) قربان کرسکتے ہو۔ ‘‘

قربانی کا جانور عیب دار یعنی لنگڑا، اندھا، کانا یا انتہائی لاغر نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:

’’أربع لا تجوز في الأضاحي: العوراء بین عورھا، والمریضۃ بین مرضھا، والعرجاء بین ظلعھا، والکسیر التي لا تنقي‘‘۔ [سنن ابوداود2802، سنن ترمذی1497، سنن نسائی 4369، سنن ابن ماجہ 3144، صحیح]

’’چار طرح کے جانور قربانی میں جائز نہیں ہیں : ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اور ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اور ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن واضح ہو، اور انتہائی لاغر جانور۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں :

’’أمرنا رسول اللہ ﷺ أن یستشرف العین والأذنین‘‘۔ [سنن ابو داود2804، سنن ترمذی1503، حسن]

’’اللہ کے رسولؐ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آنکھ اور دونوں کان اچھی طرح دیکھ لیں ‘‘۔

اسی طرح ’’عضباء‘‘ جانور کی ممانعت ہے، جس کی وضاحت حضرت سعید بن مسیبؒ نے یہ فرمائی کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کان تھوڑا سا کٹا ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی ایک روایت میں دو مزید جانوروں کی ممانعت ہے: ایک خارش والا جانور، اور دوسرا وہ جانور جس کا تھن کٹا ہوا ہو۔ گرچہ یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن بہتر ہے کہ اس طرح کے عیب دار جانور کی قربانی سے پرہیز کیا جائے۔

ان عیوب کے علاوہ اگر کوئی معمولی نقص ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، اسے قربان کیا جا سکتا ہے۔

(8)قربانی کے جانور میں شرکت کا حکم:

قربانی کے جانور میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ ایک اونٹ یا ایک گائے میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں :

’’نحرنا مع رسول اللّٰہﷺ عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ، والبقرۃ عن سبعۃ‘‘۔ [صحیح مسلم1318]

’’ہم نے اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ صلح حدیبیہ کے سال ایک اونٹ اور ایک گائے سات سات افراد کی جانب سے قربان کیا۔ ‘‘

دوسری روایت میں یہ ہے کہ ایک اونٹ میں دس افراد، اور ایک گائے میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

’’کنا مع رسول اللّٰہﷺ في سفر، فحضر الأضحی، فاشترکنا في البقرۃ سبعۃ، وفي البعیر عشرۃ‘‘۔ [سنن ترمذی 1501، سنن نسائی 4392، سنن ابن ماجہ 3131، صحیح]

’’ہم اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ ایک سفر پہ تھے، عیدالاضحی کا موقع آگیا، تو ایک گائے میں سات افراد اور ایک اونٹ میں دس افراد شریک ہوگئے۔ ‘‘

بکری میں شرکت نہیں کی جاسکتی۔ ایک بکری صرف ایک شخص اور اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے کافی ہوگی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں :

’’کان الرجل یضحي بالشاۃ عنہ وعن أھل بیتہ‘‘۔ [سنن ترمذی 1505، سنن ابن ماجہ 3147، صحیح]

’’عہد ِ نبویﷺ میں ایک شخص ایک بکری اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کی جانب سے قربان کرتا تھا۔ ‘‘

اسی طرح گائے اور اونٹ کا ساتواں حصہ ایک شخص اور اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے کافی ہوگا۔

(9)قربانی کے گوشت کو بیچنے کا حکم:

قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچنا یا قصاب کو بہ طورِ اجرت دینا جائز نہیں ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں :

’’أمرني رسول اللّٰہ ﷺ أن أقوم علی بدنہ، وأن أتصدق بلحمھا وجلودھا وأجلتھا، وأن لا أعطي الجزار منھا‘‘۔ [صحیح مسلم1317، صحیح بخاری 1717]

’’اللہ کے رسولﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپؐ کے اونٹ کے پاس کھڑا رہوں، اور قربانی کے بعد اس کے گوشت، کھال اور اوجھ کو صدقہ کر دوں، اور قصاب کو اس میں سے (بہ طورِ اجرت) کچھ نہ دوں۔ ‘‘

(10) قربانی کا طریقہ:

قربانی کرنے سے پہلے آلاتِ ذبح تیز کرلیے جائیں۔ پھرقربانی کے جانور کو قبلہ رخ بائیں پہلو لٹا کر یہ دعا پڑھی جائے:

’’ اِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا، وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیاَ يَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ، وَأنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘۔

پھر ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘‘ کہہ کر ذبح کرے۔ [سنن ابوداود2795، سنن ابن ماجہ3121، حسن]

ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

’’اَللّٰھُمَّ ھٰذَا مِنْکَ وَلَکَ، اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ‘‘۔

اگر کسی اور کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو تو ’’مِنِّيْ‘‘ کے بجائے ’’مِنْ‘‘ کے بعد اس کا نام لیا جائے۔ اگر ایک شخص کا نام ہو تو ایک اور اگر ایک سے زائد ہوں تو ان سب کا الگ الگ نام لے۔

اپنی قربانی کا جانور خود ذبح کرنا بہتر ہے، اور اگر کسی و جہ ذبح نہ کرسکے تو کم از کم اس کے پاس کھڑا رہے۔

(11) خواتین کی قربانی کا حکم:

مردوں کی طرح خواتین بھی قربانی کرسکتی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے حجۃالوداع کے موقع پر امہات المومنینؓ کی جانب سے ایک گائے قربان کی۔ [صحیح بخاری 5548]

خواتین بذات خود اپنے ہاتھ سے بھی قربانی کرسکتی ہیں۔ حضرت ابوموسی اشعریؓ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے قربانی کریں۔ [صحیح بخاری تعلیقاً، باب من ذبح ضحیۃ غیرہ] اسی طرح دوسرے کو ذبح کے لیے وکیل بھی بنایا جاسکتا ہے۔

(12)میت کی جانب سے قربانی کرنا:

میت کی طرف سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے، البتہ اپنی طرف سے قربانی کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :

’’میت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے، جس طرح سے اس کی جانب سے حج کرنا، غلام آزاد کرنا اور صدقہ کرنا جائز ہے۔ ‘‘ [مجموع فتاوی: 24؍315]

حضرت جابرؓ کی حدیث میں ہے کہ:

’’اللہ کے رسولﷺ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور یہ دعا پڑھی: بسم اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، اللھم إن ھذا عني وعمن لم یضح من أمتي‘‘۔ [سنن ابوداود2810، سنن ترمذی1521، صحیح]

’’اللہ کے نام سے، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! یہ میری جانب سے ہے اور میری امت میں جس نے قربانی نہیں کی اس کی جانب سے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

علماء نے اس حدیث سے میت کی جانب سے قربانی کرنے کا جواز مستنبط کیا ہے، کیونکہ آپؐ کی امت کے بہت سے افراد وفات پاچکے تھے اور آپؐ نے ان کی جانب سے قربانی کی۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply