پاکستان میں شعبہ سیاحت کا فروغ ایک سراب۔۔سید عمران علی شاہ

پروردگارِ عالم نے ارض ِ وطن پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ہے،آبی ذخائر، کوہسار، صحرا ، معدنیات، چار موسم اور سب سے بڑھ کر حسین وادیاں، اس ملک کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

اگر دنیا کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ، چند ایک ممالک کی تو پوری کی پوری معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے، سنگاپور، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، ڈنمارک اور متحدہ عرب امارات کی معیشت کا ایک بڑا حصّہ سیاحت کی صنعت پر منحصر ہے۔

اس صنعت کی سب سے اہم بات یہ کہ اس کے فروغ کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر شعبہ جات کو بالواسطہ یا بلاواسطہ بیش بہا مالی اور معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں،پاکستان میں خوش قسمتی سے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ہر ایک علاقے میں ایک سے بڑھ کر ایک سیاحتی مقامات موجود ہیں،اس کے علاوہ پورے ملک میں بہت سارے ایسے مقامات موجود ہیں کہ جو خوبصورتی  میں اپنی مثال آپ ہیں، مگر ان مقامات کو   ابھی صحیح طور پر اس لیے دریافت نہیں کیا جا سکا کیونکہ وہاں تک پہنچنے کے راستے دشوار گزار ہیں۔

وزیراعظم پاکستان اپنے ہر   خطاب میں بارہا سیاحت کی صنعت کے فروغ کے حوالے سے اپنی مؤثر حکمت عملی کا اظہارِ کر چکے ہیں،مگر دوسری طرف حقائق بہت تلخ اور اس کے برعکس ہیں۔

پاکستان میں سیاحوں کی سب سے زیادہ تعداد ہمیشہ مری، نتھیا گلی اور ایوبیا کی طرف کا رخ کرتی رہی ہے،ان علاقوں میں ہوٹل مالکان اور ملازمین کا رویہ نہایت تکلیف دہ اور ہتک آمیز ہوتا ہے،ہوٹل میں  کمروں  کے  نرخ  آسمان سے باتیں کرتے ہیں، اور  صفائی کا انتظام نہایت ناقص ہوتا ہے۔

یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ چند سال قبل عوام الناس نے مری کے دکانداروں، ہوٹل مالکان اور پارکنگ سٹینڈ والوں کے بد ترین رویے سے تنگ آ کر، تقریباً ایک سال سے زائد مری جانے کا مکمّل بائیکاٹ کیے رکھا ، جس کے بعد وہاں کے مقامی تاجر  ، ہوٹل مالکان   پرنٹ، الیکٹرانک   اور سوشل میڈیا پر اپنے رویے کی معافی مانگتے ہوئے نظر آئے،
اور اس کے بعد کچھ عرصے تک وہاں بہتری بھی آئی۔

مگر اب پھر مری اور اس کے گرد نواح کے ہوٹل مالکان اور تاجروں کا رویہ دن بدن تکلیف دہ ہوتا چلا جا رہا ہے،کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں اور ان کا میعار اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصدا ق  نہایت ناقص ہے۔

ان تمام جگہوں  پر گداگروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ہے، جو کہ سیاحوں کو بہت تنگ کر رہے ہوتے ہیں، یہاں کچھ لوگ ڈیجیٹل کیمروں کے ساتھ، سیاحوں کے ادر گرد منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور فیملیز کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر کھینچ کر ان سے پیسے  لے  مزید تصاویر  بنوانے کا تقاضا کر کے تنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان مقامات پر اگر سیاح کسی بیٹھے کی جگہ کو استعمال کر لیں تو وہاں پر موجود دکاندار، ان سے یا تو اس جگہ پر بیٹھنے کے چارجز مانگتے ہیں یا پھر سیاحوں سے اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی دکانوں سے خریداری کریں،سیاح ان کی غیر معیاری اشیاء کو کھانے پینے  سے احتیاطاً      گریز کرتے ہیں ۔

مری اور گلیات کے علاقوں میں پارکنگ مافیا سیاحوں کو بیحد پریشان کرتے ہیں،پارکنگ کے چارجز بھی بہت زیادہ دینے پڑتے ہیں،ویک اینڈ پر تو ہوٹل مالکان کی چاندی ہوجاتی  ہے اور وہ کمروں کے کرائے  3 سے 5 ہزار یومیہ تک بڑھا دیتے ہیں ، ہوٹل مالکان کے کارندے ہوٹلز کے باہر کھڑے ہو کر سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر جن سہولیات کا ذکر وہ ہوٹل کے کمرے دینے سے قبل سیاحوں سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا وہ سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں اور اگر ہوتی ہیں تو    ناکافی۔
مگر کیونکہ سیاحوں سے ان کمروں کے کرائے ایڈوانس میں وصول کر لیے جاتے ہیں تو ایسے میں سیاحوں اور ہوٹل مالکان و عملے کے مابین جھگڑا ہوجانا معمول بن  چکا ہے،مری اور گلیات کی مارکیٹوں  میں خریداری بھی سیاحوں کے لیے بہت بڑی پریشانی ہوتی ہے، وہ غیر معیاری چیزوں کو مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں،مری اور گلیات میں ناجائز تجاوزات ٹریفک کی روانی کو شدید متاثر کرتی ہے۔

سیاحت کے شعبے کی ترقی بلاشبہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں بہت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے،مگر سب سے پہلے حکومت کو سیاحوں کو محفوظ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے،
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاحوں اور ان کی فیملیز کو بہتر تفریح سے لطیف اندوز ہونے کے لیے، مافیا کو کنٹرول کرنا ہوگا،حکومت کی جانب سے عوام الناس کے صاف اور مفت پانی کی ترسیل کا مؤثر نظام رائج کرنا ہوگا۔

حکومت کو مری اور گلیات میں قابل عمل پرائس کنٹرول میکانزم متعارف کروانا ہوگا،
کھانے پینے کی اشیاء کے میعار کو باقائدگی  سے نہ صرف چیک کیا جائے بلکہ غیر معیاری اشیاء فراہم کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دی جانی چاہئیں ،سیاحوں کی آسانی کے لیے گورنمنٹ کی زیر سرپرستی محفوظ پارکنگ کا انتظام کرنا ہوگا،سیاحوں کے لیے مفت اور برق رفتار انٹرنیٹ سروس کی سہولت کو یقینی بنایا جانا چاہیے،ہوٹل مالکان کے لیے سخت قسم کا ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا، جس میں ان کو پابند کیا جائے کہ وہ ناجائز منافع خوری نہ کریں، اور جن سہولیات کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ سہولیات سیاحوں کو فراہم بھی کی جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ  کہ وہ کسی بھی صورتحال میں سیاحوں اور ان کی فیملیز سے بداخلاقی کے مرتکب نہ ہوں ، ایسا ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر مکمّل عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا،سیاحت کا فروغ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک سیاحوں کو مکمّل تحفظ، عزت و احترام یقینی نہ بنایا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہمارے احساسات اور خیالات لمحوں میں پوری دنیا تک پہنچ جاتے ہیں،
یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ جب ملک کے مقامی سیاح محفوظ ہونگے، تو بجا طور پر پوری دنیا سے مزید سیاح ہمارے ملک میں ان مقامات کی سیر کرنے آئیں گے،
اگر پاکستان میں شعبہ سیاحت کو فروغ دینا ہے تو پھر حکومت کو اعلانات سے نکل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ سیاحت کا شعبہ ملکی معیشت کو پروان چڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے،
ورنہ تو سیاحت کا فروغ محض ایک سراب ہی رہے گا۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply