سفرنامہ روس /پاؤں نہیں دل تھکتا ہے (حصّہ سوم)۔۔سیّد مہدی بخاری

ایسے لوگ ہیں جو ماضی کے بارے غمگین و اداس یادیں رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں کے عموما حال و مستقبل کے بارے میں بھی اسی طرح کے افسردہ کن تصورات ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں ماضی کے بارے جن کی یادیں درخشاں و تاباں ہیں۔ان کے خیالوں میں حال و مستقبل چمکتا ہے۔ تیسری قسم کے لوگوں کی یادیں خوش کن و غمگین، تاباں و اداس، درخشاں و ملول سبھی سے مزین ہیں۔ کہیں اتنی خوشی کہ ہنستے ہنستے آنکھ بھر آئے اور کہیں ایسے دکھ کہ بھری آنکھ کا چشمہ پھوٹ پھوٹ بہتا رہے۔ میرا تعلق اسی تیسری قسم سے ہے۔
میرے راستے ہمیشہ ہموار نہیں رہے۔ میرے ماہ و سال ہمیشہ آسانی سے نہیں گزرے ہیں۔ اے مرے دوستو! اے میرے پڑھنے والو! آپ کی طرح اس معاشرے و بیرون ممالک بڑے بڑے واقعات کی گردش میں سیر ہوئی ہے بس اس فرق کہ ساتھ کہ کئی لوگوں کو خدا قلمبند کرنے، دکھ درد کہنے، مزاح کے پھول کو دھاگے میں پرو کر ہار بنانے کا فن دے دیتا ہے۔ ایک عام سی بات، اک سادہ سا قصہ، اک راہ چلتی واردات، یا کوئی ان کہی جو کہتے کہتے کہیں رہ گئی ان سب کو کشید کر کے عرق کی صورت خوشبو کے پیرہن میں پیش کر دیتے ہیں۔ ہر غیر معمولی واقعہ حساس ذہن کو ہلا دیتا ہے۔ فنکاروں کو غمناک و خوش کن واقعات سے کترا کر نہیں گزرنا چاہیئے۔ وہ برف نہیں پتھر پر نقش ہوتے ہیں اور میں ماضی کے دھندلکوں سے نکال کر، خود پر بیتتے حال کو سمیٹے، مستقبل کے اندازے لگاتا آپ کے سامنے آتا ہوں اور آپ کے در پر دستک دے کر کہتا ہوں “اے مرے اچھے دوستو! یہ میں ہوں۔ مجھے اندر آنے کی اجازت دو”۔
سائبیریا کی ڈھلوانوں، دور دراز کی جھیلوں اور کتابوں کے خداوں شولوخوف، حمزہ رسول، گورکی، ٹالسٹائی کو آنکھ میں سمائے میں لاہور ائیرپورٹ پر کھڑا تھا۔ پاکستانی امیگریشن سے میرا تعارف پرانا ہو چکا ہے۔ اول اول ، کئی برس پہلے، جب نیا نیا ملک سے باہر کا سفر درپیش ہوتا یہ امیگریشن کی چوکی پار کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ اہلکار سارے بدن کا جائزہ لیتا، چہرے کو گھورتا، پاسپورٹ کو پرکھتا، پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرتا۔
“کیوں جا رہے ہو ؟ کس کے پاس جا رہے ہو ؟ ہوٹل بکنگز کہاں ہیں ؟ کتنے ڈالرز تمہارے پاس ہیں ؟ “۔ یہی سوالات گھوم پھر کر ہر بار دہرائے جاتے اور ان سب کے وہی جوابات میں ان دے دیتا جو ہر بار دیتا آیا تھا۔ اہلکار کبھی کبھی پھر بھی مطمئن نہ ہوتے اور چہرے کو گھورتے، ناگواری کے ساتھ تصویر کھینچتے اور نجانے کیا سوچتے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی سٹمپ لگا دیتے۔ جیسے کسی مجبوری میں یہ عمل سرانجام دے رہے ہوں۔ سن 2008 میں پہلا سفر درپیش ہوا۔ میری منزل ملائیشیا تھی۔ امیگریشن آفیسر نے مجھے لائن سے نکل کر الگ کھڑے ہو جانے کا حکم دیا تھا۔ میں قطار سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
اس نے ساری قطار کو بھگتایا۔ فلائٹ کا وقت گزرا جا رہا تھا۔ پریشان ہو کر میں نے گھڑی دیکھی اور اسے کہا “فلائٹ کا وقت گزر رہا ہے برائے مہربانی مجھے جانے دیں”۔ اس نے کسی اور کے پاسپورٹ پر سٹمپ لگاتے بنا میری سمت دیکھے کہا ” ہوں ۔۔۔ جانے دیں۔ کیسے جانیں دیں ؟ ہوٹل بکنگز کہاں ہیں ؟ “۔ میں نے پریشانی کے عالم میں گھبراتے ہوئے ٹوٹے جملوں میں کہا تھا ” میں ہوٹل میں نہیں ٹھہروں گا۔ وہاں میری سسرالی فیملی کے قریبی لوگ ہیں۔ میرے چچا سسر لگتے ہیں۔ وہ مجھے ائیرپورٹ سے لیں گے اور انہی کے ہاں میرا قیام ہو گا”۔ سچ بھی یہی تھا۔ اس نے یہ سن کر مجھے کہا ” وہ پیچھے والے کیبن میں چلے جاو اور وہاں بیٹھے شخص کو یہ بتاو۔
کیبن میں دو نوجوان پہلے سے کھڑے کسی منت ترلے میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کو فارغ کر کے آفیسر نے مجھے اندر بلایا۔ میں نے اندر داخل ہوتے ہی ساری بات گھبراہٹ کے عالم میں دہرا دی۔ زندگی کا پہلا بیرون ملک سفر ہو، آپ کی عمر 24 سال ہو، آپ کے پاس کوئی تجربہ نہ ہو کہ آگے کیا ہو گا،جہاں جا رہا ہوں وہاں کی دنیا کیسی ہو گی، ائیرپورٹ کا پراسس کیا ہوتا ہے، ائیرلائن میں کیسے، کس گیٹ سے جا بیٹھنا ہے وغیرہ وغیرہ تو انسان فطری طور پر گھبرایا رہتا ہے اوپر سے امیگریشن اگر آپ کو روک لے اور فلائٹ کا وقت نکلا جا رہا ہو تو آپ کیسے اس صورتحال میں نارمل رہ سکتے ہیں ؟ قصہ مختصر،وقت بھرپور ضائع کر کے مجھ سے سو ڈالز رشوت لی گئی۔ فلائٹ میں داخل ہونے والا میں آخری شخص تھا۔
رفتہ رفتہ پاسپورٹ پر ویزے لگتے رہے، وقت کے ساتھ کئی ممالک کا سفر درپیش رہا۔ امیگریشن سے تعارف ہوتا رہا۔ اب تو وہ وقت آ چکا کہ اہلکار کچھ بھی نہیں پوچھا کرتا۔ پاسپورٹ کھنگالتا ہے، ویزے دیکھتا ہے اور سٹمپ لگا دیتا ہے۔ امیگریشن اہلکار نے مسکراتے ہوئے سٹمپ لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا تو میں نے اسے جوابی مسکراہٹ چہرے پر سجائے شکریہ کہا۔ قطر ائیرویز کی فلائٹ مجھے لاہور سے دوحا لے گئی جہاں میرا 18 گھنٹے طویل قیام تھا۔ اس طویل قیام کی وجہ دنیا کو درپیش کورونا کے سبب غیر معمولی حالات تھے۔ فلائٹس کم ہو چکی تھیں۔
دوحا ائیرپورٹ اک پورا جہان ہے۔ اس جہان کی راہداریوں میں بلا سبب برائے وقت گزاری گھومتے کئی گھنٹے بیت ہی جاتے ہیں۔ رونق تھی اور بلا کی رونق۔ مسافروں کا ہجوم تھا۔ کھوے سے کھوا چل رہا تھا۔ دنیا کے ہر خطے، رنگ و نسل کا انسان اس وسیع چاردیواری کے اندر گھوم رہا تھا۔ ریسٹورنٹس، ڈیوٹی فری شاپس و پسنجر لاونجز میں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کچھ گھنٹے یونہی چپ چاپ اکیلے، کیمرا بیگ کمر پر لادے بلامقصد ہوائی اڈے میں گھومتا اب تھکنے لگا تھا۔ چلتے چلتے خالی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا اور بیٹھ کر لوگوں کی نقل و حمل تکنے لگا۔
ہوائی اڈوں پر، بس اڈوں پر، ریل کے پلیٹ فارمز پر آپ کو انسانی جذبات لوگوں کے چہروں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کوئی کسی سے بچھڑنے پر ملول ہے تو کوئی کسی سے ملنے کی خوشی چہرے پر سجائے وقت بتا رہا ہے۔ کسی کی آنکھیں دھلے ہوئے شفاف و روش آسمان کی مانند خوشی سے چمک رہی ہیں تو وہیں کہیں کوئی اداس بیٹھا ہے اور بیتابی سے گھڑیاں گن رہا ہے۔ کسی کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی ہیں۔ آستین سے آنکھ کا رشتہ قائم ہو رہا ہے۔ دور کہیں کھلکھلا کر قہقہہ گونجا ہے۔ کسی بچے نے آئس کریم کی ضد لگا رکھی ہے۔ کوئی جوڑا بانہوں میں بانہیں ڈالیں مسکراتا ہوا خراماں خراماں ٹرالی بیگ کو گھسیٹتے چلا جا رہا ہے۔ سیلز گرلز مسافروں کو ہنس ہنس کر قائل کرنے میں مصروف ہیں۔ کہیں بھوک سے ستائے مسافر پیٹ بھر رہے ہیں تو کہیں کسی کو اک نوالہ حلق سے اتارنا حرام ہو چکا ہے۔ بیک وقت، نجانے کتنے چہرے اداس بھی ہیں خوش بھی ہیں۔ قہقہوں کے بیچ کئی مسافروں کی دبی دبی سسکیاں بھی ہیں۔ کئی کہانیوں کے ٹکرے سامنے سے لہراتے گزر رہے ہیں۔ ہر انسان اک کہانی، ہر فرد اک افسانہ ہے۔
کبھی کبھی جب دنیا کی بھیڑ، گھر و باہر کے ماحول سے بیزاری ہونے لگے تو میں دور دراز کے سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہوں۔ لوگوں کو کسی جگہ ٹک کر بیٹھے دیکھتا رہتا ہوں۔ بذات خود میرے اندر خوشی و ملال کی ملی جلی کیفیت ہوتی ہے۔ سفر کی خوشی، ان دیکھی زمینوں پر قدم دھرنے کی مسرت، نئے زمان و مکان میں نئے لوگوں اور نئے رسم و رواج کے بیچ کچھ دن بسر کرنے کا خوشگوار کن احساس جو دل کو تازہ خون سے بھر جاتا ہے۔ وہیں اس زنجیر کی یاد جو گھر کے دروازے سے لے کر میرے پاوں تک بندھی ہے۔ وہ اداسی جو بیگم بچوں سے دوری پر مسافر کو آن گھیرتی ہے۔ وہ اپنے خونی رشتوں سے وقتی جدائی کا ملال۔
گھڑی دیکھی تو کئی گھنٹے ہوائی اڈے پر بیت چکے تھے۔ آدھا وقت ابھی بھی باقی تھا۔ دل تنگ پڑنے لگا تو میں اٹھا اور ہوائی اڈے میں سجی دکانوں کی ونڈو شاپنگ میں دل بہلانے لگا۔ چلتے چلتے اک سن گلاسز کی شاپ پر نظر پڑی۔ سوچا اندر چل کر دیکھا جائے۔ رے بین کے شاید کوئی نئے ماڈلز آئے ہوں۔ دیکھنے میں کیا حرج ہے ؟
اک خوبصورت سیلز گرل آگے بڑھی۔ اس نے دیکھا کہ اس کی دکان پر اکلوتا گاہک آ ہی گیا ہے تو شاید اس کے اندر کی ساری توانائی یکجا ہو کر مجھ پر نکلنے لگی۔ وہ بہت باتونی لڑکی تھی۔ ہر عینک دکھاتی اور یہی کہتی ” یہ تو آپ پر بہت جچ رہی ہے۔ یہ تو لازمی خریدنا چاہیئے”۔ میں اس قسم کے روائیتی جملے سننے کا عادی تھا۔ ہنس کر آگے بڑھ جاتا۔ وہ بھی بول بول کر شاید بیزار ہونے لگی تھی یا اسے سمجھ آ چکی تھی کہ یہ گاہک شاید کچھ خریدنے کی غرض سے نہیں آیا یونہی بس برائے وقت گزاری گھوم رہا ہے۔ وہ چپ ہو کر پیچھے ہٹ گئی۔ دور جا کر دکان کے باہر اپنی پرانی جگہ پر کھڑی ہو گئی۔ جیسے ہی اس سے جان چھوٹی، میں نے اک عینک شیلف سے اٹھائی اور چہرے پر لگا کر آئینہ دیکھنے لگا۔ عینک گو کہ اچھی تھی مگر قیمت میں بھی اچھی خاصی تھی۔ پرائس ٹیگ پڑھ کر عینک کو بحفاظت یوں شیلف پر واپس رکھنا چاہ رہا تھا جیسے جوہری کوئی اپنے ہیرے کو سنبھال کر شیلف میں رکھ رہا ہو۔
“آپ ہندوستان سے ہیں ؟ “۔ اچانک عقب سے اک نسوانی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو اک اور خوبرو لڑکی چہرے پر کمرشل مسکراہٹ سجائے کھڑی تھی۔
“نہیں مس، میں پاکستان سے ہوں۔ آپ کا شکریہ۔ مجھے اب چلنا چاہیئے”۔ میں نے اس کے ارادے بھانپتے ہوئے جواب دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ نئی سیلز گرل اب اپنی ساری توانائی مجھ پر لگانے آ چکی ہے۔
“سر! جیسا آپ چاہیں، مگر یہ گلاسز جو ابھی آپ نے پہنے یہ آپ پر سوٹ کر رہے تھے۔ میں جانتی ہوں کہ ایسے روائیتی جملے ہمارے کلائنٹس سنتے رہتے ہیں۔ پھر بھی آپ خود غور کریں۔ آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ یہ واقعی اچھے گلاسز ہیں”۔ اس نے اب کے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔ چہرے سے کمرشل مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
“ہاں، وہ تو ٹھیک ہے مگر دراصل میرے پاس گلاسز موجود ہیں۔ میں تو بس یہ دیکھنے آ گیا کہ نئے ماڈلز کے گلاسز ہوں تو اک نظر دیکھ لوں۔ فی الحال میں خریدنا نہیں چاہتا”۔ میں نے بھی کمرشل نما مسکراہٹ دے دی۔
“سر، اگر آپ خریدنا چاہیں تو میں اس پر آپ کو 20 فیصد ڈسکاؤنٹ دے سکتی ہوں۔ یقین مانیں اتنا ڈسکاؤنٹ نہیں دیا جاتا۔ مگر آجکل آپ جانتے ہیں کورونا کے سبب کاروبار کے مالی حالات اچھے نہیں۔ میرے سٹاک سے ایک پیس نکل جائے گا اور اسی پرائس پر نکل جائے گا جس پرائس پر مجھے پڑا تھا۔”۔ پھر اس نے کیلکولیٹر پر فگر لکھ کر میرے سامنے کر دیا۔
میں نے وہ رقم دیکھی۔ پاکستانی روپوں میں حساب کتاب لگانے لگا۔ وہ مجھے بے بسی سے دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے کے تاثرات ایسے ہو چکے تھے جیسے کوئی انسان اپنی ساری کوششوں کے باوجود بے بس ہو چکا ہو۔ نجانے کیوں اور کیسے میں نے اسے کہہ دیا “اوکے! دے دیں”۔ یہ سن کر وہ بچوں کی مانند خوش ہوئی۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ کریڈٹ کارڈ سے بل ادا کر کے نکلا تو وہ خوش خوش اپنی جگہ پر کھڑی تھی۔ میں نے گلاسز کو دیکھا۔ پھر سوچا ” چل جو نصیب میں تھا مل گیا۔ ”
ہوائی اڈے کی گہماگہمی میں باقی کا وقت بھی بیتتا رہا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ دوحا سے ماسکو کی فلائٹ کا اعلان ہونے لگا۔ میں نے کیمرا بیگ کمر پر لادا۔ ہوائی میزبان نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔ قطر ائیرلائن نے ماسکو کی جانب پرواز بھری۔ یہ پانچ گھنٹے طویل پرواز تھی۔ تھکن کے سبب نیند آنے لگی۔
آنکھ یوں کھلی کہ ہوائی میزبان مجھ سے کھانے کا پوچھ رہی تھی۔ کھانا مل چکا تو میرے برابر بیٹھے شخص نے مجھے مخاطب کیا۔ یہ ایک بزرگ روسی تھا جو کئی سالوں بعد اپنے وطن جا رہا تھا۔ گفتگو کا آغاز دوران ڈنر ہوا۔
“تم روس کیوں جا رہے ہو ؟ “۔ بزرگ نے مجھ سے استفسار کیا۔
“میں برائے سیاحت جا رہا ہوں۔ مجھے روس کے کچھ مقامات دیکھنے ہیں۔ ان کی تصاویر لوں گا۔ اور بس”۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا۔
“بہت خوب۔ بہت خوب۔ میں چھ سال بعد اپنے وطن جا رہا ہوں۔ اپنے پوتے پوتیوں کو ملوں گا۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں لمبی قید سے آزاد ہوا ہوں۔ میرا ایک بیٹا امریکا کی ریاست فلوریڈا میں ہوتا ہے۔ میں اس کے پاس رہتا ہوں۔ امریکا سے آ رہا ہوں اور دوسرے بیٹے کے پاس جا رہا ہوں۔ تم نے (اک عجب سا روسی نام تھا جو اب میں بھول چکا) شہر کا نام سنا ہے ؟ ماسکو شہر سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ وہاں میرا گاوں ہے۔ وہاں میرے کھیت ہیں۔ وہاں میرا جیون بیتا ہے۔ وہاں میرے دوست ہیں جو اب چند رہ چکے۔ اکثر وفات پا گئے ہیں۔ میرا گاوں دنیا کا خوبصورت ترین گاوں ہے۔ میرا گاوں روس کا سب سے پیارا گاوں ہے۔ “۔ بوڑھا بولتا جاتا تھا۔ اس کی انگریزی کچھ کچھ سمجھ آتی تھی۔ اس کا لہجہ سمجھ نہ آتا تھا۔ کچھ جہاز کا شور تھا کچھ وہ آہستہ بولتا تھا۔
میں نے گردن گھما کر بوڑھے کو بغور دیکھا۔ پتلون شرٹ میں ملبوس اک نحیف سا جسم تھا۔ کاندھے اچکے ہوئے جن کی ہڈیاں واضح تھیں۔ گردن و چہرے پر جھڑیوں نے نقشہ کھینچ ڈالا تھا۔ سر کے بال سفید اور قدرے کم تھے۔ آنکھیں روشن تھیں شاید خوشی نے انہیں اجال رکھا تھا۔ بھنووں کے بال لمبے جو پلکوں پر آن گر رہے تھے۔ ناک ستواں اور دانت اب تک سلامت تھے۔ شاید مصنوعی ہوں یہ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔
“اچھا۔ یہ تو آپ کے لئے بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ کئی سالوں بعد اپنے وطن اور دنیا کے سب سے خوبصورت گاوں جا رہے ہیں۔” ۔ میں نے بوڑھے کی سمت دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔
بوڑھے نے گیلے ٹشو پیپر سے اپنا چہرہ پونچھا۔ “ہاں۔ میں اب شاید واپس امریکا نہ جاوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب میں یہیں رہوں گا اور یہیں دوستوں کے برابر میرا تابوت میری مٹی میں اترے گا۔” یہ کہہ کر بوڑھے نے قہقہہ مارا اور میرے بائیں ہاتھ پر اپنے ہاتھ سے چت لگائی۔
“اچھا تو آپ اب مستقل اپنے گاوں رہنے جا رہے ہیں ؟ ”
“ہاں۔ میں باقی عمر وہیں کاٹوں گا۔ ویسے میں اسے (اپنے بیٹے کو) چکما دے کر آیا ہوں۔ اسے گاوں پہنچ کر بتاوں گا کہ اب میں واپس نہیں آ رہا اور یہیں دوسرے بیٹے اور پوتوں کے ساتھ رہوں گا۔ میرے بیوی کو گزرے چوبیس سال ہو گئے۔ وہ بھی گاوں میں ہی دفن ہے۔ مجھے آج بھی اس کی یاد ستاتی ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ واپس جا رہا ہوں”۔ بوڑھے نے پھر قہقہہ لگایا۔
باتوں میں ہوائی میزبان کھانے کے ڈبے سمیٹنے آئی۔ بوڑھے سے باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ بتاتا رہا کہ روس کیسا ہے، وہاں کا نظام کیسا ہے، وہاں کے حالات کیسے ہیں، فیملی سسٹم کیسا ہے۔ بوڑھے کی باتیں میں ہممم کر کے سنتا رہا۔ اس کی کئی باتیں مجھے بعد میں یاد آئیں۔ پرواز اب اترنے کے قریب تھی۔ کھڑکی سے باہر دن چڑھ آیا تھا۔ تاحد نظر سرسبز کھیت تھے جن کے بیچ گھنے جنگلات تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ماسکو اتنا بڑا شہر ہے مگر اس کے اطراف کیسا سبزہ ہے اور کیا ہی گھنے جنگلات ہیں۔ کسی میٹروپولیٹن شہر میں لینڈ کرتے میں نے کبھی اس حد تک سبزہ نہیں دیکھا تھا۔ کھیتوں کو سیراب کرنے کو نہریں تھیں۔ چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں۔ درختوں کے جھنڈ تھے۔
جہاز کے پہیوں نے ماسکو کی زمین کو چھوا۔ مسافر اترنے کو بیتاب ہونے لگے۔ میں نے اپنا دستی سامان کیبن سے نکالا اور بوڑھے کا دستی سامان بھی خود اٹھا لیا۔ بوڑھا میرے پیچھے میری کلائی تھامے چلتا جہاز سے نکلا۔ باہر نکل کر اس نے اپنا چھوٹا سا بیگ مجھ سے لیا اور مصافحہ کر کے بولا ” یسوع تمہارا سفر مبارک کرے۔” اس کی دعا میں اتنی مٹھاس تھی کہ میں وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ پھر وہ بھیڑ میں کہیں گم ہو گیا۔
صبح ساڑھے آٹھ بجے میں ماسکو ڈومو ڈی ڈوو ہوائی اڈے پر ہاتھ میں پاسپورٹ تھامے امیگریشن آفیسر کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ ایک نوجوان لڑکی تھی۔ اس نے پاسپورٹ دیکھا۔ پھر مجھے غور سے دیکھا۔ پھر اس نے محدب عدسہ لیا اور پاسپورٹ کو محدب عدسے سے آنکھ لگائے دیکھنے لگی۔ ایسا ہی اس نے روسی ویزے کے ساتھ کیا۔ دو سے تین منٹ اس نے میرے پاسپورٹ کو محدب عدسے سے دیکھا۔
“ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو۔ ماسک اتار دو۔ تصویر لینی ہے”۔ اس کے سپاٹ چہرے سے آواز آئی۔ میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ تصویر اتری۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھی، میرا پاسپورٹ تھامے کیبن سے نکل کر پیچھے کہیں غائب ہو گئی۔ کچھ منٹوں بعد ایک ہینڈسم جوان امیگریشن آفیسر میرے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں میرا پاسپورٹ تھا۔ مجھے بولا “میرے پیچھے آو”۔ میں کیمرا بیگ اٹھائے اس کے پیچھے چل دیا۔ اس وقت تک مجھے گمان بھی نہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ یہ سب پراسس مجھے نارمل لگ رہا تھا۔ میں بالکل نارمل اس کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ اک ہال نما کمرے میں لے آیا جہاں آٹھ سے دس لوگ موجود تھے۔ مجھے کہا گیا کہ یہاں خالی نشست پر بیٹھ جاو۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ بیٹھ کر غور کیا کہ میرے برابر جو لوگ موجود ہیں ان میں سے کچھ عراقی ہیں، ایک افغانی تھا، دو تین سیاہ فام تھے اور میں تھا۔
میرے گمان میں تو روس تھا۔ کوہ قاف کے پہاڑ تھے۔ سائبیریا کی ڈھلوانوں پر چڑتے گھوڑے تھے۔ خیالوں میں منصوبے ترتیب پا رہے تھے۔ میں روس کی سرزمین پر اتر چکا تھا۔ باہر دن روشن تھا۔ دنیا خوبصورت تھی۔ گھڑی صبح کے 9 بجا رہی تھی۔ دھیان کے گھوڑے سرپٹ بھاگ رہے تھے۔ مسافر کا گھوڑے سے تعلق پرانا ہے۔ ذرائع آمد و رفت وقت کے ساتھ جدید اور بہتر سے بہترین ہوتے گئے مگر مسافر کے ڈی این اے میں کہیں وہیں سفر ہوتے ہیں جو زمانہ قدیم میں انسان گھوڑے پر کیا کرتا تھا۔
میرے دیس کے پہاڑوں میں، کوہستان میں، یہ رواج نہ تھا کہ مسافر گھر کی دہلیز سے ہی گھوڑے پر سوار ہو جائے۔ جب تک وہ گاوں سے باہر نہ نکل جاتا وہ گھوڑے کی لگام تھامے پیدل ہی چلتا رہتا۔ اس کا سبب شاید یہ کہ وہ سوچتا کہ کیا کچھ پیچھے چھوڑے جا رہا ہے اور آگے سڑک پر سفر میں کیا کچھ اس کے سامنے آنے والا ہے۔ اسے کتنی ہی جلدی کیوں نہ ہوتی، وہ مرکزی سڑک تک آتے گھوڑے کی لگام تھامے، سوچتے، آہستہ آہستہ چلتا رہتا۔ پھر وہ اچھل کر زین پر بیٹھ جاتا۔ رکاب میں پاوں پھنساتے گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور گرد و غبار کے بادلوں میں ڈوب جاتا۔ میں بھی اس سفرنامے کی زین پر سوار ہوتے، اس مقام پر پہنچ کر ، کچھ سوچتا ہوا چل رہا ہوں۔ گھوڑے کی بھاگ ہاتھ میں لئے خیالوں میں کھویا ہوا کچھ سوچتا ہوا چل رہا ہوں۔ آگے کچھ کہنے سے پہلے میں ہچک رہا ہوں۔ جو مجھ پر بیت چکی اسے قلمبند کرتے ہچکچا رہا ہوں۔ ابھی وہ شب و روز دھیان میں لا کر ہاتھ کی انگلیاں کانپ رہی ہیں۔
اک سفر وہ ہے جس میں
پاوں نہیں دل تھکتا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply